روس یوکرین جنگ: لیزر ہتھیار کیا ہیں اور کیا یوکرین جنگ میں ان کا استعمال کیا گیا؟

ٹام سپینڈر - بی بی سی نیوز


یوکرین جنگ
روس نے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرین کے میدان جنگ میں اس کی فوج نے لیزر ہتھیاروں کا استعمال کیا تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ لیزر ہتھیار کے یوکرین جنگ میں استعمال کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا جبکہ یوکرین نے بھی روس کے دعوے کو پراپیگینڈا قرار دیا۔

لیزر ہتھیار کیا ہیں اور میدان جنگ میں کتنے مؤثر ہو سکتے ہیں؟

روس کے ڈپٹی وزیراعظم یوری بوریسوو نے رشین ٹی وی کو کہا کہ یوکرین جنگ کے دوران زڈیرا نامی لیزر ہتھیار کا پروٹو ٹائپ استعمال کیا گیا جس نے صرف پانچ سیکنڈ میں یوکرین کے ڈرون کو پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر جلا ڈالا۔

روس کے اس نئے لیزر ہتھیار سے پہلے پیر سیویٹ نامی ایک لیزر سسٹم بھی ایجاد کیا گیا تھا جس کا نام زمانہ قدیم کے ایک جنگجو پر رکھا گیا تھا اور اسے خلا میں سیٹلائیٹ کو نشانہ بنانے اور زمین پر معلومات جمع کرنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یوری بوریسوو نے کہا تھا کہ ’اگر پیرسیویٹ اندھا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو لیزر ہتھیاروں کی جدید قسم ٹارگٹ کو تباہ کر سکتی ہے، گرمائش سے، جلا کر۔‘

تاہم امریکی محکمہ دفاع کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ انھوں نے اب تک ایسا کوئی ثبوت نہیں دیکھا جس سے تصدیق ہو کہ روس نے یوکرین میں لیزر ہتھیار استعمال کیا۔

ادھر یوکرین کے صدر زیلینسکی نے روس کے دعوے کا تمسخر اڑایا اور اس کا موازنہ ان مافوق الفطرت ہتھیاروں سے کیا، جو نازی جرمنی کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے دوران تیار کیے جا رہے تھے۔

انھوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’جیسے جیسے یہ واضح ہو رہا ہے کہ جنگ جیتنے کے امکانات کم ہو رہے ہیں، ویسے ہی روس کی جانب سے زیادہ پروپیگینڈا کیا جا رہا ہے کہ ایسا طاقتور ہتھیار بنا لیا گیا ہے جو جنگ کے نتیجے کو بدل سکتا ہے۔‘

’اسی لیے ہم نے دیکھا کہ جنگ کے تیسرے مہینے میں روس مافوق الفطرت ہتھیار ڈھونڈ رہا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا مشن مکمل طور پر ناکام ہو چکا۔‘

یوکرین جنگ

لیزر ہتھیار کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں؟

زڈیرا لیزر ہتھیار کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں لیکن سنہ 2017 میں خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روسی میڈیا نے کہا تھا کہ روس کی سرکاری جوہری کارپوریشن روسا ٹوم نے اسے تیار کیا۔

دنیا میں کم از کم ایک ایسا ملک ضرور ہے جو لیزر ہتھیار واقعی بنا چکا ہے اور یہ ملک اسرائیل ہے۔

گزشتہ ماہ اسرائیل کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں لیزر سسٹم کو راکٹ اور ڈرونز کو نشانہ بناتے ہوئے دکھایا گیا۔

اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینٹ نے کہا ہے کہ یہ ڈرونز، توپ اور راکٹ حملوں کو روک سکتا ہے اور ہر بار اس کے استعمال پر محض 3.5 ڈالر کی لاگت آئے گی۔ ’یہ سائنس فکشن جیسا لگتا ہے مگر یہ حقیقت ہے‘ تاہم یروشلم میں انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجی اینڈ سکیورٹی سے منسلک دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر اوزی روبن کہتے ہیں کہ لیزر ٹیکنالوجی یوکرین کے میدان جنگ میں طاقت کے توازن کو تبدیل نہیں کر سکے گی۔

https://twitter.com/naftalibennett/status/1514661060011245571

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’زیلینسکی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ ہتھیار کوئی معجزہ نہیں کہ کسی ڈرون کو گرانے میں انھیں صرف چند سیکنڈز لگے۔ ایسا کرنے کے اور بھی بہتر طریقے ہیں، جیسے سٹنگر یا اینٹی ایئر کرافٹ میزائل جو سستے، تیز رفتار اور لانگ رینج ہیں۔‘

لیزر ہتھیار پہلے انفرا ریڈ لائٹ کی مدد سے اپنے ہدف کی گرمائش کرتے ہیں اور پھر اس ہدف میں آگ بھڑک اٹھتی ہے۔

ڈاکٹر روبن کے مطابق جدید لیزر ہتھیاروں کی قوت بھی کافی کمزور ہوتی ہے جس سے وہ میدان جنگ میں زیادہ فرق پیدا نہیں کر پاتے اور ایسے ہتھیاروں کا ’کِل ریٹ‘ (اموات کی شرح) بھی کم ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ فلم ’سٹار وارز‘ کی طرح نہیں جہاں آپ برے لوگوں کو لیزر گن دکھائیں اور بٹن دبا کر انھیں تباہ کر دیں۔ حقیقت میں یہ مائیکرو ویو اوون کی طرح ہے۔ اگر آپ پانی کو اُبالنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے وقت درکار ہو گا۔ لیزر ہتھیار بھی اسی طرح کام کرتے ہیں۔ اسے ہدف پر رکھنا ہو گا اور انتظار کرنا ہو گا کہ کب اس میں گرمائش پیدا ہو اور یہ پھٹ پڑے۔‘

ڈاکٹر روبن کے مطابق لیزر ٹیکنالوجی ایک وقت میں صرف ایک ہدف پر رکھی جا سکتی ہے جبکہ میزائل دفاعی نظام ایک وقت میں متعدد اہداف کا تعاقب کر سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جنگ میں بمباری کتنی موثر ہوتی ہے اور بموں کی تاریخ ان کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟

ویکیوم بم: کیا روس نے انسانی جسم کو تحلیل کرنے والا ہتھیار یوکرین میں استعمال کیا؟

روس کے پاس کتنے جوہری ہتھیار ہیں؟

مزید یہ کہ خراب موسم میں لیزر ہتھیار کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ وہ بارش یا برف میں کام نہیں کرتے جبکہ لیزر بادلوں میں سے نہیں گزر سکتے تاہم وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کی ’آئرن بیم‘ اہم ہے کیونکہ یہ پیسوں کی بچت کا طریقہ ہے۔ اسرائیل کی مہنگی آئرن ڈوم میزائل ٹیکنالوجی کو اس طرح بنایا گیا کہ یہ بڑے شہروں کو آنے والے میزائلوں سے بچا سکتی ہے، نہ کہ توپ حملوں یا ڈرونز سے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میزائل وارفیئر دراصل وسائل کی جنگ ہوتی ہے۔ اس لیے آپ اپنے اخراجات بچانے کے لیے جو بھی کریں وہ کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ توانائی کے ہتھیار اخراجات کم رکھنے میں کام آتے ہیں لیکن یہ کوئی انقلاب نہیں لا سکتے۔‘

دریں اثنا آسٹریلیا کے ریٹائرڈ میجر جنرل مِک رائن نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ روس یہ لیزر میدان جنگ میں یوکرینی فوجیوں کو اندھا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

خیال رہے کہ سنہ 1995 کے اقوام متحدہ کے پروٹوکول کے تحت اس پر پابندی عائد ہے۔ ان اصولوں کے تحت کوئی ایسا ہتھیار استعمال نہیں کیا جاسکتا جو بلاامتیاز نقصان پہنچائے۔

اس پروٹوکول پر روس، امریکہ، برطانیہ اور دیگر کے دستخط بھی موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments