طالب علم بمقابلہ طالب ڈگری


ویسے تو ہمارے ہاں زیادہ تر طالب ’طالب ڈگری‘ ہوتے ہیں لیکن کچھ چنیدہ لوگ ’طالب علم‘ بھی ہوتے ہیں اور ’علم‘ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے شاگردوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑا۔ ان دو گروپس کی اپنی علیحدہ خصوصیات ہیں۔ آئیں دیکھتے ہیں دونوں میں کیا کیا خصوصیت پائی جاتی ہے۔

طالب علم

( 1 ) طالب علم کا مقصد علم حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہ نہ صرف نصاب کی کتابیں پڑھتے بلکہ نصاب کے علاوہ بھی دوسری کتابوں کو پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ خاص طور پر ان کو ادب سے خاص لگاؤ ہوتا ہے۔

( 2 ) ان کو نوکری کی فکر نہیں ہوتی کیونکہ ان کا خیال ہوتا ہے اگر ان کو علم پر عبور حاصل ہو گا تو نوکری یا روزگار کا سبب خودبخود بن جائے گا۔ اس لیے ان کی توجہ علم، رویے اور مہارت حاصل کرنے پر ہوتی ہے۔

( 3 ) ان کی گفتگو میں نئے خیالات، نئی سوچ لیے ہوتی ہے۔ طالب علم کا جیسے جیسے علم بڑھتا ہے تو ان میں عاجزی آتی جاتی ہے۔ وہ تنقید کو برا محسوس نہیں کرتے بلکہ اس میں سے بھی مثبت پہلو نکال لیتے ہیں۔ ان میں ٹھہراؤ اور دوسروں کی رائے سننے کا حوصلہ ہوتا ہے۔

( 4 ) طالب علم کیونکہ اپنی رائے رکھتے ہیں تو استاد سے کبھی کبھار بحث بھی کر لیتے ہیں اور استاد کی رائے سے اختلاف کر لیتے ہیں۔

طالب ڈگری

1) یہ شاگرد ویسے تو کسی کتاب کو بھی ہاتھ لگانا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ شدید ضرورت میں بھی وہ نصاب کی کتابیں اٹھاتے ہیں اور ان کو سمجھنے کی بجائے اپنے اندر انڈیل لیتے ہیں اور امتحان میں جا کر پھر سارا مواد الٹ دیتے ہیں تاکہ ان کے اندر کچھ نہ بچے۔ اس لیے ان لوگوں میں سے کچھ لوگ پرچے پر اتنی اچھی ’الٹی‘ کرتے ہیں اور امتحان میں سب سے اچھے نمبر بھی لاتے ہیں۔

( 2 ) طالب ڈگری دراصل طالب نوکری بھی ہوتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو سرکاری نوکری مل جائے تو ساری عمر مفت کی روٹی کا بندوبست ہو جائے گا۔ ایسے طالب ڈگری آپ کو اساتذہ کی ’ٹی۔ سی‘ کرتے اور ان کے ارد گرد بھنورے کی طرح منڈلاتے رہتے ہیں۔ اکثر وہ اساتذہ کی آنکھ کا تارہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے ان کو یونیورسٹی میں نوکری ملنے کا قوی امکان ہوتا ہے۔ طالب ’ڈگری‘ صبح شام نوکری حاصل کرنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں لیکن اس کے لیے کام کچھ نہیں کرتے۔ بس لوگوں کی منت سماجت کرتے نظر آتے ہیں۔

( 3 ) طالب ”ڈگری“ کی جیسے جیسے ڈگری بڑھتی ہے ویسے ویسے ان کی گردن میں سریا مضبوط اور بڑا ہوتا جاتا ہے۔ وہ اپنے علاوہ کسی کی بات نہیں سنتے۔ دوسروں کے متعلق ان کا خیال ہوتا ہے یہ بکواس کرتے ہیں۔ طالب ”ڈگری“ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں اس لیے ان لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو زیادہ سوال نہ کریں اور جو بتا دیا جائے اس کو قبول کر لیں۔

( 4 ) طالب ”ڈگری“ کبھی استاد کی رائے سے انحراف نہیں کرتے اور سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ ان کا قول ہوتا ہے ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کیونکہ نمبر استاد نے دینے ہوتے ہیں اس لیے اختلاف رائے کر کے فیل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

آپ کسی بھی ادارے میں تشریف لے جائیں گے تو آپ کو طالب ”ڈگری“ نظر آئیں گے اور آپ طالب علم کو ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے۔ ہاں کبھی کبھی ایک کونے میں سب سے پرے بیٹھے آپ کو مل جائیں لیکن اس کا امکان کم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments