ارتعاش کی آگ


اس کا چہرہ سپاٹ تھا وہ ایک اونچی عمارت کی چوٹی پہ چڑھی اور اس نے اپنی تقریر کا آغاز یوں کیا۔

انسانی کائنات کی جبلت بہت عجیب ہے۔ یہاں ہر عشق اور اس کی انتہا ایک داغ دار بھید ہے۔ ذرا دیکھو تو سہی اس بھید کو، اس میں کئی آہنی دروازے ہیں۔

اے اجنبیو، ذرا اور غور سے دیکھو، اسرار و رموز سے پر ان مقناطیسی دروازوں کو کہ کیسے وہ تمہیں اپنی جانب کھینچتے ہیں مگر کبھی تم پر خود کو وا نہیں ہونے دیتے۔ خوشبوؤں کا ایک کارواں تمہارے قریب سے گزرتا ہے مگر تمہیں کبھی اپنے ساتھ نہیں لے جاتا۔ وہ تمہیں اذیت دیتا ہے، دھتکارتا ہے کہ تم ایسے کیوں ہو؟ ویسے کیوں نہیں ہو؟

دیکھو کہ اس نے تمہیں بھی کیسے بدل کر رکھ دیا ہے۔ تم سب تیز ہواؤں کے خلاف چلنا پسند کرتے ہو۔ تو تم چلو، اور پرواز کرو کسی عقاب کی طرح۔ مگر تم عقاب سے مختلف ہو۔ تمہاری پرواز بھی اس سے مختلف ہونا چاہیے، ہاں ضرور تم پرواز کرو کہ آسمان کے دروازے تم سب پر کھول دیے جائیں۔

اے بیابانوں میں بھٹکنے والی لڑکی، تو کہاں سے آتی ہے؟
میں ہر جگہ سے آتی ہوں اور ہر جگہ سے گزرتی ہوں کیوں کہ پوری دنیا میرا گھر ہے۔
ذرا یہ تو بتا کہ تجھے ہم سے ہمدردی کیوں ہے؟

کیوں کہ تم سب کسی نہ کسی بڑے اور شریف آدمی کے ستائے ہوئے ہو، میں تمہیں بتانے آئی ہوں کہ تم بے نظیر ہے۔ اے اجنبیو، میں تمہیں کہنے آئی ہوں کہ تم کمزور نہیں ہو۔ تم سب نے کیا کچھ نہ دیکھا۔ تم میں کسی حادثے کا اثر نہیں ہوا۔ یہی تو قوت ہے تمہاری جو تمہیں اعلی تر بناتی ہے۔

ذرا بتاؤ تو سہی کہ تم سب اس بھید بھرے دروازے میں داخل ہونا کیوں چاہتے ہو؟

نادان لڑکی، تو کیا جانے محبت کیا ہے؟ عشق کیا ہے؟ اس کی انتہا کیا ہے؟ فریب کیا ہے؟ اور خواب کی بے خوابی کیا ہے؟

یہ سن کر لڑکی نے زور دار ٹھہاکا لگایا اور پھر کہا

دیکھو اس محبت کو جو آفاقی اور قانونی ہے کہ کیسے یہ تمہیں بے وقوف بناتی ہے۔ تمہیں فریب دیتی ہے۔ کسی اجنبی سے جوڑتی ہے۔ وہ تم سے اپنا جی بہلاتا ہے اور پھر بیچ راہ تمہیں مار جاتا ہے۔

اور دیکھو ذرا اس محبت کو کہ جو قانونی نہیں اور جس کا کوئی نام نہیں۔ کہ کیسے یہ رات بھر چیختی ہے۔ تم سے لڑتی ہے، جھگڑتی ہے، پھر بغل گیر ہو جاتی ہے۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ تم سب کی کوکھ ارتعاش میں ڈوبی اس بوجھل محبت کی آگ سے بھر چکی ہے۔ وہ آگ تمہاری روح کو جلا رہی ہے۔

میں یہ بھی دیکھ سکتی ہوں کہ تمہارے ارد گرد پوری دنیا تماشا گاہ بنی ہوئی ہے۔

اے اجنبیو، اپنے اپنے دروازے اور کھڑکیوں کو توڑ دو اور ان بڑے لوگوں کی دنیا سے نکل بھاگو اور جنگل میں گھس جاؤ۔ اور درخت کی طرح ہو جاؤ، بالکل پر سکوت اور منجمد۔ پھر محبت کرو، عشق لڑاؤ کہ وہاں ہر بھید روشن ہو چکا ہو گا اور فریب کی ہر راہ مسدود ہو چکی ہوگی۔ اے زندہ انسانو، اگر میں، تمہیں یہ بتانے سے پہلے مر جاتی تو میری موت بڑی بدقسمت ہوتی۔ یہ کہہ کر وہ نیچے کود گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments