خان صاحب گھبرانا نہیں ہے


یوں لگتا ہے کہ جیسے وقت کا پہیہ الٹ چل پڑا ہے۔ یا پھر یہ کہ ہم ایک ہی جگہ پر کئی سالوں سے کھڑے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم آگے کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ حبیب جالب نے کہا تھا کہ گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے، یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہیں۔ جالب کی طرح ہم بھی اس گمان میں رہے کہ رستہ کٹ رہا ہے مگر حقیقت میں ہم منزل کھو رہے ہیں۔ جمہوری سیاست میں حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے بلکہ آہستہ آہستہ اپنی غلطیوں سے سیکھ کر سست سہی مگر آگے کا سفر جاری رہتا ہے۔ غلطیوں سے سبق سیکھا جاتا ہے آگے کا سفر کیا جاتا ہے بہتری کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر سیاسی عمل ایک جیسی کیفیت میں رک جائے تو جوہڑ کی طرح بدبو پیدا ہوجاتی ہے لہذا پانی کی طرح سیاست کو بھی ہمیشہ رواں رہنا چاہیے تاکہ اس سے فائدہ پہنچے

مگر وطن عزیز میں ایک سیاسی جماعت کا سیاسی سفر جمود کا شکار ہے۔ 2014 میں دھرنے سے احتجاجی سیاست سے بام عروج حاصل کرنے والی تحریک انصاف ابھی تک اس احتجاجی مرحلے سے باہر نہیں نکل سکی۔ اقتدار ملا اور چھن بھی گیا مگر پارٹی قائدین کے رویے وہی رہے جو آٹھ سال قبل تھے بیانیہ وہی رہا جو ڈی چوک پر اپنایا گیا۔ اپوزیشن کے مطابق مبینہ عمران پراجیکٹ کی 2013 میں لانچنگ ناکام ہوئی تو سیاسی قد کاٹھ بڑھانے کے لیے 126 دن کے دھرنے کا پلان بنایا گیا۔ دست شفقت سر پر تھا تو کسی کی کیا مجال کہ ڈی چوک میں پہنچنے سے روکے۔ لہذا ڈی چوک پہنچ کر وہ دھمال ڈالی کہ گھنگرو توڑ ڈالے۔

سب کچھ ٹھیک ہو گیا تو 2018 کے عام انتخابات میں اپنے ہاتھوں سے تراشے گئے رہنما کو اقتدار کے مندر میں براجمان کر کے سجدہ تعظیم بجا لایا گیا۔ خوابوں کو گویا تعبیر مل گئی دل کی مرادیں بر آئیں۔ اب وقت تھا کہ خوابوں کو سچ کرنے کے لیے کام کیا جائے اور اپنی پرفارمنس سے ہر اس نقش کہن کو مٹا دیا جائے جو نظر آئے۔ مکمل یکسوئی سے نئے پاکستان کی تعمیر کی جائے۔ مگر من پسند لاڈلے کا سیاسی مزاج ہی ایسا بن گیا کہ سوائے سیاسی مخالفین کو دھمکیاں دینے کے کچھ بھی نا ہوسکا۔

اقتدار میں آنے کے باوجود کپتان اور اس کی سیاسی جماعت کا سیاسی سفر رک گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی ترقی کا سفر بھی رک گیا۔ تبدیلی سرکار سمجھتی رہی کہ رستہ کٹ رہا ہے مگر ایسا نہیں تھا بلکہ بدترین طرز حکمرانی کے سبب نئے پاکستان کی منزل کھو رہے تھے۔ ممکنہ ترقی کا سفر کھو رہے تھے معاشی ترقی کی راہ سے بھٹک رہے تھے۔ کپتان میر کارواں تھا اور ناخدا بھی۔ مگر کپتان نے نا تو قافلے کا سوچا اور نا ہی کشتی کو کنارے لگانے کی جدوجہد کی۔ گہرے پانیوں میں سفر کرتی کشتی کا ناخدا اگر کشتی سے مخلص نا ہوتو ہوائیں بھی مخالف ہوجاتی ہیں پرسکون سمندر میں بھی طغیانی آجاتی ہے

ایسا ہی ہوا اور تبدیلی سرکار کی کشتی اپنے غیر سیاسی رویوں کی بدولت ڈولنے لگی۔ کم وبیش چار سالہ اقتدار کے باوجود کپتان کا سیاسی رویہ اور لب و لہجہ وہی رہا تو دھرنے کے دوران کنٹینر پر تھا۔ تنگ آ کر دست شفقت ہٹا لیا گیا اور اگلے ہی لمحے میں نتیجہ یہ نکلا کہ تاریخ میں پہلی بار تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔ اقتدار بنی گالہ سے رائے ونڈ جاتی عمرہ منتقل ہو گیا۔ گویا پل بھر میں سیاسی منظر نامہ بدل گیا طاقت کے مراکز بدل گئے۔ کوہ نور ہیرا سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کمزور کے پاس نہیں رہا ہر طاقتور کے پاس رہا ہے ایسے ہی اقتدار طاقتور کے پاس رہتا ہے۔

کپتان نے ایک جذباتی فضا تخلیق کی اور کامیاب رہا۔ عوامی رائے بہتر ہوئی کسی حد تک ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو سوچا کہ 2014 میں دھرنے والی فضا دوبارہ تخلیق کی جائے تاکہ آئندہ اقتدار حاصل کرنے میں آسانی رہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پشاور میں بیٹھ کر 25 مئی کو آزادی مارچ کا اعلان کر دیا۔ سوچا کہ دوبارہ ڈی چوک پر دھرنا دے کر اپنے مطالبات کو منظور کرا لیا جائے۔ ایک بار پھر سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کنٹینر پر سے دھواں دار بیانات دے کر کیا جائے۔

مگر اب اتنا آسان کہاں تھا اب تو وہ دست شفقت بھی میسر نہیں تھا جس کی بدولت وہ کام بھی ہو گئے جو ممکن بھی نہیں تھے۔ لہذا پہلی بار حقیقی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ 2014 والے ہی حالات ہیں کہ نون لیگ برسراقتدار ہے تو کپتان اپوزیشن میں ہے چونکہ دست شفقت نہیں ہے تو بسیرا بنی گالہ کی بجائے پشاور میں ہے۔ رہی بات ورکرز کی تو جنہوں نے ٹینکوں کے آگے لیٹنا تھا وہ غائب ہیں۔ اس لانگ مارچ کا عملی مظاہرہ صرف سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک محدود ہو گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اب ہو گیا کیا تو جواب یہ ہے کہ ہو گا وہی جو طاقت ور چاہے گا۔ اور طاقت ور کی کیا مرضی ہے تو اس کا اندازہ حالیہ کریک ڈاؤن سے لگایا جاسکتا ہے۔ کپتان کا اور اس کے ورکرز کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔ کپتان کب تک ثابت قدم رہتا ہے اس کا اندازہ آئندہ چند روز میں ہو جائے گا۔ فی الوقت تو لانگ مارچ کی کال دے کر کپتان نے حکومت میں جان ڈال دی ہے۔ کپتان نے غلط سیاسی حکمت عملی کے تحت عوام کی توجہ مہنگائی سے ہٹا دی ہے اور حکومت کو سانس لینے کا موقع دیا ہے۔

جو بھی ہے فی الوقت تو حکومت ریلیف ملا ہے اور جہاں تک بات ہے کپتان کی تو صرف یہی کہوں گا کہ خان صاحب آخر اتنی عجلت میں کیوں ہیں۔ کیا الیکشن کرانے سے آپ برسراقتدار آ جائیں گے۔ اگر الیکشن میں ہار گئے تو کیا سیاسی مخالفین کی جیت کو تسلیم کر لیں گے۔ اگر ان کی جیت کو تسلیم نہیں کرتے تو سیاسی سفر آگے کیسے بڑھ پائے گا۔ اور آخری بات یہ خان صاحب آپ نے گھبرانا بالکل نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments