اوفا ہی اوفا


جب 7 جولائی 2015 میں وزیراعظم نواز شریف کے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے انتظامات کے لئے سفارت خانے کا عملہ اوفا پہنچا تو کسی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ یہی وہ اوفا ہے جہاں ابھی پچھلے ماہ ہم سب آئے تھے۔ روسی وزارت خارجہ نے ان تمام ممالک کے سفارتی عملے کو یہاں کا دورہ کرایا تھا اور تفصیل سے سمجھایا تھا کہ کانفرنس کے دوران کون کون سی سہولیات کہاں کہاں دستیاب ہوں گی ، کون سی میٹنگ کہاں ہوگی اور سربراہان کی باہمی ملاقاتیں کس جگہ ہوں گی۔

کانفرنس ہال اور مختلف اجلاسوں کے لئے مختص کمروں میں کس جانب اور کن راستوں سے آنا ہے؟ ہمیں ایک ایک تفصیل سمجھائی جا رہی تھی مگر ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ابھی تو اس جگہ وہ ہال اور کمرے، سربراہان کے علیحدہ علیحدہ دفاتر وغیرہ سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ کہیں کہیں کسی کمرے کا آدھا پونا ڈھانچہ کسمپرسی کی تصویر بنا اپنی بدقسمتی کا رونا رو تا نظر آ رہا تھا۔ اسی طرح ہمیں نہایت عرق ریزی سے یہ بتایا گیا کہ ہر ملک کے میڈیا کی مخصوص جگہ کہاں ہو گی۔

وہاں تو سلاوت کے مجسمے کی جانب جانے والی چٹیل سڑک کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ یہاں، ایک نہیں دو دو بین الاقوامی کانفرنسیں ہوں گی تو یہ تصوراتی سہولتیں واقعی میسر کی جا سکیں گی؟ لیکن ہمارے اوفا پہنچنے پریوں لگا ہم کسی اور شہر جا نکلے ہیں۔ ہر ڈگر پر اک جہان دیگر تھا۔ شکر ہے کہ روسی میزبانوں نے ہر وفد کی رہنمائی کے لیے روسی دفتر خارجہ کے افسران مقرر کر دیے تھے جنہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے ہر وفد کی ہر اجلاس میں عین وقت پر شرکت کو یقینی بنایا۔

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس۔ سی۔ او) اور برکس (بی۔ آر۔ آئی۔ سی۔ ایس) تنظیموں کے بیک وقت سربراہی اجلاسوں کی شروعات سے جیسے ایک ان دیکھی مشین حرکت میں آ گئی لیکن مجال ہے کہیں شور شرابے، ہڑبونگ یا بھاگ دوڑ کا کوئی شائبہ تک ہو! عین وقت پر کاریں، کوسٹریں وغیرہ ہوٹلوں کے دروازوں پر رکتیں، آرام سے وفود کے اراکین اور دوسرے متعلقین ان پر سوار ہوتے اور لمحے بھر کی تاخیر کے بغیر کانفرنس ہال میں پہنچ کر اپنی اپنی مخصوص نشستوں پر بیٹھ جاتے۔

بظاہر سیکورٹی اداروں کے اراکین کہیں موجود نہیں تھے اور نہ ہی لوگوں کو روک روک کر ان کی شکلوں اور گلوں میں آویزاں کارڈوں کا بنظر غائر جائزہ لیا جا رہا تھا۔ ہمارے ہوٹل سے کانفرنس ہال چند سو گز کے فاصلے پر تھے جہاں ہم پہلے چند منٹوں میں پہنچ جایا کرتے تھے مگر اب کی بار یہ سفر طے کرنے میں پورے پینتیس منٹ لگ جاتے تھے جس کی وجہ ہوٹلوں سے کانفرنس ہالوں تک پہنچنے کے مخصوص راستے تھے

شنگھائی تعاون تنظیم کی یہ پندرہویں سربراہی کانفرنس اس لحاظ سے انتہائی اہم تھی کہ اس میں پاکستان اور بھارت کو اس تنظیم کے باقاعدہ ممبر بنانے کے فیصلے کا باضابطہ اعلان کیا جانا تھا جس کے بعد دونوں ممالک نے کچھ ہی عرصے میں اس کے فعال اراکین بن جانا تھا۔ پہلے اس سلسلے میں روس اور چین میں اختلاف رائے تھا۔ چین پاکستان اور روس بھارت کو اس تنظیم کا رکن بنانا چاہتا تھا۔ سو ایک عرصے تک دونوں ممالک مبصر کی حیثیت سے اس کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے لیکن جوں جوں ایک طرف پاکستان اور روس، اور دوسری طرف روس اور چین ایک دوسرے کے قریب آتے گئے، روس اور چین میں اس بات پر اتفاق رائے ہو گیا کہ دونوں ملکوں کو بیک وقت اس تنظیم کا رکن بنا لیا جائے جس کے نہ صرف جنوبی، جنوب مشرقی اور وسطی ایشیا بلکہ دنیا بھر کی امن و سلامتی اور خوش حالی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے

اوفا آمد پر نواز شریف کا ہوائی اڈے پر استقبال یہاں کی روایتی میٹھی روٹی پیش کر کے کیا گیا، ان کانفرنسوں میں شریک تمام سربراہان کو یکساں پروٹوکول دیا گیا۔ اوفا میں برکس اور ایس سی او کانفرنسوں کے ایک چھت تلے انعقاد کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ان دو بڑی اور اہم تنظیموں کے رکن ممالک کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور قریب آنے کا موقع ملا۔ ویسے بھی برکس کے پانچ میں سے تین ممالک یعنی چین، روس اور بھارت ایس سی او کے بھی ممبر ہیں۔

برکس کے ایک کثیر الجہتی اجلاس میں ایس۔ سی۔ او ممالک کے سربراہان کو بھی مدعو کیا گیا تھا کانفرنس میں آمد پر تازہ تازہ تیار شدہ کانگرس ہال میں صدر پیوٹن نے سارے سربراہان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں پاکستان کے وزیراعظم نے شریک ممالک کو باہمی امن اور سلامتی کے قیام اور ان ممالک کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایک چہار جہتی طریقۂ کار اپنانے کی ضرورت پر زور دیا جس میں عوام سے عوام کے رابطوں میں فروغ، امن و سلامتی کے فروغ کے لیے باہمی اعتماد پیدا کرنے کے لئے مناسب اقدامات، عوام کی حالت بہتر بنانے کے لئے باہمی تجارت میں اضافے اور رسل و رسائل کے ذرائع کی ترقی کے ذریعے ان ممالک کو باہمی طور پر مربوط کرنے کی اہم تجاویز شامل تھیں

اپنے خطاب میں نواز شریف نے عوامی رابطوں اور ثقافتی و تعلیمی تعاون کے ذریعے خیر سگالی کے جذبات کے فروغ اور ان ممالک میں تجارت بڑھانے کے لئے مناسب قوانین بنانے، ٹیکسوں میں کمی، سرحدوں پر عوام اور مال و اسباب کی نقل و حرکت میں سہولیات کی فراہمی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان بیشتر علاقائی تعاون کی تنظیموں جیسے سارک او ر ای سی او کا فعال اور متحرک رکن ہے اور پاکستان ’ترقی کے لئے امن‘ اور ’امن کے لئے ترقی‘ کے تصور پر یقین رکھتا ہے

انہوں نے چینی صدر زی من پنگ کے ون بیلٹ۔ ون روڈ ’کے منصوبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس مثالی منصوبے میں چین کے تعاون سے سی پیک کی تعمیر کے ذریعے اہم کردار ادا کر رہا ہے جس سے اس پورے خطے بلکہ دوسرے خطوں کے معاشی حالات میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی

نواز شریف نے خاص طور پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے افواج پاکستان کی قربانیوں اور پاکستان کے عوام کے پختہ عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ اس جنگ میں جیت نہ صرف پاکستان کے تحفظ بلکہ دنیا بھر کے امن اور استحکام کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے

اگلے روز (10 جولائی) کو شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے اپنے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے ممبر ممالک کے کے تمام تنازعات کو حل کرنے کے سلسلے میں اس تنظیم کی اہمیت اور خطے کے ممالک کی اجتماعی ترقی اور خوش حالی میں اس عظیم منصوبے کی اہمیت کو اجاگر کیا اور صدر پیوٹن کے یوریشین اکنامک یونین کے منصوبے کو چین کے شاہراہ ریشم معاشی بیلٹ کے منصوبے کے ساتھ مربوط کرنے کے فیصلے کی تعریف کی اور کہا کہ اس سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی معاشی رسائی میں بہت اضافہ ہو جائے گا

وزیر اعظم نے ایس سی او ممالک کو دوسرے خطوں کے ممالک سے منسلک کرنے میں پاکستان کے بری، بحری اور فضائی راستوں کی اہمیت کا خصوصی طور پر ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان اس تنظیم کے ممالک کو باہمی طور پر ملانے اور دوسرے خطوں سے منسلک کرنے کے ساتھ ساتھ یوریشین وسطی خطے کو بحیرۂ عرب سے ملانے کا فطری ذریعہ ہے

10 جولائی یوم جمعہ اور وزیراعظم کے لئے بہت مصروفیت کا دن تھا۔ آج ان کی چین اور افغانستان کے صدور اور انڈیا کے وزیر اعظم سے باہمی ملاقاتیں طے کی گئی تھیں۔ چینی صدر نے اس ملاقات میں کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور اسی سال صدر پاکستان کے دورۂ چین کا بے تابی سے منتظر ہے۔ انہوں نے اس موقع پر وزیراعظم پاکستان کو اسی سال بیجنگ میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے مجوزہ اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی۔

نواز شریف نے اس موقع پر چین کے ساتھ تعلقات کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون قرار دیا اور سی پیک کی کامیابی سے تکمیل کے سلسلے میں چینی صدر سی جن پنگ کی ذاتی یقین دہانی کی تعریف کی۔ انہوں نے ایس سی او میں پاکستان کی رکنیت کے لیے چین کی حمایت اور مسلسل کوششوں پر چین کی حکومت، عوام اور صدر کا شکریہ ادا کیا

وزیراعظم کی افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات میں خاصی گرم جوشی اور دوستانہ ماحول نظر آیا۔ نواز شریف نے اس موقع پر پاک۔ افغان تعلقات میں آنے والی مسلسل بہتری کو حوصلہ افزا قرار دیا اور دونوں ملکوں کے تعلقات کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے اور درپیش چیلنجوں سے نپٹنے کے لئے مبنی بر تعاون تعلقات کے لیے مستقل بنیادوں پر مسلسل کوششوں کی ضرورت پر زور دیا

10 جولائی کو صبح دس بجے وزیراعظم کی ملاقات، جس پر ساری کانفرنس اور میڈیا کی نظریں لگی تھیں، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے کانگرس ہال میں ہوئی۔ اس ملاقات کی تجویز بھارت نے پیش کی تھی جسے پاکستان نے قبول کیا تھا۔ اس ملاقات کی راہ ہموار کرنے کے لیے بھارت کے وزیراعظم نے رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر بنگلہ دیش اور پاکستان کے وزرائے اعظم اور افغان صدر کو مبارک باد کے فون کیے تھے۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں کچھ کمی آئی تھی۔

ہندوستان کے دفترخارجہ کی جانب سے پیش کی جانے والی وزرائے اعظم کی ملاقات کی اس تجویز کی تصدیق پاکستان ہائی کمیشن دہلی نے کی تھی۔ اوفا میں موجود بین الاقوامی میڈیا جس میں زیادہ تر کا تعلق انڈیا سے تھا اور وہاں کے سارے بڑے چینلوں اور اخبارات کے نمایندے یہاں موجود تھے بلکہ ان کی اکثریت نے 9 جولائی سے ہی اس ہوٹل کی لابی میں ڈیرے ڈال رکھے تھے جہاں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے وفد کے اراکین سرتاج عزیز، طارق فاطمی اور سفارت خانے کے دیگر افسران کا قیام تھا۔

اس کے برعکس پاکستان کے کسی اخبار یا ٹی وی چینل کا کوئی نمائندہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا صرف وزیراعظم ہاؤس کی مختصر میڈیا ٹیم تھی جس میں ایک کیمرہ مین اور ایک پروڈیوسر شامل تھے۔ دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے اہم نکات میں دونوں ملکوں میں موجود تنازعات کوپر امن طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کرنے، اگلے ماہ (اگست2015) دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کی دہلی میں ملاقات، قید ماہی گیروں کی رہائی اور دونوں ملکوں کی افواج کے ڈی جی ایم اوز کی باقاعدہ ملاقاتوں پر اتفاق کیا گیا تھا ملاقات کے فوراً بعد ہی بھارتی چینلوں نے مشترکہ اعلامیہ میں حرف ک (k) کی غیر موجودگی کا شد و مد سے ذکر شروع کر دیا، اور ان سے بھی زیادہ ہمارے چینلوں نے۔

انڈیا کے چینل ان کانفرنسوں اور خصوصاً اس ملاقات کے بعد سرتوڑ کوشش کرتے رہے کہ ہمارے وفد سے کوئی بات اگلوائی جائے مگر پاکستانی وفد نے مکمل سکوت برقرار رکھا۔ پہلی بار میں نے بعض بھارتی چینلوں کی خواتین میزبانوں کو پاکستانی وفد کے اراکین سے رو رو کر سوالوں کے جواب دینے کی درخواستیں کرتے دیکھا مگر پورے دورے کے دوران جو واحد تبصرہ پاکستانی وفد کی طرف سے کیا گیا وہ طارق فاطمی کی طرف سے ’کوئی تبصرہ نہیں‘ (No comments) تھا۔

شام ڈھلے جب سب میڈیا پہلے ہی ہمارے خلاف جا چکا تھا جناب سرتاج عزیز نے پی ٹی وی کے نمائندے کو انٹرویو دیا جو پی ٹی وی سے نشر ہوا۔ ظاہر ہے سرکاری ٹی وی سے نشر ہونے والا یہ مختصر انٹرویو پاکستان اور ہندوستان کے سینکڑوں چینلوں کی ہو ہو کار کا جواب نہیں ہو سکتا تھا چنانچہ میڈیا اور تعلقات عامہ کے محاذوں پر نہ تو ہم اپنے نکتۂ نظر کو موثر طور پر پیش کر سکے اور نہ کانفرنس سے حاصل ہونے والی خیرسگالی اور سفارتی کامیابی کو اجاگر کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔

اس کانفرنس بلکہ وزارت اطلاعات و نشریات میں اپنی پوری سروس کے دوران جس بات کا شدت سے احساس ہوا وہ میڈیا کے بارے میں ہمارا مجموعی قومی رویہ ہے۔ جہاں تک سیاسی رہنماؤں کا تعلق ہے انہیں میڈیا کی اہمیت کا احساس بلکہ ضرورت سے زیادہ احساس ہے۔ یہاں تک کہ بعض رہنما اور حکومتیں تو میڈیا کے ذریعے پیدا کیے جانے والے اپنے امیج کو زمینی حقیقتوں اور اپنی اصل کارکردگی کا نعم البدل سمجھتے ہیں ان کا یہ خیال ہے کہ میڈیا کے ذریعے جو نہ ہو اس کا ہونا ثابت کیا جا سکتا ہے۔

اس کے برعکس کچھ حکومتیں اپنی کارکردگی کو عوام تک بذریعہ میڈیا پہنچانا ضروری ہی نہیں سمجھتیں۔ اسی طرح کی صورتحال ہمارے بین الاقوامی تاثر کے حوالے سے بھی موجود ہے۔ دراصل مارکیٹنگ خواہ وہ نظریات اور خیالات اور قومی بیانیے کی ہو یا مصنوعات اور اشیا کی، ہم انڈیا سے پیچھے رہ جاتے ہیں جس نے دمکتے انڈیا (shining India) کے جھوٹے امیج کو اپنی فلموں، ڈپلومیسی اور تعلقات سے دنیا بھر میں پھیلا دیا ہے۔ سچ پوچھئے تو دنیا میں اپنا مثبت تاثر پھیلانے میں ہمارے سارے سفارت خانے، سفارت کاری اور مجموعی قومی کوشش بھی وہ کام نہ کر سکی جو انڈیا کی فلم انڈسٹری نے اپنے ملک کے لئے کر دیا۔

یہ فلم انڈسٹری سالانہ کم و بیش ایک ہزار فلمیں بناتی ہے جو ہالی ووڈ میں بننے والی فلموں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے ان فلموں نے بھارت جس میں اب بھی دنیا میں سب سے زیادہ لوگ فٹ پاتھوں پر سوتے اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں، کا ایک روشن خیال اور تیزی سے آگے بڑھنے والے جمہوری ملک کے تاثر کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا ہے دوسری طرف ہمارا یہ عالم ہے کہ ہمیں اپنے دنیا میں منفرد چاول، آم اور کنو تک بیچنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جب کہ انڈیا کے منجن، نیم کے مسواک، حتی کہ جنگلی جڑی بوٹیاں بھی ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔

سیاست دانوں کے علاوہ اگر میڈیا کی اہمیت کے حوالے سے افسر شاہی کے رویے پر نظر ڈالی جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اطلاعاتی دھماکے کے اس دور میں اس بہت پڑھے لکھے اور تربیت یافتہ طبقے میں میڈیا کے کام کرنے کے بارے میں اتنی معلومات بھی نہیں ہیں اور نہ اس کی اہمیت کا احساس ہے جتنی معلومات اور احساس پاکستان کے ایک عام شہری کو ہے۔ اس میں ان کی غلطی بھی نہیں ہے کہ سول سروس اکیڈمی میں سارے سروس گروپوں کی مشترکہ ٹریننگ اور بعد ازاں ہر سروس گروپ کی اپنی مخصوص ٹریننگ کے دوران درجنوں مضامین پڑھائے جاتے ہیں مگر ان میں ابلاغ عامہ اور اطلاعات و نشریات سے متعلقہ مضامین صرف انفارمیشن سروس گروپ کو خصوصی تربیت کے دوران اپنی اکیڈمی میں پڑھائے جاتے ہیں۔

یوں بھی حکومتی شعبوں میں صیغہ راز کی بڑی اہمیت ہے چنانچہ بتانے کی باتوں کو بھی سینت سینت کر رکھنے اور تہہ در تہہ چھپانے کی ایسی ثقافت پروان چڑھ چکی ہے کہ اسے بدلنا آسان نہیں۔ اپنی طویل ملازمت کے دوران اس بات کا بار بار احساس ہوا کہ ہماری حکومتوں کو جہاں خاموش ہونا ہوتا ہے وہاں بول پڑتی ہیں اور جہاں بولنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں خاموش رہتی ہیں۔ ویسے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی اس ہڑبونگ اور شور شرابے میں خاموشی کی سہولت اب حاصل نہیں رہی۔ حکومتی اور ریاستی موقف کی اندرون اور بیرون ملک بروقت فراہمی ایک ایسی ضرورت ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ پھر ایک قومی بیانیے کی تخلیق اور تشکیل ایک ارتقائی عمل ہے جس کے لئے مربوط اور مسلسل کاوشوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بیانیے کو قابل قبول بنانے کے لیے وسیع تر قومی اتفاق رائے کی ضرورت کا احساس بھی

نظر نہیں آ رہا۔ حد تو یہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ جس میں ہمیں شدید جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا، کے خلاف متفقہ قومی منصوبۂ عمل (نیشنل ایکشن پلان) کتنا متفقہ ہے، اس کا اظہار ہمارے چینل دانشور یومیہ بنیادوں پر کھل کر کرتے رہتے ہیں۔ جب تک ایک متفقہ قومی بیانیہ مسجدوں، مدرسوں، اخبارات چینلوں اور سوشل میڈیا سے مسلسل بیان نہیں کیا جائے گا اور ہمارے قومی رہنما اسے اپنی قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملاقاتوں کے ایجنڈے میں شامل نہیں کریں گے، دنیا ہماری بات پر توجہ نہیں دے گی اور حالات و واقعات کے عوامل و عواقب کا کلی تجزیہ کیے بغیر فوری ردعمل دینے کا عمومی قومی رویہ ہمارے لیے ہمیشہ پریشانی کا باعث بنے گا۔

میرے قیام روس کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنماؤں نے روس کے متعدد دورے کیے جن میں صدر اور وزرائے اعظم کے دورے بھی شامل تھے۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کئی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے روس کے متعدد دورے کیے۔ صدر زرداری نے 2011؁ میں روس کا سرکاری دورہ بھی کیا۔ ان کے علاوہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، وزرا مخدوم امین فہیم، چوہدری مختار احمد اور چیرمین سینٹ سید نیر بخاری نے بھی روس کے دورے کیے ان میں چیر مین سینٹ اور وزیر خارجہ کے دوروں کو بہت پذیرائی ملی۔

چیرمین سینٹ کے دورے میں پہلی با ر باہمی گفت و شنید کے دوران روسی وزیر خارجہ سرگئی لاورو کو انگریزی زبان میں بغیر کسی مترجم کی مدد کے سید نیر بخاری سے گفتگو کرتے سنا تو حیرت ہوئی کہ انہیں انگریزی زبان پر اتنا عبور ہوتے ہوئے بھی وہ کبھی اس زبان میں گفتگو نہیں کرتے۔ در اصل اس زبان میں بات کر کے وہ پاکستانی وفد کے ساتھ خصوصی خیر سگالی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے دور میں وزیراعظم نواز شریف، وزیرخزانہ اسحق ڈار، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، وزیراعظم کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے معاون خصوصی سر تاج عزیز، بجلی اور پانی کے وزیر خواجہ آصف، افواج پاکستان کے سربراہان، جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف اور فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل طاہر بٹ اور ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عاصم باجوہ نے روس کے دورے کیے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی ملاقات رشیا ٹو ڈے (رپٹلی ٹی وی ) کے سربراہ سے کروائی گئی اور وہاں کا تفصیلی دورہ کرایا گیا نیز آلات موسیقی کی روسیوں کے بقول دنیا کے سب سے بڑے میوزیم کے دورے کا بھی انتظام کیا گیا۔

ہمارے رہنماؤں کے دوروں میں روسی ذرائع ابلاغ نے غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ روسی اخبارات اور ٹی وی چینل ان رہنماؤں کے انٹرویو لینا چاہتے تھے لیکن کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کتنے جتن کر کے چند رہنماؤں کے انٹرویو کرائے گئے۔ وجہ وہی چیزوں کو صیغۂ راز میں رکھنے اور پوشیدگی کے دبیز پردوں میں پنہاں کرنے کی افسر شاہی کی جبلت۔ حالاں کہ سربراہان مملکت، سربراہان حکومت اور دیگر زعما کے دورے ایسے سنہری مواقع فراہم کرتے ہیں جب میزبان ملک کے میڈیا کی ساری توجہ آپ کے ملک اور دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر مرکوز ہوتی ہے۔ ان مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی بیانیے کو موثر انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔

حنا ربانی کھر، سرتاج عزیز، اسحاق ڈار کے انٹرویوز روس کے انگریزی زبان کے واحد بین الاقوامی چینل رشیا ٹوڈے (اب اسے Ruptly TV کہا جاتا ہے ) سے کرائے گئے جن میں ان رہنماؤں نے بہت موثر انداز میں پاکستان کے نکتۂ نظر کی ترجمانی کی دوسرے لیڈروں کے انٹرویو بھی روس کے اہم اخبارات میں شائع ہوئے۔ صدر اور وزرائے اعظم کے انٹرویو کے لئے ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ صدر زرداری، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے دوروں کے دوران ان کے انٹرویو نہیں ہوئے۔

بات بہت دور نکل گئی۔ بات ہو رہی تھی وزیر اعظم نواز شریف کی شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس تنظیم کے سربراہی اجلاسوں میں شرکت اور روس، چین اور افغانستان کے صدور کے ساتھ باہمی ملاقاتوں کی۔ بدقسمتی سے یہ ساری ملاقاتیں اور ان میں طے ہونے والی اہم باتیں ہندوستان کے وزیر اعظم سے ہونے والی ملاقات اور مشترکہ اعلامیے کے ملبے تلے دب کر رہ گیں۔ انڈیا کے سینکڑوں ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے نمایندوں کی موجودگی اور ہمارے میڈیا کی تقریباً مکمل غیر موجودگی اور پھر ہماری طرف سے مکمل سکوت۔ حالاں کہ بعض دفع زبان غیر سے شرح آرزو بھی سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔

پھر کیا تھا، ہندوستانی میڈیا نے وہی کیا جو اسے کرنا تھا، جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا تھا اور جس میں اسے مہارت تامہ حاصل تھی، یعنی ہماری خوب خبر لی۔ اس کار دراز میں ہمارا میڈیا بھی بھارتی میڈیا سے کسی طرح پیچھے نہ رہا اور اس نے بھی اپنی قیادت کو جی بھر کے لتاڑا۔ ہمارے میڈیا نے پاکستان کی ایس سی او میں شمولیت کے انتہائی اہم واقعے اور روس، چین اور افغانستان کے صدور کے جذبہ خیر سگالی اور دوستانہ رویے کو قطعاً در خور اعتنا نہ سمجھا بلکہ اپنی ہی حکومت کی وہ گت بنائی اور پروپیگنڈے کی وہ دھول اڑائی کہ الا مان!

دوسری طرف حکومت اور افسر شاہی بھی یہ حقیقت فراموش کر بیٹھی کہ میڈیا مشین کے پیٹ سے ہمیشہ ’حل من مزید‘ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور اس مشین کا ایندھن ’خبر‘ ہوتی ہے، خبر آپ نہیں دیں گے تو کوئی اور دے گا، کسی اور نے بھی نہ دی تو میڈیا خود گھڑ لے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments