کیا مہنگائی ہمیشہ ایسے ہی رہے گی؟


گزشتہ ماہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہٹائے جانے کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان نے جلسوں اور احتجاج کا جو ایک سلسلہ شروع کیا وہ جمعرات کی صبح حقیقی آزادی مارچ پر ختم ہوا۔ اپوزیشن اور سیاسی طور تقسیم صحافتی حلقوں میں سے ایک حلقہ کے مطابق امریکی سازش یا مداخلت والی بات بالکل افسانہ ہے اور عمران خان اپنے مفادات کے لئے اسلام پسند اور امریکہ مخالف جذبات کا استعمال کر رہے ہیں۔ گو کہ موجودہ حکومت کے زیر نگیں کام کرنے والے اہم فورمز یعنی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی، ادارہ برائے شماریات اور سٹیٹ بینک کی جانب سے سال 2021 اور 22ء کے معاشی اشاریے جاری کیے گئے جن کے مطابق معیشت مستحکم ہو رہی تھی اور شرح نمو بھی حیران کن حد تک 5.97 تک پہنچ چکی ہے مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ حکومت میں رہتے ہوئے عمران خان اس حقیقت کو اپنا بیانیہ نا بنا سکے؟ باوجود اس کے عمران خان کی سیاست کا دارو مدار آج کل اسی عمل پر ہی ہے۔ یقینی طور پر اس کی ایک بڑی وجہ بڑھتی مہنگائی کو روک نہ پانا ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی حکومت جانے کے بعد بھی مہنگائی کم نہیں ہوئی، اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور تاریخ کی بلند ترین سطح کو پہنچ چکی ہے۔ روپے کی قدر بھی تیزی سے گر رہی ہے اور اب یہ معاملہ ملکی سیاست پر چھایا ہوا ہے۔ حیران کن طور پر موجودہ حکومت نے بھی اب مہنگائی کو بالآخر عالمی وجہ قرار دے دیا ہے جس کو وہ سابق حکومت کی نااہلی قرار دیتے تھے۔

اسی تناظر میں چند ایسے سوال ہیں جو حقیقت سے قریب تر سوچنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ مہنگائی کو وجہ بنا کر ختم کی گئی تحریک انصاف کی حکومت کے مقابلے نئی بننے والی متحدہ حکومت گزشتہ روز پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بالآخر تیس روپے کا بھاری اضافہ کر چکی ہے جس کی وجہ عالمی منڈی میں خام تیل کی حد سے بڑھی ہوئی قیمتوں کو قرار دیا گیا ہے۔ عام شہری کے ذہن میں اب کئی سوال ابھر رہے ہیں کہ ماضی میں پی ڈی ایم پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر تحریک انصاف کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی تھی تو اب کیوں قیمتیں بڑھائی گئیں؟ اگر پیٹرول کی بڑھتی قیمت اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی مہنگائی کی وجہ عالمی ہی ہے تو کیا پھر عمران خان کو حکومت سے نکالنا ایک سوچی سمجھی سازش تھی؟ اگر عمران خان کی حکومت کو امریکی سازش کے ذریعے ہی نکالا گیا تھا تو آنے والی حکومت کو بحران سے کیوں نہیں نکالا جا رہا جو کہ خان صاحب کے مطابق امریکی امپورٹڈ حکومت ہے۔

ان تمام تر سوالات کے جواب سمجھنے کے لئے میں کچھ مزید سوال اور ان کی وضاحت میں موجودہ عالمی و ملکی سیاست سے متعلق تاریخی حقائق بیان کروں گا جو آپ کو اوپر دیے گئے سوالوں کے جواب پیش کریں گے۔

امریکہ پاکستان کے لئے اتنا اہم کیوں رہا ہے اور مزید کب تک رہے گا؟ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کیا ہے؟

تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت کا پاکستانی معیشت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ابھرنے والی روس امریکہ مخالفت اور سرد جنگ کے تناظر میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا آغاز ہوا۔ بھارت کے روس کے ساتھ الحاق کے بعد نوزائیدہ طور پر کمزور پاکستان کو معاشی اور فوجی امداد کی صورت میں سہارا چاہیے تھا لہذا پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں اس کے اتحادی روس کے مخالف امریکہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سامراجی سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ دروازے کی کنڈی کھولنے کے لئے پہلے سے وہاں موجود تھا اور پاکستان کو ایک کمزور ملک کے طور پر ہی وجود میں لایا گیا تھا تاکہ اسے معاشی طور پر مغربی ممالک پہ انحصار کرنا پڑے۔ تو لیجیے جناب اس کے بعد ہماری معیشت کی روداد شروع ہوتی ہے اور دفاعی قوت بھی اسی سے جڑی ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو اپنے دفاع اور معاشی استحکام کے لئے ہر موقع پر مدد فراہم کرنے کا پختہ وعدہ کر لیا۔ اس کے بعد ہمیں قرضے ملنے شروع ہوئے اور پاکستان معاشی طور پر ایشیاء کا ٹائیگر بھی بن کر ابھرا۔ مگر تاریخ بڑی بے رحم ہے کیونکہ اس خوشحالی میں ایک اہم مسئلہ ہمیشہ کے لئے پیدا ہو گیا جو تھا امریکہ کی خوشنودی۔ بات کو مختصر یوں سمجھئے کہ جب بھی امریکہ پاکستان سے خوش ہوا تو پاکستان میں پیسے اور اسلحے کی ریل پیل ہوئی اور جب بھی امریکہ ہم سے ناراض ہوا تو پاکستان کو معاشی تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا۔ حد سے زیادہ معاشی انحصاری اور پہلے روس کے خلاف جہاد اور پھر طالبان دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ نے پاکستان کو اس حال میں کر دیا ہے کہ اب پاکستانی معیشت بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ امریکہ جس انداز سے آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو قابو میں رکھتا ہے یہ فلم آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے جسے بیان کرنا وقت کا ضیاع ہو گا۔ اس سے آپ سمجھے ہوں گے کہ پاکستان کے لئے امریکہ سے بنائے رکھنا کتنا اہم ہے۔ دوسری بات یہ کہ ابھی واضح تو نہیں کہ پاکستان کے لئے مزید امریکہ کتنا اہم ہے مگر معاشی ماہرین کے مطابق اب پاکستان کو امریکہ کی اس معاشی دہشت گردی کا جمود توڑنے کے لئے ایک بہترین وقت میسر ہے کیوں کہ چین جیسا طاقتور معاشی ملک ہماری پشت پہ کھڑا ہے اور روس بھی اس کے لئے تیار ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اب دفاعی طور پر ناقابل تسخیر ہے۔ مگر اس سب کے باوجود پاکستان امریکہ کے زیر اثر کیوں ہے یہ سوال ابھی باقی ہے۔

کیا پاکستان میں کوئی خاص طبقہ ہے جو امریکہ کے ساتھ تعلقات بنا کے رکھنا چاہتا ہے؟

اس سوال کا جواب ہاں میں بھی ہو سکتا ہے اور نہ میں بھی۔ دیکھا جائے تو معاشی انحصاری کی وجہ سے پاکستان آج تک اپنی آزاد خارجہ پالیسی قائم نہیں کر سکا۔ جس میں دو بڑی رکاوٹیں اہم سمجھی جا سکتی ہیں جن میں ایک ڈالر سے جڑا ہوا ہمارا روپیہ جس کی قیمت اک لمبے عرصے سے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے قرض معاہدوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اور دوسری چیز وہ طبقہ ہے جو زیادہ تر ان بیرون ممالک میں روزگار اور سکونت کی غرض سے مقیم ہے جو زیادہ تر مغربی اتحاد کے ممالک ہیں۔ ان لوگوں میں کاروباری حضرات، سیاستدان، جج، بیورو کریٹ، ریٹائرڈ فوجی افسران اور عام شہریوں کی کثیر تعداد شامل ہے۔ صاف ظاہر ہے اگر ریاست پاکستان امریکہ کو ناراض کرنے والا اقدام کرے گی تو اس طبقے کے مفادات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے جو کہ ملک میں ہر سال اربوں ڈالرز کی دولت بھی بھیجتے ہیں۔

امریکہ کو پاکستان کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟

بین الاقوامی سیاست کے ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ اب پاکستان سے ایک مزید جنگ لڑنے کی توقع رکھتا ہے یا کم سے کم اس جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی۔ آخر یہ کون سی جنگ ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ چین کہ ساتھ ہمارے تعلقات، سی پیک آنے کے بعد کس قدر گہرے ہو چکے ہیں جس کی ایک وجہ امریکہ کا پاکستانی قربانیوں کا اعتراف نہ کرنا اور مسلسل برتی جانے والی بے رخی ہے۔ دوسری طرف امریکہ روس کے بعد چین کو اپنا سب سے بڑا حریف قرار دیتا ہے جو چین کی معاشی طاقت سے خائف ہے اور اس کی بڑھتی ہوئی طاقت کو قابو میں کرنا چاہتا ہے۔ اب چونکہ پاکستان امریکہ کی جنگ لڑنے پہ راضی نہیں تو امریکہ نے بھارت کو اپنا اہم اتحادی بنا لیا ہے اور اسے چین سے بھڑوا کے اس کو معاشی طور پر کمزور کرنا چاہتا ہے۔ ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب پاکستان اپنے ہمسائے بھارت کو تنگ نہ کرے اور اس سے اچھے تعلقات بنا کے رکھے۔ عمران خان کی حکومت نے امریکہ کی ایک بات نہ مانی اور ساتھ ہی ’Absolutely Not‘ بھی کہہ دیا جس پر امریکہ نے افغانستان کے معاملے میں خجالت بھی دیکھی۔ بات پھر یہاں تک پہنچنا لازم تھی کہ امریکہ پاکستان میں عمران خان کی حکومت ہٹائے جانے کی خواہش کرے۔ خواہش اور سازش کو میں ساتھ نہیں جوڑ رہا مگر اوپر ذکر کیے گئے طبقے میں سے چند مخصوص لوگوں نے محسوس کیا کہ امریکہ کو ناراض نہیں کرنا چاہیے لہذا عمران حکومت کے خاتمے کی خواہش کرنے لگے پر مداخلت نہیں کی۔ تو پھر کس نے مداخلت کی۔ ان کے بارے میں خان صاحب نے اپنے جلسوں میں کئی دفعہ ذکر کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو فی الحال تو پاکستان میں ہیں مگر جلد یا بدیر انہی پردیسیوں کے ساتھ جا بسنا چاہتے ہیں۔

امریکی سازش والے معاملے میں کس قدر سچائی ہے؟

عمران خان نے اپنے جلسوں اور اب تک کی سیاسی چالوں سے عوام کی بڑی تعداد کو اپنے خلاف قرار دی جانے والی سازش پر قائل کر لیا ہے جس کا اثر موجودہ حکومت اور تمام ادارے بھی محسوس کر رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان روس کا دورہ کر کے امریکہ کو اور یورپی ممالک کو ناراض کر چکے ہیں کیوں کہ روس پہلے ہی یوکرین پر چڑھائی کر کے مغربی اتحاد کی ناک میں دم کیے ہوئے ہے۔ عمران خان اور ان کے اہم سابق وزرا کا دعویٰ ہے کہ اس دورے کے دوران ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کو سستے داموں گندم اور تیل ملنے والا تھا جس سے لمبے عرصے سے جاری مہنگائی بحران ختم ہو سکتا تھا مگر اس سے قبل ہی اتحادی جماعتوں اور میر جعفر و صادق نے امریکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے سازش کی اور امپورٹڈ حکومت کو عوام پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف بھارت کا روس سے تیل خرید کر اپنے لوگوں کو ریلیف دینا اور پاکستان میں بڑھنے والی مزید مہنگائی نے عمران خان کے بیانیے کو اور رونق بخش دی ہے۔ حقیقت اب یہ ہے کہ طاقتور حلقے بھی یہ محسوس کر رہے ہیں کہ سیاستدانوں میں سے اب عمران خان ہی ایسا شخص ہے جو ان کو ٹکر دے سکتا ہے۔

کیا امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے مفادات کے لئے ہی استعمال کیا ہے؟

اگر عمران خان کی سازش والی بات کو ایک طرف رکھ کے سوچا جائے تو یہ بات اب ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی تسلیم کرتی ہے کہ امریکی کیمپ کا حصہ بننا پاکستان کی تاریخ کا سب سے غلط فیصلہ تھا مگر مجبوری بھی تھی۔ لیکن لمبے عرصے تک انحصار اور انفرادی طور پر چند لوگوں نے اپنے مفاد کے لئے ملک و قوم کے مفادات کا سودا کیا جس وجہ سے ہم اس صورت حال کو پہنچے ہیں اور حالت بھی یہ کہ پھنسے اس قدر ہیں کہ چھوٹنے کی کوئی راہ نظر آئے بھی تو گھبرا کے اپنی جگہ رک جاتے ہیں۔ تاہم جس طرح بین الاقوامی اور ایشیاء کی سیاست پلٹ رہی ہے، اس حساب سے ہماری اسٹیبلشمنٹ اور ادارے اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اپنی معاشی و دفاعی استحکام کے لئے اب امریکہ پر مزید انحصار نہیں کر سکتا۔ پاکستان کو اب دبے پاؤں امریکہ کے چنگل سے نکلنا ہے لیکن آنکھیں نہیں دکھانی کیوں کہ اسے قومی مفاد کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف چین اور روس کے ساتھ اتحاد ہی درپیش مسائل کے حل میں بہترین رستہ ہے مگر ساتھ ہی ساتھ غیر جانبداری کا تاثر برقرار رکھنا اہم ہو گا۔

یہ بات تو واضح ہے کہ مہنگائی بہت جلد ختم نہیں گی کیونکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہونے اور روپے کی قدر میں استحکام آنے میں ابھی وقت لگے گا لیکن اگر پاکستان نے قومی مفاد میں بہترین فیصلے نہ کیے تو ہمارا حال جلد ہی سری لنکا جیسا ہو سکتا ہے۔ اللہ ہمارے ملک کو محفوظ فرمائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments