بستی اجڑنے والی ہے


”کنک کٹنے کی دھم دھم کی آواز اٹھتی تھی اور پاروشنی کے ویہڑے سے اوپر ہوتی تھی اور پھر پھیلتی تھی۔ اجاڑ چھپروں پراور ریت سے اٹی گلیوں میں اور ڈوبو مٹی پر جو کبھی تھی اور وہاں جہاں کبھی رکھ تھے اور اب ریت تھی اور ایک سوکھی ٹہنی تھی اور مور کا پنجر تھا جس کے جھاڑو کے رنگ اڑ چکے تھے اور وہاں جہاں کبھی دریا تھا اور اب اونچے خالی کنارے تھے اور ان میں پانی کے بجائے دھم دھم کی آواز ٹھہرتی تھی اور تیرتی تھی“ ۔

”بہاؤ“ از مستنصر حسین تارڑ

ناعاقبت اندیش حکمران آنے والی اس قیامت سے بے خبر ہیں یا شاید بے خبر تو نہیں لیکن ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ حصول اقتدار اور پھر اس اقتدار کو دوام بخشنے میں اتنے مصروف ہیں کہ یہ سوچنے کا وقت ہی کس کے پاس ہے کہ پیاس اور خشک سالی نے ملک میں پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ چولستان میں پانی کی بوند بوند کو ترستے لوگ اور خشک ہوتے دریا ان کی بے حسی پر نوحہ کناں ہیں۔

چناب جو کبھی گہرے پانیوں کا مسکن ہوا کرتا تھا اب ریت اور مٹی کا ایک قبرستان بن چکا۔ جہاں اب پانی نہیں ریت اڑتی ہے اور اس قبرستان سے جہاز نما ڈمپر دن رات ریت بھر بھر کے شہر میں نئے تعمیر ہونے والے مکانات اور پلازوں کی بنیادیں کھڑی کر رہے ہیں۔ معدوم ہوتی ہوئی تہذیب اور مٹتی ہوئی نسلوں کی لاش پرایک نئی دنیا آباد ہونے جا رہی ہے۔ ایسی تعمیر جس کی بنیاد میں تخریب ہے۔ اور جو اپنے بوجھ تلے دفن ہونے والی ہے۔

راوی کی روانی نہیں رہی۔ اب لاہور کے نالوں میں دریا سے زیادہ پانی بہتا ہے۔ دریائے راوی کی لاش ہے جہاں چیلیں اور گدھ اڑتے ہیں۔ اور لوگ اس کی قبر پر صدقہ کا گوشت پھینکتے ہیں کہ ان کی بلائیں ٹل جائیں۔ لیکن پیاس اور خشک سالی کی جو بلا منہ کھولے اس ملک کو نگلنے کو تیار ہے شاید یہ بلا ٹلنے والی نہیں ہے۔ راوی پر اڑنے والی چیلیں اور گدھ اخری استعارہ ہیں موت کا اور بربادی کا ۔ ختم ہوتے پانیوں کا۔ کیوں کہ جہاں پانی ختم ہو جاتا ہے وہاں زندگی نہیں رہتی۔

جہلم کی روانی اب اب اس قابل نہیں رہی کہ دریا کہ بیچوں بیچ نمودار ہونے والے مٹی کے جزیرے اور اس پر اگنے والے درختوں کے دبیز جنگل کو اپنے تندوتیز پانیوں کے ساتھ بہا لے جائے۔ راستہ میں آنے والے مٹی کے ٹیلے اور درخت دیکھ کر جہلم کا پانی راستہ بدل لیتا ہے۔ کیونکہ اب اس میں اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ ان ٹیلوں اور درختوں کو اکھاڑ پھینکے۔ کیوں کہ دریاؤں کی روانی نہیں رہی۔ پانی نہیں رہا۔

ورچن کو معلوم ہو گیا تھا کہ بستی اجڑنے والی ہے۔ پانی ختم ہو رہا ہے۔ لیکن ہم میں کوئی ورچن نہیں ہے۔ کوئی دیکھ نہیں رہا کہ سندھ، راوی، چناب سوکھ رہے ہیں۔ چولستان اور تھر پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ جانور اور انسان پیاس سے مر رہے ہیں۔ ہجرت کر رہے ہیں۔ دریاؤں میں ریت اڑ رہی ہے۔ لیکن اہالیان شہر اقتدار و سیاستدان و اشرافیہ کو دریا کہ بہنے یا سوکھنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر رچنا دوآب کا زرخیز ترین علاقہ ریگستان بن جاتا ہے۔ فرق تو ان غریب کسانوں کو پڑے گا جو زمین کے سینے سے رزق اگاتے ہیں۔ اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی۔

صاحب اقتدار و طبقہ اشرافیہ تو پہلے ہی منرل واٹر پیتے ہیں امپورٹڈ اناج بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اور اگر ضرورت پڑے گی تو ملک چھوڑ کر جا بھی سکتے ہیں۔ بیرون ملک ان کی دوسری رہائش گاہیں موجود ہیں اور دوہری شہریتیں بھی۔ ان کی اگلی نسل تو کب کی اس ملک سے کٹ چکی اب اگر وہ کبھی پاکستان چکر بھی لگاتے ہیں تو چینج کے لئے۔ کیوں کہ بدلتے عالمی معاشرتی و معاشی منظر نامے میں جس چیز کو اہمیت حاصل ہے وہ قوت خرید ہے۔ اگر آپ کی قوت خرید اچھی ہے تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ دنیا کے کس کونے اور کس ملک میں موجود ہیں۔ قوم، وطن، مذہب اور زمین کی محبت جیسے تصورات اب صرف مڈل کلاس اور غریب عوام میں پائے جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد بنجر پن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ’گلوبل لینڈ آؤٹ لک‘ کے مطابق پاکستان ان تئیس ممالک میں شامل ہے جو دو برسوں سے ہنگامی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ زمین کی 40 فیصد سطح تباہ حالی کا شکار ہے جو نہ صرف دنیا کی نصف آبادی بلکہ 44 کھرب ڈالرز کی عالمی معیشت کے نصف کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے ”یو این سی سی ڈی“ کی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ گزشتہ صدی کے دوران خشک سالی سے سب سے زیادہ متاثر ایشیائی ممالک کے باشندے ہوئے تھے۔ چولستان میں خشک سالی کی تباہ کاری میں اہل اقتدار کو احساس دلانے میں ناکام رہی ہے۔ اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آنے والے دنوں میں پورا ملک چولستان اور تھر کا ریگستان بننے جا رہا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ اور پانی پینے کے قابل نہیں رہا۔ پنجاب اریگیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق آنے والے دس برس میں لاہور شہر میں پینے کا صاف پانی ختم ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے کوئی ادارہ اس آنے والی تباہی کا صحیح اندازہ لگانے سے قاصر ہے اور اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے تاحال کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ اور یہ رویہ بہت خوفناک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments