پہاڑوں کی طرح سوچیں


کوہ ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے سنگم میں رہنے والے وہ لوگ جو کہ شنا، بلتی، بروشسکی، کھوار، وخی اور دیگر علاقائی زبانیں بولتے ہیں ان کی پہچان کا پیمانہ گلگت بلتستان ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ خطہ مختلف تہذیبوں خاص طور پر بروشال، دردستان اور بلورستاں کا حصہ رہا ہے۔ یکم نومبر 1947 سے اب تک اس خطے کے فیصلے ہمیشہ مقتدر طاقتیں اور غیر مقامی لوگ ہی کرتے آئے ہیں کیونکہ اس خطے کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں پہ کالے قوانین نافذ کر دیے جاتے ہیں اور ان پر زد و کوب کیا جاتا رہا ہے، ساتھ ساتھ طلبہ کے ذہنوں پہ قابض رہنے کے لیے ایسے ادارے بنا دیے گئے ہیں جو مکمل طور پر طلبہ کو ذہنی طور پر مفلوج اور غلام بنانے میں اپنا پورا کام ایمانداری سے کر رہے ہیں۔

ایلڈو لیوپولڈ ایک امریکی مصنف، فلسفی، ماہر فطرت، سائنسدان، ماہر ماحولیات، جنگلات، تحفظ پسند، اور ماہر ماحولیات تھے جنہوں نے 1994 میں انہوں نے اپنی تصنیف (تھنک لائیک ماؤنٹین) پہاڑوں کی طرح سوچو شائع کی۔ جس میں انہوں نے ماحولیاتی اخلاقیات، ماحولیاتی تحفظ، اور ماحول دوست انسانی رویے کی بات کی ہے۔ اور اس بات کی تلقین بھی کی ہے کہ ”ہم زمین کا غلط استعمال کرتے ہیں کیونکہ ہم اسے اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ جب ہم زمین کو ایک کمیونٹی کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے ہمارا تعلق ہے، تو ہم اسے پیار اور احترام کے ساتھ استعمال کرنا شروع کر سکتے ہیں۔

“ چونکہ خطہ گلگت بلتستان قدرتی حسن سے مالا مال ایک ایسا ہے خطہ ہے جہاں قدرت کا بسیرا ہے اور بقول نواز خان ناجیؔ جو ہمیشہ اپنوں کے لیے بنجر اور دوسروں کے لیے زرخیز رہی ہے۔ ایلڈو لیوپولڈ نے جس ماحولیاتی تربیت کی بات کی ہے یاد رہے کہ اس کا ہم سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں کیونکہ پاکستانیوں کی نظر میں حسین و جمیل قوم (جو کہ نہیں ہیں ) ہونے کے ناتے تعلیم و تربیت ہماری ترجیحات میں رہی ہی نہیں بلکہ اس کے برعکس گوگل (معلومات کا صندوق) بننے کو ترجیح دی ہے جس سے اتنا فائدہ ہوا ہے کہ ہماری خواندگی کی شرح میں اضافہ ہو گیا۔

چونکہ تاریخی حقائق اور موجودہ صورتحال پہ بہت کچھ لکھا جا رہے ہے لہذا ہم اپنا کلیجہ وہاں جلانے کی بجائے اس خطے کے حسن پہ بات کرتے ہیں کیونکہ ہمارے لوگوں کا پسندیدہ عنوان ہی اس وادی کی خوبصورتی بیان کرنا ہے نہ کہ حق کے لیے آواز اٹھانا۔ خیر اس خطے کو کیا کچھ نہیں کہا جاتا سر کا تاج، جھومر، بہشت اور بہت سارے تصوراتی نام۔ اس خطے کو یہ نام دلانے میں سب سے اہم کردار شاہرہ قراقرم کا ہے۔ 1978 میں جب اس شاہرہ کو عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ اس شاہرہ کی بدولت ہمیں جو سب سے بڑا تحفہ ملا وہ یہ ہم نے دوسروں پہ دار و مدار رہنا سیکھ لیا اور حد تک دار و مدار ہوئے کہ اپنی پیداواری صلاحیتوں کو چھوڑ کر دوسرے خطے کی طرف دیکھنے لگے کہ وہاں سے سب کچھ آ جائے۔ ایک عام انسان کو اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا چاہیے کہ وہ طفیلی بن جائے۔

چونکہ ہم مکمل طور پر طفیلی بن گئے ہیں اور ہمارے پاس کچھ کرنے کو نہیں ہے تو ہم یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ آخر ایلڈ صاحب کو کیا آفت آن پڑی کہ وہ یہ کہہ گئے کہ پہاڑوں کی طرح سوچو۔ آخر کیا رکھا ہے ان پہاڑوں میں ان کے بلند و بالا جاہ و جلال میں؟ ان سوالات کے جوابات وہ اپنی کتاب میں اس طرح دیتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں تحفظ اور ترقی کے لیے ایک طویل المدتی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہیے، تاکہ متعدد پیچیدہ باہمی انحصار کو تسلیم کرتے ہوئے جو ایک صحت مند ماحول کی وضاحت اور اسے برقرار رکھے۔

آئیں مختصراً گلگت بلتستان کے تناظر میں اسے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ شاہرہ قراقرم کی آمد سے جہاں چند فائدے ہوئے وہی اس خطے میں بغیر کسی پائیداری منصوبہ بندی کے ترقی کرائی گئی جس سے خطے کا قدرتی ماحول میں بگاڑ پیدا ہونے لگا جس کا ہم اندازہ نہیں لگا پائے اور وقتی ترقی کو خوشی خوشی قبول کر لیا۔ ہماری اسی مادی خوشی کو دیکھتے ہوئے ریاست پاکستان اور ریاست چین نے 2015 کو ہماری قسمت کا ایک اور فیصلہ کر ڈالا جیسے ہم چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کے نام سے جانتے ہیں۔

چونکہ ہمارے فیصلے غیر مقامی لوگ ہی کرتے ہیں لہذا ہم نے سوچا کہ ہمارے حق ہی کیا ہو گا اسی لیے من و عن اس فیصلے کو تسلیم کر لیا (نہ کرنے کا حق ہمارے پاس نہیں ) ۔ ان فیصلوں سے مقامی لوگوں کو مادی طور پر اتنا فائدہ ہوا کہ انہوں نے ماحول کو اہمیت دینی چھوڑ دی۔ شاہرہ قراقرم کی وجہ سے اقتصادی راہدری کے دندناتی گاڑیوں کی آمد و رفت میں اضافہ ہوا وہی سیاحت کو فروغ حاصل ہوا اور وہی مقامی لوگوں نے غیر کسٹم پیڈ گاڑیوں کی وادی میں ایسے بھر مار کردی۔

سی پیک، سیاحتی گاڑیوں، اور غیر کسٹم پیڈ گاڑیوں سے نکلنے والی زہریلی گیس کلورو فلورو کاربن کی پیداوار میں اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ قدرت نے اس خطے سے منہ موڈ لیا ہے کیونکہ پچھلے چند عرصے سے ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب، برفانی جھیل کے پھٹنے والے سیلابوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے خوف و ہراس کا ایسا عالم پیدا ہو گیا ہے کہ معلوم نہیں کب کہاں کوئی واقع رونما ہو جائے۔

آخر میں صرف اتنی گزارش کرنا چاہوں گا کہ جن کے فیصلوں کو لبیک کہہ کر من و عن ہم نے تسلیم کیا وہی فیصلے ہمارے لیے وبال جان بنتے جا رہے ہیں اگر ہم اپنی وادی اور اپنی نسلوں کے بہتر مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں تو ہمیں پہاڑوں کی طرح بہتر اور پائیدار فیصلے خود کرنے ہوں گے تاکہ ہماری نسلیں بہتر ماحول میں پروان چڑھ سکیں جہاں ایک بہتر ذہن کی پرورش ہو نہیں تو وادی کے ساتھ ساتھ ہماری نسلوں کا مستقبل بھی ان قدرتی و انسانی سیلابوں کی زد میں تباہ نہ ہو جائے جن سے ہم آج خائف ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments