پس آئینہ عکس آب ہوں میں


بھمبر آزاد کشمیر کا ضلعی صدر مقام ہے۔ کبھی بھمبر پنجاب کی ایک اہم ریاست ہوتی تھی جو چار سو سال تک قائم رہی۔ اس ریاست میں بسنے والے لوگ بہت ہی جفاکش اور محنتی تھے۔ موجودہ دور میں بھی یہاں کے لوگ بہت محنتی، بہادر اور تعلیم یافتہ ہیں اور بہت سے اہم سول اور فوجی عہدوں پر فائز ہیں۔ انہی میں ایک ڈاکٹر محبوب کاشمیری بھی ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات ایک دعوت میں ہوئی تھی جب وہ ضلع بھمبر کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر تھے۔

گو کہ ہماری یہ ملاقات سرسری سی تھی لیکن وہ مجھے بڑے دھیمے مزاج کے سنجیدہ سے فرد لگے۔ اس وقت تک میں ان کی شاعری سے ناواقف تھا۔ پھر بک کارنر جہلم سے ان کا شعری مجموعہ ً عکس آب ً چھپا اور اس کی دھوم چار وانگ پھیل گئی۔ میں ان دنوں بیٹے کے علاج کے سلسلے میں برطانیہ میں مقیم تھا اس لئے عکس آب تک فوری رسائی نہ ہو سکی۔

چند دن قبل ڈاکٹر محبوب کاشمیری سے میاں محمد بخش لائبریری میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے کمال مہربانی سے ً عکس آب ً کا دستخط شدہ نسخہ عنایت فرمایا۔ ان کا یہ مجموعہ کلام بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے۔ وہی بک کارنر جہلم والے جو کتابوں میں جان ڈال دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پھول، خوشبو اور کتاب فی زمانہ بھی سب سے قیمتی تحفہ خیال کیے جاتے ہیں۔ بہت ہی نفیس اور قیمتی کاغذ پر بہترین چھپائی میں یہ کتاب واقعی ایک بہت ہی قیمتی تحفہ ہے۔ اگر خوبصورت پیراہن میں خیال و صورت بھی اچھی ہو تو پھر پڑھنے اور دیکھنے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ بہت عرصہ بعد ایک اچھے اسلوب اور خوبصورت اور نئے خیالات پر مبنی شاعری پڑھنے کا موقع ملا۔

ڈاکٹر صاحب کا بچپن اور نوجوانی سندھ میں گزری جہاں ان کے والد بزنس کے لئے مقیم تھے۔ میرپور خاص سے ایف ایس سی کر کے علامہ اقبال میڈیکل کالج فیصل آباد سے انھوں نے ایم بی بی ایس کیا۔ اپنے آبائی علاقہ میں لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ لے کر آزاد کشمیر میں ملازمت کا آغاز کیا۔ مختلف دشوار گزار مقامات کے ہسپتالوں کے انتظامی عہدوں پر فائز رہنے کے بعد آج کل نیو سٹی کے ٹیچنگ ہسپتال میں ایم ایس کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔

زمانہ طالب علمی میں ہی ان میں ادبی جراثیم پائے جاتے تھے اسی لئے میڈیکل کالج کے مجلہ میں لکھنا شروع کیا پھر اس مجلہ کے دو سال تک چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ زمانہ طالب علمی میں ہی شاعری کا آغاز کیا۔ ان کی پہلا شعری مجموعہ ً اسے میرا غم ستائے گا ً 1997 میں شائع ہوا تھا جو ان کی طالب علمی کے ابتدائی دور کی نظموں اور غزلوں پر مشتمل تھا۔

بنیادی طور پر محبوب کاشمیری ایک غزل گو شاعر ہیں۔ عکس آب ان کی غزلوں پر مشتمل مجموعہ کلام ہے جس کا آغاز انہوں نے اللہ تعالی کی حمد سے کیا ہے آپ کہتے ہیں کہ دن کی ابتدا میں اس کے نام سے کرتا ہوں جو میرے دل کے نہاں خانوں میں بستا ہے۔

خدا سے ملتا ہوں پہلے تو دل کے معبد میں
پر اس کے آگے خشوع و خضوع کرتا ہوا

حضور اکرم ﷺکی مدح سرائی کے بغیر دن بھلا کیسے گزر سکتا ہے۔ حضور کی مدح سرائی وہ ان خوبصورت الفاظ میں کرتے ہیں۔

سجتی ہے سر ارضی یہ دستار مدینہ
اس شان سے رخشندہ ہیں انوار مدینہ

کشمیر ایک جنت نظیر ہے جس میں رہنے والا ہر شخص اس سے محبت کرتا ہے۔ محبوب کاشمیری بھی کشمیر کا سپوت ہے جس کے دل میں بھی کشمیر کی محبت رچی بسی ہے۔ اپنے وطن سے محبت کا اظہار ان کے کلام میں جا بجا جھلکتا ہے۔

مجھے محبوب ہیں بہت محبوب
وادیاں اور ہوائیں نیلم کی (نیلم کشمیر کی ایک خوبصورت وادی ہے )
دو لکیریں ہیں میری تقدیر میں
اک دل میں اور اک کشمیر میں
بندھا ہوا کسی زنجیر سے پہنچتا تھا
ہوا کا جھونکا جو کشمیر سے پہنچتا تھا

ایک خوبصورت خیال انہوں نے اپنی اس غزل میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہجر تو ہماری محبت میں صحیح وقت پر آیا ہے یہ اور بات ہے کہ ہم نے محبت ہی بہت دیر سے شروع کی ہے۔ اسی طرح وہ یہ کڑوا سچ بھی بیان کرتے ہیں کہ سب لوگ شاعر کی شاعری اور اس کے مطالب سے محبت کرتے ہیں یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ لکھنے والے کو کیا دکھ ہیں۔

ہجر تو اپنے وقت پر آیا
ہم نے تاخیر سے محبت کی
لکھنے والے کا دکھ نہیں سمجھا
سب نے تحریر سے محبت کی

ہمیں آسمان پر صرف بادل نظر آتے ہیں لیکن شاعر کو ان بادلوں میں بھی ایک سمندر نظر آتا ہے۔ شاعر کے اندر بھی جذبات کا ایک سمندر موجزن ہے جسے وہ اپنے محبوب کو دکھانے کی بات کرتا ہے اور چاندنی رات میں سیر کی دعوت دیتا ہے۔ شاعر کے تخیل کی داد دینا پڑتی ہے۔

جس کو بادل اٹھائے پھرتے ہیں
آسمان پر بھی اک سمندر ہے
چاندنی شب میں سیر کو آنا
میرے اندر بھی اک سمندر ہے

شاعر ہمیشہ اپنے دل کی بات کرتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تو ان کے اپنے دل کی بات ہے۔ میری نظر میں شاعر کی یہی بڑی کامیابی ہے۔ اپنا گاؤں اپنا گھر چھوڑنا بڑا مشکل کام ہے اور خوشی سے کوئی نہیں چھوڑتا لیکن غم روزگار اور خوشحالی کے لئے چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس شعر میں انہوں نے اس خیال کی ایک خوبصورت توجیح پیش کی ہے۔

یہاں خوشی نہیں، خوشحالی کھینچ لائی مجھے
میں اپنے گاؤں میں رہ کر کمانا چاہتا تھا

ہمیں تھوڑا سا بھی کچھ مل جائے تو ہم پھول کے کپا ہو جاتے ہیں، گردن اکڑ جاتی ہے۔ لیکن محبوب کاشمیری ایک شاعر ہیں اور شاعر بڑے عاجز ہوتے ہیں۔ وہ اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میرے مزاج کا کوئی مجھے مل نہیں رہا اس لئے میں اپنے آپ کو بہترین سمجھنے لگا ہوں لیکن ہوں نہیں۔ مجھے ابھی ایک اچھا انسان بننا ہے۔ اتنے بڑے عہدے پر پہنچنے کے باوجود وہ فقیرانا مزاج رکھتے ہیں۔ ان کی لہجے کی انکساری کا تو میں خود شاہد ہوں۔

اب کوئی ہم مزاج نہیں مل رہا مجھے
میں بہترین ہو گیا، بہتر نہیں ہوا
تھوڑا سا گفتگو میں تکلف ضرور ہے
محبوب اب میں اتنا بھی افسر نہیں ہوا

پیار محبت کا آغاز بہت پرجوش ہوتا ہے لیکن آہستہ آہستہ اس جوش میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس میں کچھ محبوب کی اداؤں اور عشوہ و انداز کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے لیکن محبوب کاشمیری کے ہاں ایسا نہیں ہے وہ اپنے محبوب کی یاد کو کبھی پرانا نہیں ہونے دیتے اور ہمیشہ اسے زندہ رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں۔

دن کو بٹوے میں رکھوں، رات رہے تکیے تلے
تیری تصویر پرانی نہیں ہونے دوں گا
دل کی تختی پہ لکھے ہیں تیرے چہرے کے نقوش
کوئی تحریر پرانی نہیں ہونے دوں گا

عموماً ہمیں پنجابی صوفی شعرا کے کلام میں بہت گہرائی ملتی ہے۔ ان کی رباعیوں میں بڑی رمزیں پنہاں ہوتی ہیں لیکن مجھے محبوب کاشمیری کے اس شعر میں بھی اتنی گہرائی نظر آئی جو مجھے بڑے پنجابی صوفی شعرا کے کلام میں نظر آئی تھی۔

سمندر نے یہ قطرے سے کہا ہے
جو آنکھوں سے بہا ہے، وہ بے بہا ہے

ان کے یہ اشعار لوگوں میں جینے کی نئی امنگ پیدا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ویسے بھی ایک مسیحا ہوتا ہے جو دوسروں کی بیماریوں کا علاج کر کے ان کو نئی زندگی بخشتا ہے۔ ایک بیمار روح اور ہارے ہوئے بے خانماں لوگوں کو جینے کا ایک نیا ڈھنگ سکھانا اور نئی امنگ پیدا کرنا بھی ایک مسیحا کا کام ہے جو محبوب کاشمیری اپنے کلام کے ذریعے سے کر رہے ہیں۔

کمی نہیں ہے میرے پاس خلوص کی اور محبت کی
جسے ضرورت ہو میں اس کو جھولیاں بھر بھر دیتا ہوں
جو پنجروں میں اڑنا بھول چکے ہوتے ہیں، میں محبوب
ان کو آب و دانہ نہیں دیتا، بال و پر دیتا ہوں

نئی روشنی کے بگڑتے ہوئے رنگوں نے معاشرے سے ادب و احترام اور دوسروں کی عزت کا خیال رکھنے پر بڑے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ معاشرے میں اس منفی تبدیلی کا شاعر کو بہت دکھ ہے وہ اس کا نوحہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

اجلے جسموں پہ چپک جاتی ہیں گندی آنکھیں
سیر ہوتے ہی نہیں، بھیڑ میں آئے ہوئے لوگ
بد ہوس آنکھوں کو پہچان کہاں رشتوں کی
وحشتیں سینوں میں پھرتے ہیں چھپائے ہوئے لوگ

میاں محمد بخش ہمارے علاقہ کے پنجابی کے بہت بڑے صوفی شاعر ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے بیت ہمارے بیٹوں جیسے ہیں جن کو اگر کوئی توڑے موڑے تو ہمیں اسی طرح دکھ ہوتا ہے جیسے کوئی آپ کے بیٹوں کو مارے۔ جس طرح ہر سخنور کو اپنے سخن سے پیار ہوتا ہے اسی طرح ہر شاعر کو بھی اپنا سارا کلام ہی اچھا لگتا ہے لیکن پسند اپنی اپنی۔ یوں تو عکس آب میں شامل ساری غزلیں ہی ایک سے بڑھ کر ایک اور شاندار ہے لیکن ان کی غزل مجھے سب سے زیادہ پسند آئی ہے۔

پس آئینہ عکس آب ہوں میں
ہاں کسی دشت کا سراب ہوں میں
حرف جھڑ جھڑ کر گر رہے ہیں مرے
کرم خوردہ کوئی کتاب ہوں میں
مجھ سے ماں خوش ہے باپ راضی ہے
ہر حوالے سے کامیاب ہوں میں
جیسے سوہنی کی بد دعا ہے مجھے
جیسے سوکھا ہوا چناب ہوں میں
کون پڑھتا ہے دست خط لے کر
تحفتاً، مفت کی کتاب ہوں میں
جھیل سیف الملوک میں ڈوبا
چودہویں شب کا مہتاب ہوں میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments