اپنے حصے کا رزق تلاش کرتے بچے


رمضان کا آخری عشرہ چل رہا تھا اور عید کی تیاری زوروں پر تھی۔ یہ وہ عشرہ ہوتا ہے جس میں عبادات پہ زور تو بہت دیا جاتا ہے لیکن عید قریب ہونے کے باعث مسجدیں کم اور بازار زیادہ بھر جاتے ہیں۔ عید قریب ہو اور بازاروں میں رش نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ خواتین گھر، بازار اور عبادات کے بیچ گھن چکر بنی ہوتی ہیں، یہی رمضان کا خاصہ ہے۔

شاپنگ کے لیے دوپہر کے نکلے تو شام ہو گئی، لیکن شاپنگ مکمل ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔ افطاری کا وقت قریب ہونے کی وجہ سے بازار میں شاپنگ کے لیے لوگ نہ ہونے کے برابر رہ چکے تھے۔ چھوٹا شہر ہونے کی وجہ سے کچھ دکاندار دکانیں بند کر کے گھروں کو جا چکے تھے۔ کچھ دکانیں بند کر رہے تھے اور چند ایسے تھے جو گاہک کے انتظار میں افطاری دکان پر ہی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ قریب ہی موجود کھانے پینے کی دکانوں پر خوب رش لگا تھا۔

سموسے، پکوڑے اور چاٹ خریدنے والوں کی کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی، افطاری کے لیے لوگ شاپر بھر بھر کے چیزیں لے جا رہے تھے۔ ہم بھی افطاری کے لیے کوئی مناسب جگہ تلاش کر رہے تھے کہ مجھے پیچھے سے کوئی چیز لگی۔ مڑ کر دیکھا تو میرے پیچھے نو دس سال کے لگ بھگ دو بچے چلے آرہے تھے جن کے کاندھوں پر میلے چیکٹ تھیلے لٹک رہے تھے۔ غالباً ان میں سے ایک بچے کا تھیلا مجھ سے ٹکرایا تھا۔ دیکھ کر نہیں چل سکتے، میں غصے میں بچوں پر چلائی۔

جانے کتنے جراثیم میرے ساتھ لگ چکے ہوں گے، اب گھر جا کر فوری لباس تبدیل کرنا پڑے گا، سخت کوفت ہوئی۔ بچوں کے پیچھے بائیک والے نے ہارن دیا تو میں نے سائیڈ پہ ہو کر اسے راستہ دیا، وہ دونوں بچے نہیں رکے۔ دونوں بچے اپنی دنیا میں مگن اب میرے آگے چلنے لگے۔ وہ دونوں جگہ جگہ پھیلے گتے اور پلاسٹک کے خالی ڈبے اٹھا اٹھا کر اپنے تھیلوں میں ڈال رہے تھے۔ ایک بچہ بھاگ کر بند دکان کے تھڑے پر جا بیٹھا۔ اور دوسرا بھی اسی طرف لپکا۔

اس بند دکان کے تھڑے پر رسک کا پیکٹ کھلا پڑا تھا۔ بچوں نے ایک ایک رسک اٹھا کر منہ میں ڈال لیا، جبکہ ایک بچے نے باقی رسک اکٹھے کیے اور اپنے میلے تھیلے میں رکھ لیے ۔ یہ منظر دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، کہ میں جو ایک میلا تھیلا اپنے کپڑوں کے ساتھ لگنے سے خفا ہو رہی تھی کہ اس تھیلے کی وجہ سے میرے ساتھ جراثیم لگ گئے ہیں۔ اور دیکھو تو ان بچوں کا تو رزق اسی میلے چیکٹ تھیلے میں رکھا تھا جس میں جانے کیسی کیسی گندی جگہوں سے چیزیں اکٹھی کر کے رکھی گئی تھیں۔

کیا ان بچوں کو اندازہ ہو گا کہ تھیلے میں رکھی اس خوراک کے ساتھ کس قدر جراثیم وہ اپنے اندر اتاریں گے۔ لیکن انھیں اندازہ کیسے ہو گا ان کا رزق تو روز انھی گندی جگہوں سے اکٹھا ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے والی کراہیت غائب ہو چکی تھی۔ اور میرے اندر کا حساس انسان بیدار ہوا تھا۔ مجھے ان بچوں سے ہمدردی محسوس ہونے لگی۔ جن کی کھلونوں سے کھیلنے اور سکول پڑھنے کی عمر تھی اس عمر میں یہ گتے اور کاغذ چننے کی صورت میں تلاش معاش کا بوجھ کندھوں پہ اٹھائے پھر رہے تھے۔ اور پھر اسی بوجھ میں اپنی بھوک مٹانے کا سامان جمع کر رہے تھے۔ بھوک بھی کیسی ظالم شے ہے جب لگی ہو تو پھر دوسرا کوئی احساس زندہ نہیں رہنے دیتی۔

اب میرے سامنے دو طرح کے لوگ تھے وہ جو اپنے بچوں، اپنے پیاروں کے لیے مختلف اشیائے خورد و نوش خرید کر گھروں کو جا رہے تھے۔ اور دوسرے دو بچے جو لوگوں کا بچا کھچا سڑک پر پھینکا ہوا کھا رہے تھے اور اپنے پیاروں کے لیے لے کر جا رہے تھے۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میرا دل چاہا دونوں کو نہیں تو کسی ایک بچے کو اپنے ساتھ گھر لے جاؤں اور اس کی اچھے طریقے سے پرورش کروں۔ یا اگر ایسا نہیں کر سکتی تو کم از کم ان کو اپنے ساتھ بٹھا کر ایک وقت کا اچھا سا کھانا کھلا دوں۔ لیکن ظاہر ہے تمام ’وضع دار‘ لوگوں کی طرح میں بھی ’مجبور‘ تھی۔ بعد میں مجبوری کے نام پر اپنی بے حسی پر شدید افسوس ہوا۔ لیکن سوائے افسوس کے کچھ نہیں کر سکتی کہ آخر کو شہر بھرا پڑا ہے ایسے بے شمار بچوں سے۔

جس وقت آپ یہ کالم پڑھیں گے اس وقت رمضان گزر چکا ہو گا۔ افطار کے وقت کی افراتفری قصہ ماضی بن چکی ہوگی اور ہم سب اپنی اپنی روٹین میں واپس آ گئے ہوں گے۔ میرے دل پہ پڑنے والا یہ بوجھ بھی قریبا ختم ہو چکا ہو گا اور میں بھی ان بچوں کا غم بھلائے اپنی زندگی میں مصروف ہو چکی ہوں گی

لیکن کچرا چنتے ان بچوں کی روٹین میں کبھی کوئی فرق نہیں آئے گا۔ آنے والے کل کی فکروں سے بے نیاز اپنے کاندھوں پہ تلاش معاش کا بوجھ اٹھائے جگہ جگہ سے کچرا چنتے رہیں گے۔

گندے ماحول گندی خوراک سے پل کر یہ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہوں گے۔ کچرا چنتے یہ ننھے ہاتھ بوڑھے ہوجائیں گے لیکن ان کی قسمت نہیں بدلے گی۔ کچرے کے ڈھیر سے حاصل ہوئی خوراک سے انھیں کبھی کراہیت آئے گی نہ کوئی دوسرا انھیں اس کا احساس دلائے گا۔ اور پھر ایک دن کچرے کے ڈھیر ہی سے رزق تلاشنے والے یہ کسی خستہ حال جھگی کے ننگے فرش پر اپنے جیسے وارث چھوڑ کر مر جائیں گے۔

اور اس سے بھی بڑی سچائی یہ ہے کہ میرے آپ کے جیسے بہت سارے انھیں حقیر سمجھ کر ان سے اپنا دامن بچا کر گزرتے رہیں گے یا کچھ ترحم بھری نظروں سے بھی دیکھیں گے۔ کوئی قلمکار ان پہ کچھ لکھ کے اپنی کہانی بیچے گا اور داد سمیٹے گا۔ اور ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ ہی ان کا سب سے بڑا خیر خواہ ہے جس نے بچوں کے حقوق پہ لکھ کر اپنا فرض ادا کر دیا۔ لیکن اصل سچ یہ ہے کہ ان پر لکھا ہوا ان کے کسی کام نہیں آئے گا۔ ان کا بچپن زندہ رکھنے، ان چھوٹے معصوم ہاتھوں سے معاشی بوجھ کا تھیلا لے کر ان میں کتاب تھمانے، ان کی زندگیاں بدلنے کوئی آگے نہیں بڑھے گا۔ انھیں پستیوں سے نکالنے کی حقیقت میں کوشش کوئی نہیں کرے گا۔ آگے بڑھ کر کوئی ان کو ایسا رزق کھانے سے نہیں روکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments