جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود


چند روز قبل قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام پرل کانٹینینٹل ہوٹل لاہور میں ”Content Creators Are Change Makers“ کے نام سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ملک بھر سے نمایاں تخلیق کاروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ جنھوں نے سامعین کو سوشل میڈیا کی اہمیت اور اس کے باریک نکات کو بڑے دلچسپ انداز میں سمجھایا۔ یہ ایک طویل سیمینار تھا جس میں تقریباً ساڑھے پانچ سو شرکاء نے شرکت کی مگر عجیب بات یہ کہ طوالت کے باوجود بوریت کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن بجا طور مبارکباد کی مستحق ہے جو اس عہد ناسپاس میں اپنے حصے کا چراغ روشن کیے ہوئے ہے اور نوجوانوں کی تربیت کا فریضہ بطریق احسن سر انجام دے رہی ہے۔ میں نے شرکاء مجلس کی گفتگو سے اپنی سمجھ کے مطابق مندرجہ ذیل نکات اخذ کیے۔

یو ٹیوب، فیس بک، انسٹا گرام، ٹویٹر، لنکڈ ان، ٹک ٹاک اور اس جیسے بے شمار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سب آپ کے ہیں سب آپ کے لیے ہیں۔

ان کا بھرپور استعمال کریں مگر اس بات پر بہت دھیان دیں کہ جو کونٹینٹ آپ تخلیق کر رہے ہیں وہ بامقصد بھی ہے یا محض یاوہ گوئی ہے۔

جو کچھ آپ بول کر یا لکھ کر دوسروں تک پہنچانا چاہ رہے وہ سچ بھی ہے یا نہیں، کہیں ایسا تو نہیں آپ دروغ گوئی اور ابہام کے ابلاغ میں استعمال ہو رہے ہیں یا خود سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بے بنیاد اور مرچ مصالحے سے بھرپور باتیں کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی دیکھیں کہ آپ کے کونٹینٹ سے لوگوں میں علم اور امید کی شمعیں روشن ہو رہی ہیں یا آپ لوگوں کو اپنی مایوس کن گفتگو سے نا امیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں۔

یہ دیکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ آپ تخلیق شدہ کونٹینٹ کی عمر کتنی ہے، آپ کسی خاص واقعے سے متاثر ہو کر ایک تحریر لکھتے ہیں یا وڈیو بناتے ہیں لیکن ٹھیک چوبیس گھنٹے کے بعد وہ واقعہ ماضی کا قصہ بن کر لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوجاتا ہے اور آپ کی تحریر یا وڈیو بھی بے قیمت کچرے کی شکل میں ایک کونے میں پڑی منہ چڑاتی رہی ہوتی ہے

اپنے تخلیق شدہ کونٹینٹ کو ہمیشہ ایک کڑے نقاد کی نگاہ سے دیکھیں، نقاد بھی وہ جو ایک معمولی سے سقم پر بھی خاموش نہیں بیٹھتا۔

یہ اپنے ذہن میں رکھیں کہ آپ کا کونٹینٹ ایک ابدی ریکارڈ کی شکل میں ڈھل کر قیامت تک کے لیے محفوظ ہونے جا رہا ہے، تو کوئی ایسا کچھ بولنے اور لکھنے سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کریں جس پر کل کلاں کہیں پہ شرمندگی کا سبب سامنا کرنا پڑے۔ کیونکہ یہ سب کچھ ہمارے بچوں اور پھر ان کے بچوں نے بھی دیکھنا ہے، تو ایسا کچھ کیا جائے جس سے نسل نو کا سر فخر سے بلند ہو جائے اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ بھی ہو پائے تو کم از کم کسی قسم کی شرمندگی کا باعث تو نہ بنے۔

اپنے کونٹینٹ میں تحقیق کے پہلو کو کبھی نظر انداز نہ کریں، جس موضوع پر بھی کونٹینٹ تخلیق کرنے کا ارادہ ہو اس کی تحقیق لازمی کرنا چاہیے جس سے حقائق تک پہنچنے میں آسانی رہتی ہے اور جاندار کونٹینٹ تخلیق ہوتا ہے۔

پہلے سے سیٹ شدہ ٹرینڈز پر کونٹینٹ بنانے کا کوئی خاص فائدہ نہیں، کیونکہ یہ مکھی پہ مکھی مارنے کے مترادف ہے۔ خدا کے اس سارے نظام میں تنوع اور وسعت کے بیش بہا نمونے جا بجا دکھائی دیتے ہیں، اسی چیز کو بنیاد بنا کر مختلف سوچ کی مدد سے نئے موضوعات کی تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ ان دیکھی چیز کو دیکھنے کو خواہش اور غیر دریافت شدہ کو دریافت کرنے کی کسک انسان کے دل سے امر بیل کی طرح چمٹی رہتی ہے اور پہلے سے کئی بار دیکھی ہوئی شے سے صرف نظر انسان کی عادت ثانیہ ہے۔ لہذا موضوع سخن ایسا رکھا جائے جس میں نیا پن ایک چاشنی کی صورت موجود ہو۔

کسی کی دیکھا دیکھی ایسا کونٹینٹ تخلیق کرنے کا کوئی فائدہ نہیں جو آپ کا پیشن نہیں ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس موضوع پہ تھوڑا سا کام کرنے کے بعد آپ تھک کر بیٹھ جائیں۔ اپنے ایریا آف انٹرسٹ کو سمجھنا اور پھر اس کو فالو کرنا یہی کامیابی کا گر ہے۔ پرائی آگ پہ روٹی پکانے سے کچی پکی رہ جانے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔

آپ پہلے دن سے کبھی بھی پرفیکٹ نہیں ہوسکتے اور نہ ہی آپ کو ابتدا سے ہی آئیڈیل کنڈیشنر میسر آتی ہے۔ دنیا کے بلند پایہ تخلیق کاروں نے بھی انتہائی نا مساعد حالات میں اپنے علم و فن کی شمعیں روشن کیں اور کبھی بھی بہترین سہولیات کی عدم دستیابی کو اپنے لیے سد راہ نہیں بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کا بہترین لٹریچر جیلوں میں رہ کر لکھا گیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد، فیض احمد فیض، حسرت موہانی، احمد فراز جیسے بلند پایہ فنکاروں کو کئی بار حوالہ زنداں کیا گیا مگر انھوں نے جیل کی تنگیوں میں بھی ادب کے بیش قیمت فن پارے تخلیق کر ڈالے۔

لہذا آپ کے پاس جو بھی وسائل دستیاب ہیں ان کام لاتے ہوئے اپنی خداداد صلاحیتوں پہ یقین رکھتے ہوئے اپنا کام پر اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ عوام الناس کے لیے مفید ترین موضوعات پر کونٹینٹ تخلیق کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ غیر اہم اور غیر مفید موضوعات پر سر کھپانے اور دوسروں کی سمع خراشی کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ ایک صبر آزما کام ہے جس میں آہستہ آہستہ بہتری آتی چلی جاتی ہے۔ جلد باز آدمی کے لیے تو دنیا کی کسی بھی فیلڈ میں نمایاں کارکردگی دکھانا مشکل ہوتا ہے مگر کونٹینٹ کی تخلیق کا میدان تو خاص طور پر عجلت پسند انسان کے لیے کانٹوں بھرا راستہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے ”سہج پکے سو میٹھا ہو“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments