ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور صحت مند معاشرے کا قیام


دور حاضر میں عالمی نظام صحت کو کثیر جہتی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ وسائل کی کمی، تحقیقی شعبے میں عدم صلاحیت اور گورننس کے مسائل نے صحت کے مسائل کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے جس کی ذمہ داریوں میں عالمی سطح پر صحت کے نظام میں بہتری لانا اور اصلاحات متعارف کرانا شامل ہے۔ یہ ادارہ 7 اپریل 1948 کو قائم کیا گیا تھا اور اس کا صدر دفتر سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں ہے۔

ڈبلیو ایچ او اقوام متحدہ کے ترقیاتی گروپ کا رکن ہے۔ اس سے قبل یہ ہیلتھ آرگنائزیشن کے نام سے لیگ آف نیشنز کی ایک ایجنسی تھی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے آئین پر 22 جولائی 1946 کو 61 ممالک نے دستخط کیے، جس کے تحت عالمی ادارہ صحت کا پہلا اجلاس 24 جولائی 1948 کو اختتام پذیر ہوا۔ اس کے قیام کے بعد سے ہی اس نے چیچک کے خاتمے میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ اس کی موجودہ ترجیحات میں خاص طور پر ایچ آئی وی / ایڈز، ایبولا، ملیریا اور تپ دق کی بیماریوں بھی شامل ہیں۔

جنسی اور تولیدی صحت، عمر رسیدگی کے اثرات کو کم کرنا، غذائیت، صحت پسند کھانے اور طبی ماہرین میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے نکھار میں بھی یہ ادارہ اپنی خدمات مہیا کرتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کی اشاعت، دنیا بھر میں عالمی ادارہ صحت کے سروے، اور عالمی یوم صحت کے انتظامات کے حوالے سے بھی ڈبلیو ایچ او ذمہ دار ہے۔ عالمی سطح پر صحت کا نظام ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور عالمی بنک کی شراکت داری کے تحت چلتا ہے جس کے لئے عالمی تنظیم، عالمی بنک، ترقیاتی اداروں اور سول سوسائٹی پر مشتمل ایک کور ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔

دنیا بھر سے معروف محققین اپنی سفارشات ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو ارسال کرتے ہیں جن کی بنیاد پر صحت سے متعلق بنیادی اصول طے کیے جاتے ہیں۔ ان اصولوں کی بنیاد پر ترقی پذیر ممالک کی تحقیق کے شعبے میں رہنمائی کی جاتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت تکنیکی شعبے میں بھی رکن ممالک کی رہنمائی کرتا ہے جس کے لئے ٹیکنیکل ایڈوائزری کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن صحت کے لحاظ سے دنیا کو چھ حصوں افریقہ، امریکہ، جنوب مشرقی ایشیا، یورپ، مشرقی بحیرہ روم اور جنوب پیسیفک ریجن میں تقسیم کرتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او ممالک کو چار انکم گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عالمی بنک کے مطابق یہ گروپس کم آمدنی، متوسط آمدنی، بالائی متوسط آمدنی اور ہائی آمدنی والے علاقوں پر مشتمل ہیں۔ کسی بھی ملک یا علاقے میں صحت کا معیار جانچنے کے لئے ڈبلیو ایچ او نے چار مرکزی اور سو سے زائد جزوی اعشاریوں پر مشتمل نظام قائم کر رکھا ہے۔ چار مرکزی اعشاریوں میں صحت کا معیار، رسک فیکٹر، سروس کا معیار اور صحت کا نظام شامل ہیں۔ مرکزی اور جزوی اعشاریے جانچنے کے لئے انڈیکیٹر میٹا ڈیٹا رجسٹری استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک اور ڈبلیو ایچ او کے ممبر ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح بتدریج کم ہو رہی ہے جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں تین فیصد سے کم ہو کر حالیہ سالوں میں دو فیصد سے کم رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود ملکی آبادی میں سالانہ دو ملین سے زائد افراد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 207 ملین ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان کا نظام صحت عالمی معیار سے قطعی مطابقت نہیں رکھتا۔

آبادی میں مسلسل اضافہ صحت کے نظام پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحت کے شعبے میں کل جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم خرچ کیا جاتا ہے۔ 2017۔ 18 میں حکومت نے صحت کے شعبے پر 385 ارب روپے خرچ کیے جو سال 2012۔ 13 میں 126 ارب روپے تھے۔ 2017۔ 18 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد دو لاکھ آٹھ ہزار کے قریب ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر نو سو ستاون افراد کے لئے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے۔

اس وقت ملک میں بیس ہزار آٹھ سو رجسٹرڈ دندان ساز اور ایک لاکھ پانچ ہزار رجسٹرڈ نرسز ہیں۔ اس حساب سے دس ہزار افراد کے لئے ایک ڈینٹسٹ اور دس ہزار پانچ سو افراد کے لئے ایک نرس دستیاب ہے۔ ایک ہزار میں سے پچاس بچے بوقت پیدائش موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کی پچاس فیصد آبادی کو پائپ کے ذریعے پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ زیر زمین اور دیگر ذرائع سے پانی حاصل کرنے والی آبادی کا تناسب بالترتیب 34 فیصد اور 16 فیصد ہے۔

نظام صحت کا اولین اور اہم ترین جزو حکومتی پالیسی اور عمل درآمد کے لئے مناسب حکمت عملی ہے۔ پاکستان میں صحت سے متعلق درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے کوئی موثر پروگرام ترتیب نہیں جا سکا۔ حالیہ برسوں میں محض کسی وبا کے ردعمل کے طور پہ مرتب کردہ صحت پالیسی کے رجحان کو دیکھا گیا یا پھر وہ جو بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے نافذ کیا گیا ہے ۔ گو کہ پاکستان کی نیشنل ہیلتھ سروسز میں متعدد مخصوص پروگرام برائے ہیپاٹائٹس، ایڈز، ٹی بی، ملیریا، انفلوئنزا، انفیکشن کنٹرول، امیونائزیشن کے لئے توسیعی پروگرام، مربوط پروگرام تولیدی صحت، زچہ بچہ، و چائلڈ ہیلتھ پروگرام اور پنجاب غذائیت پروگرام اور پولیو اور ڈینگی پر خصوصی مہمات شامل ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی پالیسیوں کے برعکس تمام سرکاری مراکز صحت اس بات سے قطع نظر کہ نظام میں ان کا درجہ کیا ہے فی الحال مفت ادویات کی پالیسی کے تحت کام کر رہے ہیں۔ یہ پالیسی صرف نظام صحت کے اخراجات کنٹرول کرتی ہے جبکہ مریض کے تعاون کا معاملہ ہو یا مثبت تشخیصی نتائج، حتی کہ مریض کی اطمینان کے سلسلے میں بھی یہ کوئی نمایاں بہتری نہیں لا سکی۔ صحت کی سہولیات کی بروقت دستیابی اور ادویات کی مناسب قیمتوں کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔

فارمیسی ماہرین جو دواسازی اقتصاد پر مہارت رکھتے ہوں کے تعاون سے اس مسئلے سے موثر طریقے سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ صحت مند افراد ایک صحت مند معاشرے کی اکائی ہوتے ہیں اور افراد کو صحت مند بنانے میں جسمانی مشقوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ پاکستان میں باقاعدگی سے ورزش کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے بیماریوں میں مسلسل اضافہ اور ہسپتالوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ اس ضمن میں ایک جامع پالیسی مرتب کرے اور صحت کے حوالے سے بھر پور آگاہی مہم کا آغاز کیا جائے۔ جب تک لوگوں میں ڈبلیو ایچ او کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا شعور اجاگر نہیں کیا جاتا تب تک ایک صحت مند معاشرے کا قیام ناممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments