یوم تکبیر اور پاکستان کی عظمت


پاکستان کے جوہری منصوبے کی کامیابی کا قصہ تسلسل کا ایک سلسلہ ہے۔ ایک سیاسی قیادت دوسری سیاسی قیادت میں منتقل ہوتی رہی۔ اغیار اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ دوسری جانب پوری پاکستانی قوم نے اس منصوبے کی حفاظت کی اور سیاسی قیادت نے اس منصوبے کو ایک قومی راز کے طور پر اپنے سینے میں رکھا جب تک کے ایٹمی دھماکے نہ ہوئے۔ یوم تکبیر ہر سال 28 مئی کو منایا جاتا ہے پاکستان کو ایٹمی قوت بنے 23 سال مکمل ہو گئے یہ ہی وہ یادگار دن ہے جب پاکستان دنیا کے سامنے پہلی اسلامی ایٹمی قوت بن کر ابھرا اور پاکستان نے ایٹمی تجربات کر کے ملکی دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا۔

پاکستان کے دفاع کے لیے ضروری تھا کہ پاکستان ایٹمی قوت بنے کیوں کہ بھارت کے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد خطے میں دفاعی توازن برقرار نہیں تھا، پاکستان اور بھارت کے الگ ہوتے ہی بھارت نے امریکہ اور اتحادیوں کی مدد سے اپنے ایٹمی پلانٹ پر کام شروع کر دیا تھا، پھر انڈیا نے ایک دھماکہ 1974 میں کیا، عالمی طاقتوں نے بھارت کو ایٹمی پروگرام روکنے کے لیے زور نہ دیا آخر کار انڈیا نے 11 اور 13 مئی 1998 کو یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کر دیے، دھماکوں کے بعد انڈیا کی جانب سے پاکستان کو دھمکی آمیز بیانات دیے جانے لگے، پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے بھارت کو جواب دیے جانے کا مطالبہ ہوا، شدید عوامی دباؤ اور بھارت کے عزائم کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر متعدد ممالک پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے آگے بڑھے۔

اس کو روکنے کے لیے حربے کیے گئے۔ لالچ اور پابندیوں کے پیغام بھجوائے گئے۔ یہ ایک کڑا وقت تھا، اس سارے معاملے میں اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پر بہت دباؤ تھا، لیکن جلد ہی حکومت نے دو ٹوک فیصلہ کر لیا اور دھماکوں کے لیے بلوچستان کے علاقے چاغی کی پہاڑی کو چنا گیا۔ 28 مئی 1998 کی صبح پاکستان کی تمام عسکری تنصیبات کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ دھماکے کے مقام سے دس کلومیٹر دور آبزرویشن پوسٹ پر دس ارکان پر مشتمل ٹیم پہنچ گئی جن میں اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک، کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے چار سائنس دانوں کے ساتھ پاک فوج کی ٹیم کے قائد جنرل ذوالفقار شامل تھے۔

تین بج کر 16 منٹ پر فائرنگ بٹن دبایا گیا جس کے بعد چھ مراحل میں دھماکوں کا خود کار عمل شروع ہوا۔ 28 مئی 1998 ء مسلمانوں کے لئے ایک تاریخ ساز دن تھا جب اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ایک ایسے ہتھیار کا تجربہ کیا جو دنیا کا مہلک ترین ہتھیار مانا جاتا ہے، قوموں کے عروج و زوال میں جہاں دوسرے عناصر کارفرما ہوتے ہیں وہاں ٹیکنالوجی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے، بہادری کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی ایسے ہتھیار کی ضرورت ہوتی ہے جو مستند، نایاب اور کارآمد ہو، پاکستان نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ اس کے ہدف پر پھینکنے کے سلسلے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔

شاہین III میزائل بھارت کے ہر حصہ کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ ہمارا بابر III میزائل 700 کلومیٹر تک آبدوز سے زمین اور سمندر میں تارپیڈو کے طور پر کام کرتے ہوئے جہاز یا آبدوز کو تباہ کر سکتا ہے۔ پاکستان نے اپنی بقا کے لئے جو تیاری شروع کی تھیں وہ زوروشور سے جاری ہیں، اس میں جہاں ہم اپنے ہیروز ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف تک تمام سیاستدانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، وہاں بہت سے ایسے سائنسدانوں اور انجینئروں، فورسز کے تمام مارخور خفیہ ہاتھوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جن کا نام تک کسی کو نہیں معلوم، ان سب کو اللہ پاک دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں عطا فرمائے۔

اس وقت پاکستان کا دفاع اللہ کے فضل سے ناقابل تسخیر ہے۔ 28 مئی دن برصغیر اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے انتہائی مبارک دن ہے اور وہ پہاڑ جہاں یہ دھماکے ہوئے وہ پاکستان کی شان و شوکت اور عظمت کے گواہ ہیں اور اللہ کی ثنا اور تکبیر کا نعرہ بلند کر رہے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments