خان صاحب، قاسم سوری کا مشورہ اور تھوڑا اسلامی ٹچ


امریکی سازش سے شروع ہونے والی رام لیلا اسلامی ٹچ تک جا پہنچی، ابھی کتنے ٹچ یا پینترے باقی ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اقتدار کے حصول کے لیے ہر حربہ آزمایا اور ہر کارڈ کھیلا جارہا ہے آخر میں جو کارڈ سب سے زیادہ کارگر ثابت ہو گا اسے اپنے منشور کے سلوگن کا باقاعدہ حصہ بنا لیا جائے گا۔ ہمارے لیڈروں کی ذہنی پستی کا معیار دیکھیں بشمول عمران نیازی کہ اقتدار کی راہداریوں میں گھسنے کے لئے مذہب کا استعمال کرنے سے بھی باز نہیں آتے اور ہر بننے والی حکومت اپنے اقتدار کو مختلف بد نظریوں سے بچانے کے لیے اپنے اپنے “نورالحق قادری، مفتی منیب، طاہر اشرفی، فضل الرحمن اور طارق جمیل جیسوں کو اقتدار کی ریوڑیاں بانٹ کر اپنے سسٹم کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے اپنے”گلو بٹ، چیکو خان، علی امین گنڈا پور، شیخ رشید، مراد سعید اور شیریں مزاری جیسے “فری ماؤتھ” ساتھ ملا لیتے ہیں تاکہ مذہب اور زور آوری کے دونوں بارڈر محفوظ رہیں اور وقت پڑنے پر دفاعی ہتھیار کے طور پر استعمال میں لائے جا سکیں۔
کسی بھی حال میں ڈیکٹیشن نا لینے کے دعویدار لاڈلے کو قاسم سوری نے آزادی مارچ کے کنٹینر پر ڈیکٹیشن  دے ڈالی کہ “خان صاحب تھوڑا اسلامی ٹچ دے دیں”خان صاحب نے تھوڑا سا وقفہ لینے کے بعد فرمایا “میں وہ ہوں جو اپنے کو عاشق رسول کہتا ہوں اور ان کا پیروکار ہوں”  یہ کیسا عشق ہے جس کے اظہار کے لئے حقیقی آزادی مارچ تک کا انتظار کیا گیا؟ کیا اسلامی ٹچ کے بغیر آپ کی کی بات میں وزن کم ہوجاتا ہے یا بھولے بھالے عوام کو بے وقوف بنانے کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے؟ مذہبی کارڈ دراصل وہ آ ئرن کرٹن یا فولادی پردہ” ہے جو کسی لیڈر کو کچھ بھی کہنے کا لائسنس عطا کر دیتا ہے جس کے سہارے یہ ایلیٹ کلاس اپنا گھر بھر کے چلتے بنتے ہیں۔ یہ کیسا نااہل قسم کا پلے بوائے ہے جس کے ساتھ ساڑھے تین سال تک مکمل ریاستی ڈھانچے کی حمایت شامل حال رہی مگر حقیقی آزادی حاصل نہ کر پایا اور اقتدار سے پہلے کنٹینر والے جذباتی دعوے ایک ایک کرکے ہوا ہو گئے۔ کچھ مخصوص قسم کی روحانی چالبازیاں کرنے کے باوجود بھی عوام کو کچھ ڈلیور نہ کر سکا اور اپنی ناکامیوں کا بوجھ امریکہ کے کندھے پر ڈال کر چلتا بنا۔ اب پھر سے وہی سہانے سپنے، ایبسولوٹلی ناٹ کی گھمن گھیریاں اور مغرب کو اپنے پاؤں پر جھکانے کے غیر عقلی اور جذباتی دعوؤں کے سہارے سرکار دوبارہ کنٹینر پر سوار ہو چکے ہیں۔
 حقیقی آزادی کے حصول کے لیے غریب عوام سڑکوں پر رلتے رہے اور بادشاہ سلامت اپنے شاہی ہیلی کاپٹر میں سوار ہوکر کنٹینر میں جا گھسے۔ دوسروں کی بیگمات اور بچوں کو حقیقی آزادی میں شرکت کرنے کی دعوت اور اپنے اہل خانہ کے شرکت کے متعلق سوال ہوا تو حضور نے جھٹ سے بول دیا کہ “وہ گھریلو خاتون ہیں” کیا دوسروں کے اہلخانہ سڑکوں پر خوار  ہونے کے لیے ہیں یا سرکار کے اقتدار کے لیے استعمال ہونے کے لیے ہیں؟ دوسروں کے بچے آ پ کے لیے سڑکوں پر لاٹھیاں کھائیں اور آپ کے بچے اور اہل خانہ کا کیا؟ ویسے یہ انوکھا لاڈلا ہے جس کے لیے سسٹم میں بہت زیادہ گنجائش موجود ہے،اگر کھیلنے کو چاند بھی مانگتا ہے تو یہ ضد پوری کرنے کے لیے بھی ان کے لیے سسٹم میں گنجائش پیدا کی جاتی ہے۔تمام حکومتی رکاوٹوں کو عبور کرکے سرکار کو بحفاظت مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا جاتا ہے اور فیس سیونگ کا پورا بندوبست کیا جاتا ہے۔ ہمارے سسٹم میں پارلیمنٹ ضرور موجود ہے مگر وہ کتنی سپریم ہے اس پر کئی سوالیہ نشان ہیں، اس کے گرد اتنی سموک اسکرین یا پہلیاں ہیں جنہیں صاف کرنا یا بھوجنا اتنا آ سان کام نہیں ہے۔ اس سسٹم میں ان گنت راہداریاں،قومے یا فل سٹاپ ہیں جنہیں ڈی کوڈ کرنے پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں مگر کوئی بات نہیں عوام تو ہوتے ہی بےوقوف بننے کے لیے ہیں کوئی بھی لاڈلا آ کر بنا دے خوشی خوشی بن جائیں گے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments