معیشت بچت سے نہیں سرمائے کی گردش سے ترقی کرتی ہے


سرمایہ دارانہ نظام میں بچت کا سبق پڑھانے والوں کو احمق مانا جاتا ہے۔ ہماری ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے 99 فیصد تعلیم یافتہ ملک ترقی کو صرف اخراجات کم کر کے اور سرکاری املاک فروخت کر کے چلانا چاہتے ہیں۔

جدید ریاست اخراجات بڑھانے سے اچھی چلتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ریاست اسی طرح اپنی آمدنی میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے۔

2008 :سے 2013 تک سرکاری اور نجی ملازمین کی مراعات میں ریکارڈ اضافہ کیا گیا اور معیشت مستحکم ہوتی چلی گئی۔ کیونکہ ریاست صنعت، زراعت، تجارت پر جگہ اضافی کے لئے انویسٹ کر رہی تھی۔ اسحاق ڈار نے پٹرول بجلی اور گیس پر ٹیکس لگانا شروع کیے۔ یہ ماڈل آپ کی پیداواری صلاحیت کم کر دیتا ہے۔

2013 / 14 میں آپ منافع بخش معیشت تھے
2008 میں 19 ارب ڈالر خسارہ کی معیشت تھے
2018 میں پھر آپ 22 ارب ڈالر خسارہ کی معیشت بن چکے تھے۔

ن لیگ، پی ٹی آئی، مشرف، ضیا، اور ایوب خان، ان سب کی معیشت ان پٹس پر ٹیکس اور بچت کرنے کی پالیسی لائی۔ مگر سب ملک کو برباد کر کے گئے۔

آپ یہ مطالبہ کریں کہ سرکاری۔ نجی ملازمین کی تنخواہیں دو گنا کر دی جائیں کسان، مزدور، صنعتکار، تاجر کو مراعات دی جائیں۔ اس سے روپیہ گردش میں آتا ہے۔ اور جس قدر زیادہ روپیہ کی گردش ہو گی۔ اسی طرح ہر سٹیج پر ٹیکس زیادہ وصول ہوتا ہے۔ ملکی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے ملکی پیداوار کا حجم بڑھتا ہے۔ اور جب معیشت کا حجم بڑھتا ہے تو ملک خوشحال ہوتا ہے۔

عمران خان کی حکومت کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہی رہا ہے کہ اس نے ترقیاتی منصوبے روک دیے۔ بجٹ یا پاکستان کی آمدنی کی رقم براہ راست ٹیکس میں منتقل کی گئیں۔ اگر آپ کو بجٹ دینے کے بعد رقوم کو ترقیاتی منصوبوں میں استعمال کرتے ہیں۔ تو ٹھیکیدار سے لے کر مزدور تک روپیہ کئی ہاتھوں میں منتقل ہوتا ہے اور ہر سٹیج پر ٹیکس وصول ہوتا ہے۔ جب آپ نے پورے ملک کے ترقیاتی منصوبے روک دیے تو روپیہ کی گردش ختم ہوگی۔ جب روپیہ ایک دن میں دس ہاتھوں میں جاتا ہے۔ تو دس جگہ پر ٹیکس ادا کیا جاتا ہے جب آپ نے اس روپیہ کو براہ راست سرکاری خزانے میں جمع کر لیا اور وہ مارکیٹ میں نہیں آیا تو اس پر مزید ٹیکس کہاں سے وصول کیا جا سکتا ہے اس کے لئے پھر آپ کو ٹیکس کی شرح بڑھانا پڑتی ہے اور ضروریات زندگی پر ٹیکس لگانا پڑتا ہے۔

تصور کریں کہ سوشل میڈیا پر سب تعلیم یافتہ لوگ منفی باتیں کر رہے ہیں۔ ہمارے گھٹیا، جعلی نظام تعلیم نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہم سرمایہ دارانہ نظام کو ریاست مدینہ کے فرضی تصورات تلے کچل کر خوشحالی اور ترقی کے خواب دیکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments