یوم تکبیر سے متصل 29 مئی


بھائی یاسر پیرزادہ کا ظرف بڑا اور علم وسیع ہے۔ زندگی نے انہیں مشاہدات کی سیربین عطا کی تھی، انہوں نے ذاتی ریاضت سے اسے مقامات تدبر اور افادات عصر کی سطر مستحکم بخش دی۔ انہیں زیب دیتا ہے کہ قلم اٹھائیں اور کل دو کروڑ بیس لاکھ آبادی کے سری لنکا سے اپنے ملک کا موازنہ انیس و دبیر لکھ دیں۔ جی میں لہر اٹھے تو ہم ایسے مرغان قفس کو یورپ کی سیر کرائیں، خوبان مغرب کی ایسی تصویر کشی کریں کہ ایک بیضہ مور کو آسمان سمجھنے والے ستم زدگان اپنی حیات رائیگاں کا نوحہ پڑھتے صحراو¿ں کو نکل جائیں۔ رگوں میں دوڑتا کشمیری لہو جوش میں آئے تو اہل امریکا کے گن کلچر کا ایسا آتش گیر محاکمہ کریں کہ حکومت پاکستان گھبرا کر اس وفد کو واپس بلا لے جو آئی ایم ایف کی چوکھٹ پکڑے بیٹھا ہے۔ درویش کو انفس و آفاق پہ ایسی قدرت ودیعت نہیں ہوئی۔ اپنی ہی مٹی کی کہانی لکھ سکتا ہے اور کہانی بھی کیا ہے، اک طلسم زندانی ہے جس میں کلید رہائی کی جستجو کرتے بے بال و پری کی خبر تک نہ رہی۔ حیف کہ پرائے تیر و تفنگ سے آراستہ بالشتیوں سے دست پنجہ کرتے شام کا پچھلا پہر آن لگا۔
گزشتہ روز قوم نے یوم تکبیر منایا۔ 28 مئی 1998 کو ہمارے ملک نے حریف کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ 1974 سے 1998 تک کوئی 24 برس ہم پرامن مقاصد کے لئے ایٹمی پروگرام کے نقیب تھے۔ 28 مئی 1998 کی سہ پہر ہمارے مقاصد بدل گئے. صرف دو نکات کی طرف اشارہ چاہوں گا۔ 1998 میں بھارت کے جی ڈی پی کا حجم 428.77 ارب ڈالر تھا جو 2022 میں3534.74 ارب ڈالر کو پہنچ گیا۔ 1998 میں پاکستان کے جی ڈی پی کا حجم 62.19 ارب ڈالر تھا جو دسمبر 2021 میں 280 ارب ڈالر تھا۔ ستمبر 1998 میں بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 29 ارب ڈالر تھے۔ 20 مئی 2022 کو بھارت کے زرمبادلہ کا تخمینہ 4230 ارب ڈالر تھا۔ 28 مئی 1998 کو پاکستان کے سٹیٹ بینک میں صرف ایک ارب 26 کروڑ ڈالر تھے جو نومبر آتے آتے کم ہو کر محض 400 ملین ڈالر رہ گئے تھے۔ مئی 2022 میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر بتائے گئے ہیں۔ قضا و قدر کے کان بہرے، کہنا صرف یہ ہے کہ کسی ملک میں سیاسی استحکام، دفاعی صلاحیت اور معاشی طاقت میں توازن ہی قومی ترقی کی ضمانت دیتا ہے۔ سوویت یونین کی مثال اگر بہت پرانی لگے تو روس اور یوکرائن میں لڑائی کی موجودہ صورت حال پر ایک نظر ڈال لیجئے۔ یوم تکبیر پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں بیان بازی کے مقابلے سے صرف نظر فرمائیے۔ امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر…. مجید نظامی تو اب دنیا میں نہیں رہے، کچھ قصے مجیب الرحمن شامی صاحب اور نذیر ناجی صاحب سے سن لیجئے گا۔ کلنٹن کے معاون خصوصی بروس ریڈل نے بھی کچھ لکھ رکھا ہے۔ خود بل کلنٹن کا ردعمل تو وڈیو کی صورت میں محفوظ ہے۔
24 برس پہلے جب قوم سڑکوں پر قتل گل کا جشن منا رہی تھی تو انتظار حسین ’مور نامہ‘ لکھ رہے تھے۔ اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں جذبہ و جنون کے کچھ پتلوں نے ڈاکٹر اقبال احمد اور ان کے رفقا کی پریس کانفرنس درہم برہم کر دی تھی۔ ضمیر نیازی نے ’زمین کا نوحہ‘ اور ڈاکٹر آئی ایچ نیئر نے ’طاقت کا سراب‘ کے عنوان سے دو کتابیں مرتب کی تھیں۔ عقل اور عشق کی اس منجدھار میں کسی کو یاد ہی نہ رہا کہ ٹھیک دس برس پہلے 29 مئی 1988 کو بھی دیس کی تاریخ کا ایک تاریک باب کھلا تھا۔ ضیا الحق گیارہ برس سے افغان جہاد کے محفوظ بجرے میں فروکش ہو کر اپنا سکہ چلا رہے تھے۔ تاریخ کا دھارا خاموشی سے مگر ناگزیر طور پر آگے بڑھتا ہے۔ آمریت کا المیہ یہی ہے کہ تاریخ کی پیش رفت سے غافل ہوتی ہے اور اپنی ناگزیر تحدیدات کا ادراک نہیں رکھتی۔ 1987ء کے اواخر تک سوویت قیادت نے افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کر لیا تھا۔ امریکا کا ہدف حاصل ہو چکا تھا۔ تاہم ضیاالحق اپنے عزائم کے اسیر تھے۔ انہیں (Asymmetrical Warfare) یعنی غیر متناسب جنگ کی صورت میں نئے امکانات کی ایک دنیا نظر آ رہی تھی۔ چنانچہ انہوں نے جنیوا معاہدے کی اس حد تک مزاحمت کی کہ کابینہ کے ایک اجلاس میں خارجہ امور کے وزیر مملکت زین نورانی کو ناقابل اشاعت گالیوں سے نوازا۔ اس کے باوجود 14 اپریل 1988 کو جنیوا معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ اب ضیاالحق کو امریکی اسلحے کی آخری کھیپ کا انتظار تھا جس کے بعد انہیں محمد خان جونیجو پر 58 (2) ب کی تلوار چلا کر ایک نیا ورق پلٹنا تھا۔ اس دوران اوجڑی کیمپ کے دھماکے ہوئے ، چوہڑپال کا واقعہ ہوا۔ یہ سب تو ایک بڑے کھیل کے ذیلی مناظر تھے۔ 29 مئی کی سہ پہر محمد خان جونیجو چین کے دورے سے واپس پہنچے تو ضیاالحق نے نااہلی اور بدعنوانی کے الزامات لگا کر ان کی حکومت معزول کر دی۔ تاریخ کی تعزیریں سخت ہیں۔ ایوب خان اپنا بنایا ہوا آئین منسوخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ یحییٰ خاں کے بنائے ہوئے آئین کو دن کی روشنی دیکھنا نصیب نہیں ہوئی۔ ضیاالحق اپنے تشکیل کردہ بندوبست کے ملبے تلے دب گئے۔ 6 اکتوبر 2007 کو پرویز مشرف دوسری مرتبہ صدارت کا انتخاب جیت رہے تھے تو انہیں کیا خبر تھی کہ آتش گل ان کے تعاقب میں ہے اور اگست 2008 میں چند ماہ باقی ہیں۔ 28 مئی کو یوم تکبیر کی رسم ادا کرنے والوں کو 29 مئی 1988 کا سبق بھی یاد رکھنا چاہیے۔ آئیے محمد انور خالد کو یاد کریں:
اب ان سے کوئی پوچھے
کشتیاں کیسی سواری ہیں
سمندر کے برس دن کی مسافت کا ہے
دریا کتنا زیادہ کینہ پرور ہے
اب ان سے کوئی پوچھے
کیا مہم جو لوگ سارے ایسے ہوتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments