عمران خان کا کل اثاثہ!


کل 25 مئی ہے، عمران خان لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد جا رہے ہیں، عمران قریب قریب چار سال حکمران رہے ہیں اور ان چار سالوں میں ان کا جو کل اثاثہ ہے، وہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جسے وہ اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے دھمکی آمیز خط کہتا ہے۔

عمران خان کا گزشتہ ایک بیان میڈیا پر چلا، جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ، آئندہ انتخابات میں اکثریت نہیں ملی پھر سڑکوں پر آؤں گا، یعنی جب تک وہ اکثریت میں نہیں ہوں گے احتجاج رکنے والا نہیں ہے، جہاں تک کاغذ کے اس ٹکڑے کا تعلق ہے، تو میڈیا میں موجود اکثر تجزیہ نگاروں اور حالات پر گہری نظر رکھنے والوں، بلکہ خود سیکورٹی کونسل نے اس میں سازشی تھیوری کو یکسر رد کر دیا ہے اور اسے معمول کی کارروائی سے تعبیر کیا ہے، لیکن آئندہ انتخابات میں آنے کے لیے عمران کے دامن میں ایسا کوئی کارنامہ نہیں ہے جسے وہ اپنے انتخابی مہم میں پیش کرسکیں، لے دے کر یہی خط ہیں جسے وہ سہارا بنا کر عوام میں آنا چاہتے ہیں۔

ماضی میں اس نے اپنی گفتگو سے پاکستانی عوام کو جس قدر بے وقوف بنایا تھا کہ، اس کی مثال نہیں ملتی ہے، یہ ہمیشہ بے ثمر خواب بیچتے رہے، اور بے نتیجہ تعبیریں پیش کرتے رہے۔

نیا پاکستان، دو نہیں ایک پاکستان، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، امیر غریب کے لیے ایک قانون، تھانہ کلچر کا خاتمہ، ( ساہیوال کے بچوں تک کو انصاف نہیں دلوا سکا ) پٹواری کلچر کا خاتمہ، گرین پاسپورٹ کو باوقار کرنا، بھیک نہیں مانگنا، مانگنے پر خود کشی کا اعلان، بہترین معاشی ٹیم کی تیاری کا اعلان، بعد میں ہر چار چھ ماہ بعد وزیر خزانہ کی تبدیلی کا عمل، بہترین کھلاڑی اسد عمر کی تعریف میں زمین اور آسمان ایک کرنا، چند ماہ میں اسد عمر کا منہ کے بل گر جانا اور معیشت کو بھی تباہ کرنا، کرپشن کا خاتمہ اور احتساب کے عمل کے خوبصورت نعروں کے بعد فرخ گوگی سے پنجاب حکومت چلانا، خود احتسابی کا یہ عالم کہ فارن فنڈنگ کیس میں تاخیری حربے استعمال کرنا، ابتداء میں آئی ایم ایف سے گریز اور اس قدر تاخیر کہ، بعد میں کڑی سے کڑی شرائط پر گھٹنے ٹیک دینا، ملکی سیاست میں نفرت کا زہر بھرنا، گالی گلوچ کے کلچر کو پروموٹ کرنا، پوری سیاست کا محور شریف خاندان کی ذاتی دشمنی کو بنانا اور ”کسی کو نہیں چھوڑوں گا“ کے رٹے پر پوری حکومت کی عمارت کھڑی کر کے تباہی کے دھانے پر پہنچانا۔ یہ ہیں وہ کارنامے جنہیں چھپانے کے لیے ایک جذباتی بیانیہ تشکیل دے کر ایک بار پھر اس پر پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانے چل نکلے ہیں۔

پہلے نیا پاکستان تھا،
اب آزاد پاکستان ہے۔

ماضی میں ان تمام خوبصورت نعروں کے باوجود وہ کسی چوکھٹ سے ”فیض“ ہونے کے بعد بھی اتنی اکثریت حاصل نہیں کرسکے تھے کہ، حکومت بناتے، حکومت کی تشکیل میں جہانگیر ترین کے جہاز نے اہم کردار ادا کیا تھا، ترین کو چاہیے کہ اس جہاز کو قومی عجائب گھر میں بطور عبرت رکھوا دے کہ، اس جہاز نے عوام پر ایک ایسی بلا مسلط کر دیا جو ٹلنے کو نہیں آ رہا ہے۔

یہ 2014 کو بھی لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد آئے تھے، اس وقت ان کے پاس ایمپائر کی انگلی تھی، جو آخر تک بوجوہ نہیں اٹھ سکی اور اب ایک خط ہے، عمران نے اپنا بیانیہ اس قوم کی نفسیاتی پہلو کے مطابق تشکیل دینے کی کوشش کی ہے، امریکی غلامی سے نجات کا نعرہ کتنا خوبصورت ہے، اس نعرے پر بیانیہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے، یہاں جذبات کا کاروبار عقل و خرد کی باتوں سے زیادہ کامیاب ہے، لیکن عمران نے گزشتہ چار سالوں میں اپنا اعتماد اس قدر کھو دیا ہے کہ اس کا نام یوٹرن خان پڑ گیا ہے، غیر معمولی جذباتی بیانیہ کے باوجود وہ عوام میں وہ جوش و خروش پیدا نہیں کرسکے جس کا وہ تصور کیے بیٹھے تھے، وہ اسلام آباد آ بھی گئے تو غبارے کی ہوا ہی ثابت ہوں گے اور کچھ نہیں کرسکیں گے۔

اب نہ انگلی ہے، نہ فیض کی چوکھٹ ہے

اور نہ ترین کا جہاز ہے، صرف ڈی جے کے گانے، ان گانوں کی دھن پر ناچتی چند مہیلائیں ہیں، اور اے آر وائی کی لائٹنگ ہے، یہی کل اثاثہ ہے جو اب تک عمران کے پاس رہ گیا ہے، اگر وہ انہی اثاثوں کی بنیاد پر اپنی بات منوانا چاہتے ہیں، تو سو بسم اللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments