ماسکو کی ایک خون آلود سہ پہر


ماسکو میں تیسرے ہی دن سر منڈواتے ہی اولے پڑنے والی بات ہو گئی تھی۔ تین گھنٹوں میں قیامت ہی تو گزر گئی۔ میٹرو سٹیشن سے باہر آئے۔ چلتے چلتے دفعتاً میری ساتھی مہر النساء نے کہا۔

”میرے دانتوں سے خون آر ہا ہے۔“
ٹشو پیپر پر لعاب اور لہو کے ملے جلے آمیزے کو دیکھ کر اسے تسلی دی۔
” ابھی ہوٹل چل کر غرارے کرنا۔“
کمرے میں آ کر وہ واش روم میں گئی اور میں لیٹ گئی۔

تھکے ہوئے ہونے کے باعث یونہی غنودگی میں چلی گئی۔ تبھی جیسے اس کی پریشان کن آواز نے مجھے اٹھا کر بٹھا دیا۔

”دیکھو نا یہ کیا ہے؟“ اس نے کوٹن کا سرخ تازہ خون میں لتھڑا ہوا ٹکڑا مجھے دکھایا جو میرے حواس اڑانے کو کافی تھا۔

کمرے کو لاک کیا۔ ہوٹل کے ریسیپشن آفس میں آئے۔ کاؤنٹر پر بیٹھی تین عورتوں نے یہ سب دیکھا۔ کہیں کوئی گھبراہٹ، کوئی پریشانی، کسی امر کی کوئی تشویش، ہر تاثر سے عاری سپاٹ چہرے۔ آگے بڑھ کر دیکھنے، کچھ پوچھنے، زبان سے تو خیر کیا کہنا تھا۔ باڈی جیسچر سے ہی تسلی دینے کی کوئی کوشش۔ کچھ بھی نہیں۔ یوں نارمل جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔

میں ذرا غصے سے کہتی ہوں کہ وہ ہمیں ڈینٹسٹ کا پتہ دیں۔
ایک نے کوفت سے ایک کارڈ ہمیں پکڑایا۔ مہر النساء کا ہاتھ تھام کر میں اسے باہر سڑک پر لے آئی۔
راہ گیر دیکھتے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں اور اپنا راستہ لیتے ہیں۔

”پروردگار اتنی بے اعتنائی۔“ ایک ٹیکسی کو ہاتھ دیا۔ شوں کر کے پاس سے گزر گئی۔ دوسری کو روکا۔ نہیں رکی۔ بس تو اسفالٹ کی کشادہ سڑک کے بیچوں بیچ کھڑی ہو گئی۔ دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دیے۔ اور اونچے اونچے چلائی۔

”پوموگائٹ۔ پوموگائٹ (مدد۔ مدد) ۔“
ٹیکسی رک گئی۔ کنارے پر آئی۔ میں نے کارڈ دکھایا۔ مہرالنساء کی طرف اشارہ کیا۔
ٹیکسی ڈرائیور لڑکا سا تھا۔ ملگجے کپڑوں، چہرے پر نرمی اور ملائمت کے احساس کی پھوار سی بکھیرے ہوئے۔
بہت سارے موڑ کٹے پھر ایک بلند و بالا عمارت کے زمینی فلور پر ایک ڈینٹسٹ کلینک میں داخلہ ہوا۔

ڈاکٹر ندارد۔ دبلی پتلی چھوٹے سے قد کی نرس نما لڑکی نے مہر النساء کا خون آلودہ منہ دیکھ کر پتہ نہیں ٹیکسی ڈرائیور سے کیا کہا؟ اس نے ہمیں باہر آنے کا اشارہ کیا۔

گاڑی میں بیٹھے۔ اور ایک بار پھر اونچی اونچی عمارتیں تھی۔ سڑکیں تھیں۔ کاٹن کا آدھا رول خون میں لتھڑ چکا تھا۔

مہر النساء پتھر کی طرح خاموش تھی۔ پھر اس میں حرکت ہوئی۔ اس نے بیگ کی اندرونی جیب کو کھولا۔ ڈالروں والا لفافہ نکالا۔ اسے میرے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا۔

”شاید یہ میرا وقت آخر ہے۔ اسے سنبھال لو۔“
آنسوؤں کا ایک طوفان تھا جو میری آنکھوں سے پھوٹ نکلا۔
” حوصلہ رکھو۔ انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔“

دس جگہ ٹیکسی ڈرائیور نے رک رک کر پوچھا۔ میں تو یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ ان کے ہسپتال کہاں ہیں؟ اور ٹیکسی ڈرائیور کو کیوں نہیں پتہ؟ آخر ایک بڑی سی عمارت کے سامنے رکے۔

یہ اسپتال ہے؟ کس قدر سناٹا؟ کتنی خاموشی؟ کیا اسپتال ایسے ہوتے ہیں؟ سنسان سے لمبے چوڑے ہال کے آخری سرے پر تین عورتیں اور دو مرد بیٹھے باتیں کرتے تھے۔

ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا۔ بھرائی ہوئی آواز میں میں نے بھی کچھ کہنے کی کوشش کی۔

اور آل میں ملبوس ایک دراز قامت بے حد خوبصورت خاتون فوراً اٹھی۔ اس نے کہیں فون کیا۔ اور پھر ہمیں ساتھ لے کر عمارت سے باہر نکل آئی۔ کوئی سو گز پر مین سڑک سے ملحقہ سب لین پر وہ ہمارے ساتھ کھڑی پھر کسی سے باتوں میں مصروف ہو گئی۔

کوئی دس منٹ بعد ایک بڑی سی ایمبولینس آئی۔ دراز قد نوجوان خوبصورت سی ڈاکٹر اور دو اس کی اسسٹنٹ اتریں۔ مہر النساء کو دیکھا۔ سڑک پار سٹور سے کھارے پانی کی بوتل منگوائی۔

سڑک سے ملحقہ گرین بیلٹ کے آخری کونے پر مہر النساء کو لے کر جا کر غرارے کروانے شروع کیے ۔

اس ڈاکٹر کے پاس کوئی جادو تھا۔ پانی میں کوئی ایسی خاصیت تھی یا پھر ہماری بے بسی پر قدرت کو رحم آ گیا تھا۔ ان تینوں امکانات میں سے جس پر میرا دل ٹھکتا اور گواہی دیتا تھا۔ وہ خدا کی مہربانی تھی کہ خون آلودہ ٹکڑوں سے بھرا ہوا شاپر جو میں نے چپکے سے جھاڑیوں کے پیچھے پھینکا تھا کہ مجھے کوئی ڈسٹ بن نظر نہیں آر ہا تھا۔ اسے اگر نچوڑ دیتی تو چائے کے بڑے مگ کا بھر جانا لازمی تھا۔

پندرہ منٹ میں دو بوتلوں کا پانی غراروں کی صورت زمین پر بہنے کے بعد خون بند ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر بمعہ اپنی نرسوں کے جا چکی تھی۔ اس مہربان عورت یا ڈاکٹر جو بھی وہ تھی کا شکریہ ادا کیا۔ واپسی سے قبل مہر النساء نے اس پانی کی مزید بوتلیں خریدنے کے لئے کہا۔

سڑک پا رہی تو شاپ تھی۔ میں خود ہی بھاگ کر چلی گئی تھی۔ اندر داخل ہوئی تو سامنے جس سے ٹکراؤ ہوا وہ پونے چھ فٹی قامت کا ایک خوش شکل لڑکا تھا جس نے دروازے میں سے داخل ہوتی عورت کو جس انداز میں دیکھا اس میں کچھ تھا۔ اپنایت کا احساس یا مانوسیت کی چمک۔

بوتلیں خرید کر جب میں مڑنے لگی۔ اس نے یک دم اپنی ساتھی لڑکی سے باتیں بند کرتے ہوئے میری طرف دیکھا کہ جیسے وہ مجھ سے کچھ جاننے کا خواہش مند تھا۔

میں نے اپنے بارے میں بتایا۔ خود وہ محسن تھا۔ سری نگر کا محسن۔ جس نے دکان کے شیشوں میں سے سڑک کے پار کی ساری کارروائی کو دیکھا تھا اور مجھ سے جاننا چاہتا تھا۔ ساری تفصیل سن چکنے پر اس نے فوراً کہا۔

03 پر فون کر دیتیں۔ جگہ بتاتیں۔ فسٹ ایڈ موبائل سروس فوراً ہوٹل کے دروازے پر پہنچ جاتی۔
یہ تو ہوٹل والوں کا اخلاقی اور پیشہ ورانہ فرض تھا۔ ان کے طرز عمل پر تو مجھے افسوس کیا دکھ ہے۔
محسن نے تسلی آمیز انداز میں کہ جیسے ایسی باتیں روٹین کا حصہ ہوں۔ کہا۔

”مسلسل بندشوں میں جکڑے رہنے کے بعد یہ ابھی تو اپنے ڈربوں سے نکل رہے ہیں۔ سیاحت کے طور طریقوں، اس کے پروفیشنل بین الاقوامی ضابطوں، اس کے تقاضوں اور اس کی سائنسی اپروچ سے ان کی ابھی اتنی آگاہی کہاں ہے؟ بہرحال تبدیلی کا عمل سرعت سے جاری ہے۔ جبر کے مارے ہوئے ٹھنڈے ٹھار لوگ گرم ہوتے ہوتے وقت لیں گے۔“

اس نے اپنا موبائل نمبر دیا۔ کوئی مسئلہ ہو بتائیے گا۔ ہاں ڈینٹسٹ کا نمبر 2519839 لکھ لیجئیے۔ راؤنڈ دی کلاک ان کی خدمات ہیں۔

شکریہ ادا کر کے جب باہر نکلی تو مانو جیسے تن بدن میں آگ لگ گئی ہو۔ یعنی ان ہوٹل والوں کی اتنی بے نیازی اور بے حسی۔
اور ٹیکسی سے اتر کر مہر النساء کو وہیں انٹرنس میں دھرے بینچ پر بٹھا کر میں آفس میں گئی۔
”سنیں۔“ میں نے آواز کو قصداً اونچا کیا تھا۔
تینوں میری طرف متوجہ ہوئیں۔

”مانا ہم روسی نہیں ہیں۔ پر انسان تو ہیں۔ آپ کے ملک آئے ہیں۔ اسے دیکھنے اور آپ لوگوں سے ملنے۔ یہ شرم کا مقام ہے کہ تین گھنٹوں کی شدید ذہنی اذیت اور ڈھائی ہزار روبل کے خرچے سے جس مفت علاج نے پانچ منٹ میں مریضہ کو ٹھیک کر دیا وہ آپ کی ذرا سی توجہ سے ہمیں یہیں حاصل ہو سکتا تھا۔“

افسوس صد افسوس آپ سب پر۔
٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments