اسیری


:

گرمیوں کا موسم تھا سورج آسمانی دنیا پر اپنے مکمل جاہ و جلال سے جلوہ فگن اس فانی دنیا کی ناتواں مخلوق پر آگ برسا رہا تھا۔ پارہ اس قدر بلند تھا کہ محنت کش چیونٹیاں بھی اپنے بلوں سے باہر نکلنے کے تمام ارادے ترک کر چکی تھیں لیکن ہمارے گھر کی تعمیر کرنے والا مزدور پسینے میں شرابور اپنے ان کندھوں پر اینٹوں کا بوجھ اٹھا رہا تھا، جن پر پہلے ہی چھ جوان بیٹیوں اور ایک معذور بیٹے کی ذمہ داریوں کا بوجھ پڑا تھا۔ اس کی دودھ کی طرح سفید داڑھی دھول مٹی سے اٹی ہوئی اس کی پیشانی سے بہنے والے پسینے کے قطروں سے غسل کر کے تر ہو رہی تھی۔

اور میں اپنے گھر کے صحن میں لگے برگد کے درخت تلے ائر کولر کی ٹھنڈی ہوا کے آگے بیٹھا اسے دیکھ کر اناڑی فلسفی کی طرح سوچ کے ہمالیہ کو سر کرنے کی کوشش کرنے لگا جو آج تک میں کبھی نہیں کر سکا۔ کہ ڈارون کی تھیوری کو اگر حقیقت مان لیا جائے (اگرچہ میں اس سے تاحال اختلاف رکھتا ہوں ) کہ ”انسان پہلے بندر نما جانور تھا اور بعد ازاں ارتقائی مراحل سے گزر کر اس نے آج کے اس معاشرتی حیوان کی صورت اختیار کر لی ہے“ ۔ تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر یہ ارتقائی عمل ہوتا ہی نا۔ ہم بندر نما جانور ہی رہتے۔

شام و سحر کے تمام مسائل سے بے نیاز ہوتے، نہ کسی کو منانے کی فکر ہوتی، تو نہ کسی کے روٹھ جانے کا ڈر۔ نہ وصل محبوب کی آرزو میں خاردار راہوں کا مسافر بننا پڑتا اور نہ ہی حجر محبوب کے ابلتے ہوئے آتش فشاں کی جھلسا دینے والی تپش کو برداشت کرنا پڑتا۔ نہ تعلیمی سفر کرنا پڑتا اور نہ جہالت کے طعنے سننے کو ملتے۔ نہ جوانی کے کندھوں پر بوجھ ہوتا اور نہ بچپن کے لوٹنے کی آرزو۔

اسی اثناء میں وہ بزرگ میرے پاس درخت کے سائے میں پڑے مٹی کے پیالے میں پانی انڈیلتے ہوئے گویا ہوئے ”چھوٹے میاں کن سوچوں میں کھوئے ہیں؟“ میں نے گلا صاف کرتے ہوئے فلسفیانہ لہجے میں کہا ”میں سوچ رہا تھا کہ کیا خوب ہوتا اگر ہم بندر ہی رہتے۔

خوشی خوشی زندگی بسر کرتے۔ کھلی ہوا میں سانس لیتے، کھاتے، پیتے اور سو جاتے۔ ہمارے دل کے آئینے بغض، کینہ اور حسد کے دھبوں سے پاک ہوتے۔ زبان کبھی جھوٹ، غیبت، چغلی کی مرتکب نہ ہوتی۔ زندگی کا الگ ہی مزہ ہوتا ”۔

بزرگ پانی کا پیالہ منہ سے لگائے انتہائی انہماک سے میری باتیں سن رہے تھے۔ سورج کی کرنوں سے تمتماتا ہوا ان کا سرخ اور بارعب چہرہ اپنے اندر انتہائی سحر انگیز مقناطیسی کشش رکھتا تھا۔

خیر میں نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا ”نہ زندگی میں فرائض بندگانی کی کوئی پابندیاں ہوتیں، نہ موت کے بعد حساب و کتاب کا معاملہ۔ نہ گھڑی کی چکر کاٹتی ہوئی سوئیوں کی غلامی کرنا پڑتی اور نہ ہی ماہ و سال کا حساب رکھنا پڑتا۔ نہ کندھوں پر والدین کے احسانات کا بوجھ ہوتا۔ نہ سر پر جوان بیٹی کی شادی کی ننگی تلوار لٹکتی۔

نہ ہی دوستوں کی بے وفائی کے زخم ہوتے اور نہ ہی دشمن کی دشمنی کا ڈر۔ نہ زندگی میں جہد مسلسل کا طوق گلے میں ڈالنا پڑتا اور نہ ہی عمل پیہم کی ہتھکڑی ہاتھوں میں۔ نہ یاد ماضی کا عذاب مسلط ہوتا اور نہ حال و مستقبل کی فکر۔

ہم معاشی، معاشرتی، اخلاقی، سماجی، سیاسی، ملکی اور قانونی قیودات کے قفس سے آزاد ہوتے۔ تو کتنا ہی اچھا ہوتا۔ ان بزرگ نے میری جانب مسکرا کر دیکھا اور یہ کہتے ہوئے اپنے کام کی جانب چل پڑے۔

کوئی بتلائے اس طائر ناسوت کو قیصر
اسیری ہی رہائی ہے تمھیں معلوم ہی کیا ہے۔

علی معراج عباسی
Latest posts by علی معراج عباسی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments