شگفتہ تبسم احمد: ’بطور وکیل میں نے پہلا مقدمہ اپنے والد کے قتل کا لڑا‘


اس دن کی یادیں، جس روز میں نے سُنا کہ میرے والد ڈاکٹر طاہر احمد کو قتل کر دیا گیا ہے، میرے ذہن میں واضح بھی ہیں اور دھندلائی ہوئی اور نامکمل بھی۔

مجھے وہ کمرہ یاد ہے، مگر یہ یاد نہیں کہ اس میں کون تھا۔ وہ جمعہ کا دن تھا، مگر مجھے وقت یاد نہیں۔ مجھے لینڈ لائن ٹیلی فون کا بجنا یاد ہے، مگر یہ یاد نہیں کہ فون کس نے اٹھایا۔

وہ میرے بھائی کا فون تھا۔

’انھیں ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ انھیں قتل کر دیا گیا ہے۔‘

میں کہہ نہیں سکتی کہ میرے بھائی کے یہ الفاظ کس نے اس وقت مجھ تک پہنچائے مگر میں جان گئی تھی کہ میرے لیے زندگی ختم ہو گئی ہے۔

میری ماں نے فوراً رونا شروع کر دیا۔ پھر جب ہمیں پتہ چلا کہ میرے والد کی لاش راجشاہی یونیورسٹی کے ایک گٹر سے برآمد ہوئی ہے تو ہم سب سکتے میں چلے گئے، وہ وہاں جیولوجی اور مائننگ ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر تھے۔

ہمارے سب خاندان والے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں میرے بھائی کے گھر پر جمع ہو گئے تھے۔ میرے بھائی اس وقت ہمارے ساتھ نہیں تھے کیونکہ وہ ایک روز پہلے والد کی تلاش میں چھ گھنٹے کی مسافت پر انڈیا کی سرحد کے ساتھ واقع راجشاہی شہر گئے ہوئے تھے۔

خاندان والوں نے ایک دوسرے کی بات کاٹتے ہوئے ایک دم سے بولنا شروع کر دیا تھا۔

کیسے؟ کیوں؟

انھیں کون قتل کرنا چاہتا تھا؟

میرے والد نہایت سادہ مزاج تھے، وہ کار کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر یا پیدل چلنے کو ترجیح دیتے تھے، یونیورسٹی میں ان کے شاگرد ان کے مداح تھے، ایک ایسے شوہر جو گھر کے کام کاج میں بیوی کا ہاتھ بٹاتے تھے اگرچہ بنگلہ دیش میں ابھی یہ روش شروع نہیں ہوئی تھی، میں 18 سال کی عمر میں بھی سڑک عبور کرتے ہوئے ان کا ہاتھ تھام لیتی تھی۔۔۔ ایسے شخص کی جان کے درپے کون ہو سکتا ہے؟

یہ سوال ہماری فیملی کی مشکلات کا نقطۂ آغاز تھا۔

Short presentational grey line

دو روز قبل، بدھ یکم فروری 2006 کو میرے والد ڈھاکے سے بذریعہ بس راجشاہی یونیورسٹی گئے تھے۔

وہ گہما گہمی سے بھرپور کیمپس کو جو میرے بچپن کا گھر بھی تھا بہت پسند کرتے تھے۔ ہم یونیورسٹی کی طرف سے دیے گئے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے جہاں ضروت کی تمام چیزیں مل جاتی تھیں۔ میرا بھائی سانزِد اور میں صبح پیدل سکول جاتے اور شام کو یونیورسٹی کے دوسرے اساتذہ کے بچوں کے ساتھ قریبی میدان میں کھیلتے تھے۔ یہ ہمارے لیے دنیا کا ایک پر سکون اور محفوظ گوشہ تھا۔

فیملی ایلبم میں والد کے ساتھ شگفتہ تصویر

Salman Saeed
فیملی ایلبم میں والد کے ساتھ شگفتہ تصویر

سانزد اور میں سکول سے فارغ ہوئے تو ڈھاکا چلے آئے۔ سانزد نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔

ان کے مشورے سے میں نے یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ اگرچہ میرا وکیل بننے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے سوچا کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں کسی غیر سرکاری تنظیم میں کام شروع کر دوں گی یا پڑھاؤں گی۔ مگر میرے والد کو اس وقت بھی اندازہ تھا کہ ہمارے خاندان کے مستقبل کے لیے کیا بہتر ہو گا۔ میں نے 2006 میں یونیورسٹی شروع کی اور میری والدہ بھی میرے پاس آ کر رہنے لگیں۔

جس دنوں ان کا قتل ہوا وہ ہمارے پاس ڈھاکے آئے تھے اور بدھ یکم فروری کی دوپہر واپس راجشاہی چلے گئے۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے میری والدہ کو ٹیلی فون پر بتایا کہ وہ خیرت سے پہنچ گئے ہیں، پھر رات 9 بجے انھوں نے دوبارہ ٹیلی فون کیا۔ میرے خیال میں وہ بعد میں سونے کے لیے چلے گئے۔ ڈھاکے سے وہ جس پتلون میں گئے تھے وہ بعد میں پولیس کو ان کے بیڈروم کے دروازے کے ہینڈل پر لٹکی ہوئی ملی۔

اس کے بعد وہ تھوڑی دیر ہی زندہ رہے ہوں گے۔ پولیس ڈاکٹر کے مطابق انھیں رات کے 10 بجے سے پہلے قتل کر دیا گیا تھا۔

میرے والد اپنے ایک ساتھی ڈاکٹر میاں محمد محی الدین کے مستقبل کے بارے میں ایک اجلاس میں شرکت کی غرض سے واپس راجشاہی گئے تھے۔ ڈاکٹر محی الدین ہماری فیملی کے قریبی دوست تھے، مگر تھوڑے ہی عرصے پہلے میرے والد سے ان کی دوستی اچانک ختم ہو گئی تھی۔ میرے والد کو ڈاکٹر محی الدین کے کام میں دوسروں سے نقل کرنے کے بہت ثبوت ملے تھے جن کے بارے میں انھوں نے شعبے کے عملے کو آگاہ کیا۔ اسی معاملے سے نمٹنے کے لیے یہ میٹنگ بلائی گئی تھی۔

مگر میرے والد اجلاس کے لیے نہیں پہنچ سکے۔ نہ ہی انھوں نے ہمارے ٹیلی فون کا جواب دیا۔ چوکیدار جہانگیر عالم نے بتایا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں، بلکہ انھوں نے انھیں گھر آتے ہوئے بھی نہیں دیکھا تھا۔

فکر لاحق ہونے کے بعد میری ماں نے میرے بھائی کو راجشاہی جا کر پتہ کرنے کا کہا۔ اس کے اگلے روز، 3 فروری 2006 کو ان کی لاش یونیورسٹی کے گارڈن میں بنے ایک گٹر سے ملی۔ گمشدگی کی تفتیش اب قتل کی تحقیقات میں بدل گئی تھی۔

Short presentational grey line

ایک لمحے کو سب کی نظریں ہمارے خاندان پر مرکوز ہو گئیں۔ میرے والد کا قتل ایک معمہ بن گیا تھا۔ ان کی تصویر ٹی وی اور اخباروں میں نظر آنے لگی۔ مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ تفصیلات کی کھوج میں لگ گئے تاکہ اچھی رپورٹیں اپنے قارئین تک پہنچا سکیں۔ ہمارے خاندان کا المیہ نیوز روم کا ڈرامہ بن گیا جس میں بہت سے سوال جواب طلب تھے۔

ایک با وقار یونیورسٹی ٹیچر کا قتل کون کر سکتا ہے؟ کیا یہ ذاتی دشمنی کی بنا پر کیا گیا ہے؟ کیا اس میں سخت گیر مذہبی عناصر کا ہاتھ ہے؟ یہ بنگلہ دیشی معاشرے کے بارے میں کیا ظاہر کرتا ہے؟

پولیس سرجن کی رپورٹ کے مطابق قتل سے پہلے میرے والد کو زد و کوب کیا گیا تھا۔ اس افراتفری میں مجھے اپنی والدہ اور بھائی پر حیرت ہو رہی تھی۔ وہ ایک دم سے فعال ہو گئے تھے۔ میری والدہ پولیس کی مدد کرنے کے لیے راجشاہی میں میرے بھائی کے پاس پہنچ گئیں۔

چند ہفتوں کے اندر ڈاکٹر محی الدین، جو میرے والد کے رفیق کار تھے اور جن پر میرے والد نے دوسروں کا کام چوری کرنے کا الزام لگایا تھا، کیمپس کے چوکیدار جہانگیر عالم، جہانگیر کے بھائی، سالے اور دو دیگر افراد کو میرے والد کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

شگفتہ اپنے والدکی گود میں

Salman Saeed
شگفتہ اپنے والدکی گود میں

مقدمے کے دوران جہانگیر عالم اور ان کے رشتہ داروں نے اقرار کر لیا کہ محی الدین نے انھیں میرے والد کے قتل پر اکسایا تھا اور پیسے، کمپیوٹر اور یونیورسٹی میں نوکری دلوانے کا لالچ دیا تھا۔ محی الدین نے الزامات کی تردید کی۔

سنہ 2008 میں راجشاہی ذیلی عدالت نے چار افراد کو مجرم پاتے ہوئے سزائے موت اور دو کی رہائی کا حکم دیا۔ معاملہ یہاں ختم ہو جانا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ چاروں نے سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی اور مقدمہ بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ میں پہنچ گیا۔

میری ماں اور بھائی میرے والد کو انصاف دلوانے کے لیے انتھک کوشش کر رہے تھے۔ ان کے مقابلے میں میں نے خود کو بے سود پایا۔ ذیلی عدالت کے فیصلے کے وقت میں کم عمر اور ذہنی طور پر ناپختہ تھی۔ میرے والدین نے مجھے بڑے لاڈ سے پالا تھا اور اب بھی ان کا اصرار تھا کہ میں صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دوں۔ انھوں نے مجھے جذباتی اور مالی دونوں طرح سے سہارا دیا۔

میں نے قانون کی کتابوں پر خوب توجہ دی مگر مجھے پتہ نہیں تھا کہ میں زندگی میں کیا کروں گی۔ سنہ 2011 میں میرے والد کے مقدمۂ قتل کی سماعت ہائی کورٹ میں شروع ہوئی۔ کورٹ نے ڈاکٹر میاں محمد محی الدین کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ انھوں نے اپنے دفاع کے لیے دس وکیل کر رکھے تھے۔

ایک دم سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ مجھے زندگی میں کیا کرنا ہے۔ میں قانون کی تعلیم کی بنیاد پر اپنے والد کے قاتلوں کے خلاف مقدمے میں استغاثہ کی مدد کر سکتی ہوں۔ مجھے ایک خاص حیثیت حاصل تھی۔ میں اپنی فیملی کے لیے قانونی دستاویزات کی تشریح کر سکتی تھی۔ میں پولیس کو جانتی تھی، اپنے والد کو جانتی تھی، حتٰی کہ کم سے کم دو ملزمان کو بھی جانتی تھی۔ میں اپنے والد کے لیے انصاف کے حصول میں اہم کردار ادا کر سکتی تھی۔

شگفتہ احمد عدالت جانے کے لیے تیار

Salman Saeed
شگفتہ احمد عدالت جانے کے لیے تیار

میں 2012 میں لا سکول سے فارغ ہو گئی اور فوراً ہی استغاثہ کے وکیلوں کی مدد کرنے لگی۔ بنگلہ دیش میں فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے کے لیے زیادہ خواتین وکلا نہیں ہیں، مگر میری آمد کی قدر سب پر واضح ہو گئی اور ٹیم کے اندر میرا خیر مقدم کیا گیا۔ میں اپنا پورا وقت اس پر صرف کرنے لگی۔ اس مقدمے پر مکمل توجہ دینے کے لیے میں نے دوسرے مقدمات لینے سے انکار کر دیا۔

سنہ 2013 میں ہائی کورٹ نے فیصلہ سنا دیا۔ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر میاں محمد محی الدین اور جہانگیر عالم کی سزائے موت کو برقرار رکھا، مگر دوسرے دو ملزمان کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا۔ جج نے قرار دیا کہ ان دونوں نے اعانت جرم میں حصہ لیا تھا لیکن میرے والد کے اصل قاتل محی الدین اور عالم ہیں۔

بات ختم نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیے

آپ کا بیٹا یا بیٹی کسی خطرناک گروپ کے شکنجے میں ہیں؟ رِک جان پر کھیل کر ایسے ہی لوگوں کی مدد کرتے ہیں

’بیٹی کی موت میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہی‘

’ڈالریا‘ گاؤں کے باپ، بیٹے نے لوگوں سے کروڑوں کیسے لوٹے؟

پروین کمار یا عبدالصمد: ’میرے گھر کی دیوار پر دہشت گرد لکھا گیا‘

چوکیدار جہانگیر عالم اور ان کے رشتہ داروں نے میرے والد کے قتل میں ملوث ہونے کا اقرار کیا تھا اور کہا تھا کہ محی الدین نے ان سے رابطہ کیا تھا اور پیسے دیے تھے۔ محی الدین کے وکلا نے اس بار بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔

میں نے باریک بینی سے تمام قانوی دستاویزات کا جائزہ لینا شروع کر دیا، مجرموں کے بارے میں جانچ پڑتا شروع کر دی، وکیلوں کے ساتھ رابطے میں رہتی، اور اپنی والدہ اور بھائی کا حوصلہ بڑھاتی رہی۔ کئی راتیں، ویک اینڈ، رمضان ایک ہی مقصد کے حصول کے لیے دعائیں کرتے گزر گئے ۔۔۔ کہ میرے والد کو انصاف ملے۔ 30 برس کے پیٹے میں اب میں ایک با عزم وکیل بن چکی ہوں، وہ گھبرائی ہوئی لڑکی نہیں رہی جس کی دنیا 2006 میں اجڑ چکی تھی۔

مگر ہمیں عدالتوں کے طویل انتظار کا سامنا تھا۔ اپیل کی سماعت کے لیے ہمیں 8 سال انتظار کرنا پڑا۔

شگفتہ اور ان کی والدہ

Salman Saeed
شگفتہ اور ان کی والدہ اپنی قانونی جد و جہد کے بارے میں اخبار کے تراشے دیکھ رہی ہیں

ڈاکٹر محی الدین تعلقات اور دولت والے ہیں، ان کے برادر ان لا (سالے یا بہنوئی) بنگلہ دیش کے بااثر سیاستدان ہیں۔ ان کے پاس وسائل اور وکلا کی بڑی ٹیم تھی۔ ان وکیلوں کا کہنا تھا کہ میرے والد کے قتل سے ڈاکٹر محی الدین کا کوئی سروکار نہیں ہے، یہ کہ میرے والد اور وہ ہمیشہ سے اچھے دوست تھے، اور ان کے خلاف کوئی ثبوت بھی نہیں ہے، جو ہے وہ واقعاتی ہے۔

باوجود اس کے کہ دوسرے تین افراد نے تفصیلی اقبالی بیان دیے تھے، اور پھر میرے والد کے قتل کے بعد ان کا سلوک ویسا نہیں تھا جس کی توقع ایک قریبی دوست سے رکھی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر محی الدین، جو ابتدائی برسوں میں اکثر ہمارے گھر آتے تھے، میرے والد کی تدفین میں شریک نہیں ہوئے، حالانکہ ڈیپارٹمنٹ کے دوسرے تمام لوگ آئے تھے۔ وہ تعزیت کرنے کے لیے بھی ہمارے پاس نہیں آئے۔

سپریم کورٹ نے پرانے مقدمات کے انبار کی وجہ سے میرے والد کے کیس کی سماعت پچھلے سال کے آخر میں مقرر کی، اور 5 اپریل 2022 کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن فیروز اور فل بینچ کے پانچ ججوں نے متفقہ طور پر ڈاکٹر میاں محمد محی الدین کو میرے والد کے قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے ان کی سزائے موت برقرار رکھی۔

فیصلے کے بعد میں نے اپنی فیملی کی جانب سے ایک بیان میں کہا کہ ہم اس فیصلہ پر خوش ہیں، لیکن میں نہیں جانتی کہ لفظ ’خوش‘ مناسب ہے۔ پچھلے 16 سال ہمارے خاندان پر کیسے بیتے ہیں وہ بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ ایک ناقابل تصور اذیت تھی۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ جس حال میں میرے والد نے جان دی، کیا کبھی مجھے چین مل سکے گا۔

میری زندگی اپنے والد کو انصاف اور چین دلوانے کی جدوجہد کے گرد گھومتی رہی، یہاں تک کہ اپنے لیے میں کچھ نہیں کر سکی۔ لوگ پوچھتے کہ کیا میں اپنی فیملی شروع کروں گی۔ میرے والد کے قاتلوں کے مرنے کے بعد شاید ایسا کروں۔ پھر شاید لگے کہ سب کچھ انجام کو پہنچ گیا ہے۔ میری پوری کائنات میرے والد تھے، وہ اتنے اچھے، شائستہ، سادہ اور دانا تھے۔

قاتلوں نے محض اس لیے کہ ڈاکٹر محی الدین کی نوکری نہ چلی جائے میرے والد کے ساتھ جو کیا وہ ناقابل تصور ہے، مگر ان کی خاطر میں اپنا کام جاری رکھوں گی، انصاف کے لیے لڑتی رہوں گی اور اچھی زندگی گزاروں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments