وارنگل: کوڑے کو کارآمد بنانے والا بھارتی شہر


وارنگل : وسطی بھارت کا ایک ایسا شہر جہاں سو فیصد کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے اسے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے

دہلی سے پندرہ سو کلو میٹر دور : جہاں کبھی مارکو پولو بھی آیا تھا، جسے سلاطین دہلی نے فتح بھی کیا

ٹائم ٹیبل سے معلوم ہوا کہ ہم تقریباً نو بجے کے قریب وارنگل سٹی کے ریلوے سٹیشن پر دو منٹ کے لیے رکیں گے۔ یہ جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جو میں آئندہ صفحات میں آپ کو بتاؤں گا لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے اس علاقے کا ذکر مارکو پولو نے اپنے سفر ناموں میں بڑے ہی خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ میں مارکو پولو کی طرح کا سفر تو نہیں کر سکا لیکن جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہاں سے مارکو پولو بھی ہو کر گیا ہے تو میں بھی خود کو خوش نصیب سمجھنے لگا۔

میں موقع غنیمت جانتے ہوئے ایک منٹ کے لیے پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ پہلی ہی نظر میں مجھے محسوس ہوا کہ میں کسی بڑے ہوٹل کے لاؤنج میں ہوں۔ اب تک میں نے بھارت کے جتنے بھی ریلوے سٹیشن دیکھے تھے، ان میں یہ ریلوے سٹیشن سب سے زیادہ صاف ستھرا محسوس ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں شہر کی خوبیاں بیان کروں میں چاہوں گا کہ اس علاقے کی مختصر تاریخ سے آپ کو روشناس کروا یا جائے، جس سے آپ یہ اندازہ کر سکیں گے کہ کس طرح سلاطین دلی اور مغلوں نے ہزاروں میل دور واقع ان علاقوں میں آ کر اپنی حکومتیں قائم کیں۔

وارنگل سلاطین دلی اور اورنگزیب

دکن کے مشرق اور خلیج بنگال میں تقریباً ًدو سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس علاقے میں ہندوؤں کی اکثریت تھی اور اب بھی ہے۔ اس علاقے پر صدیوں سے مقامی ہندو راجہ ہی حکمران رہے۔ پہلی مرتبہ 1323 ء میں تغلق حکمرانوں نے اس علاقے پر حملہ کیا اور یہاں اپنی سلطنت قائم کی لیکن یہ سلطنت صرف پچاس سال تک ہی قائم رہ سکی۔ یہ کسی بھی غیر ملکی کا اس علاقے پر پہلا قبضہ تھا۔ دلی میں تغلق خاندان کی حکومت کے خاتمے اور دوری کی وجہ سے مقامی لوگوں نے انھیں اپنے علاقے سے نکال کر اپنی ریاست واپس لے لی۔

اورنگزیب نے جب دکن کے مختلف علاقوں کو فتح کیا تو اس نے سترہویں صدی کے آخر میں اس علاقے پر بھی حملہ کیا اور اسے بھی مغل سلطنت کا حصہ بنایا لیکن جیسے ہی اورنگزیب کی وفات ہوئی تو دور دراز کے علاقوں والے مقامی حکمرانوں نے خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ اس طرح یہ علاقہ بھی مغل سلطنت سے الگ ہو گیا اور مقامی لوگوں نے اپنا اقتدار قائم کر لیا۔ البتہ 1724 ء میں کچھ علاقوں پر مشتمل مغل حکمرانوں کے ایک گورنر نے حیدرآباد ریاست قائم کی، جو 1948 ء تک قائم رہی۔

وارنگل سٹی کی آبادی دس لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں پر اسی فیصد سے زائد ہندو جبکہ مسلمانوں کی آبادی پندرہ فیصد ہے۔ میں نے پوری کوشش کی کہ کسی طریقے سے مجھے پتہ چل سکے کہ اس علاقے میں انگریز بھی آئے تھے؟ لیکن میں یہ جاننے میں ناکام رہا کہ وہ اس علاقے میں آئے تھے یا نہیں کیونکہ اس شہر میں کسی بھی طرح کی کوئی ایسی نشانی نہیں ملی جس سے میں کوئی اندازہ لگا سکوں۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ 1899 ء میں اس شہر میں میونسپل کمیٹی بنائی گئی جو اب تک بھارت کی سب سے پرانی میونسپل کمیٹی ہے۔ اب یہ کارپوریشن کا درجہ رکھتی ہے۔

سیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس علاقے میں ایک منصوبہ جو کئی دہائیاں پہلے شروع کیا گیا تھا، انتہائی قابل تعریف و تقلید ہے۔ اس منصوبے کے مطابق ہر گھر پر لازم تھا کہ وہ اپنے گھر کے باہر کوڑے کے لیے دو عدد کنٹینر رکھے۔ ایک میں خشک ویسٹ ڈالی جائے جیسے کاغذ، لوہا، لکڑی وغیرہ اور دوسرے میں گیلی چیزیں جیسے سبزیاں، پھل وغیرہ ڈالے جائیں۔ ایسا کرنے کرنے سے ویسٹ کو دوبارہ قابل استعمال بنانے میں مدد ملتی ہے ریاست تلنگانہ نے ریاست کی تمام میونسپل کارپوریشنز کا مقابلہ کروایا۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کس شہر میں صفائی کا نظام سب سے بہتر ہے۔ وارنگل سٹی نے اس مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔

وارنگل شہر میں ویسٹ اکٹھا کرنے کے لیے مختلف مقامات پر چار سو سے زائد سیمنٹ کی ڈسٹ بن بنائی گئیں تھیں، جو اب ختم کر دی گئیں ہیں۔ اب ہر گھر سے کوڑا کرکٹ اٹھا کر بہت دور لے جایا جاتا ہے۔ جہاں ایک ایسا نظام وضع کیا گیا ہے جس کی مدد سے بہت بڑی مقدار میں قدرتی کھاد حاصل کی جاتی ہے اور پھر یہ کھاد مقامی کاشتکاروں کو مہیا کی جاتی ہے۔ اس عمل کو Vermi Composti کہتے ہیں۔ ایسا کرنے سے زمین میں دفن کرنے والے ویسٹ کی مقدار میں چالیس فیصد سے زائد کمی واقع ہو چکی ہے۔

ہمارے لیے بھی یہ سوچنے کا مقام ہے کہ اگر دس لاکھ کی آبادی والا شہر اپنا سو فیصد کوڑا ہر گھر سے دو الگ الگ صورتوں میں اکٹھا کر کے دوبارہ استعمال کر کے قدرتی کھاد بنا سکتا تو ہم یہ کام کیوں نہیں کر سکتے۔ آج کی تاریخ یعنی 2020 ء تک، میرے علم کے مطابق پاکستان میں کہیں بھی کوڑا کرکٹ سے دوبارہ کھاد بنانے کا کوئی بھی انتظام موجود نہیں ہے۔ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ خواہ بہت ہی چھوٹے پیمانے پر ہی سہی۔ یہی سوچتے سوچتے میرے سفر کے چند سو میل اور کم ہو گئے۔ میرے باقی ساتھی سو چکے تھے اور عمر بھائی کے خراٹے بھی بلند ہو رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments