علی زاہد: معروف جدید اور روشن خیال شاعر


علی زاہد کا سندھی زبان کے مشہور جدید، ترقی پسند روشن خیال اور منفرد شعرا میں شمار ہوتا ہے۔ اس نے سندھی زبان میں باکمال شاعری کی ہے۔ سندھی زبان کے علاوہ اس نے جو اردو میں شاعری کی ہے وہ بھی منفرد اسلوب اور منفرد انداز بیان کی خصوصیت سے سرشار ہے۔ اس لیے اس کو ہمعصر شعراء میں منفرد شاعر کا مقام حاصل ہے۔ دوسرے سندھی زبان کے شعراء جنہوں نے اردو میں شاعری کی ہے ان کی رش میں بھی یہ الگ نظر آتا ہے۔ اس کی شاعری میں تخیل کے گلدستے میں سجے ہر خیال کے پھول کی خوشبؤ جدا گانہ اور اس کی اپنی ہے۔ اس کے شعر میں پیشکش کی ندرت، سوچ میں جدت اور انداز بیان میں اپنے الگ رنگ ہیں۔ ان عناصر کی وجہ سے ہی اس نے منفرد مقام پایا ہے۔ اس نے جس بھی صنف میں شعر لکھا ہے اس سے خوب نبھایا ہے۔

بظاہر اپنی طبع میں سراپا خاموشی اور کم گو علی زاہد اندر میں حساسیت کا موجزن ساگر محسوس ہوتا ہے۔ مزاج اور گفتگو میں سراپا دھیرج اور خلوص کی مٹھاس کے پیکر علی زاہد اپنی شاعری کے ذریعے احساسات اور خیالات میں تحرک پیدا کرنے کی شاعرانہ صلاحیت رکھنے والا شاعر ہے۔ علی زاہد اپنے شعر میں موضوع کے حوالے سے جذبات میں جنبش اور گہرائی پیدا کرنے والے اپنی نوع کا یگانہ شاعر ہے۔ اس لیے یہ اپنے وقت کے شعراء میں الگ مقام اور پہچان رکھتا ہے۔ علی زاہد کی شاعری عشق اور محبت کے روگ، دوری کے درد اور سماج کے مسائل کی عکاس ہے۔ نئے انداز اور اسلوب میں اضطرابی کیفیات کا اظہار کرتا ہے۔ چشم غزال، حسن کے خراج، عشق کے مزاج، بے چین ندی اور مہینوال مضطرب کا شعر میں اس طرح استعمال کا ہنر اور انداز علی زاہد کا ہی منفرد انداز ہے۔

علی زاہد کی شاعری میں نئے استعارے اور تشبیہات کے استعمال کی خوبی اس کی اعلی تخلیقی اور شاعرانہ صلاحیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ علی زاہد کی شاعری روانی، موزویت، نغمگی، موسیقیت اور فنی پہلو کی خوبی سے بھی سرشار ہے۔ علی زاہد کے نثری نظم، نظم، غزل اور دوہے کی اصناف میں تخیل کی مقناطیسی کشش اور فنی لوازمات کے لحاظ سے بڑی پختگی موجود ہے۔

علی زاہد جس معاشرے میں سانس لے رہا ہے اس کی خامیوں اور خوبیوں سے بے خبر نہیں۔ یہ انسان دوست شاعر انسان کی عظمت کا قائل نظر آتا ہے۔ بڑے احسن طریقے سے انسان کی عظمت کو اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ اس نے اپنے اندر کے احساسات کے ساتھ معروضی اور سماجی حالات کو سخنوری اور اظہار کا موضوع بنایا ہے۔ اس کی ترقی پسند سوچ اور روشن خیالی اس کے اشعار میں بخوبی پڑھی اور محسوس کی جا سکتی ہے۔ علی زاہد بلاشبہ بہترین اور باکمال روشن خیال، ترقی پسند اور جدید شاعر ہے۔ اس کی شاعری وقت رواں کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بھی انسانی احساسات اور سماجی حالات کی ترجمانی کرتی رہے گی۔

تری جنت، جہنم سے مجھے انجان رہنے دے۔
میں جب تک اس جہاں میں ہوں، مجھے انسان رہنے دے
مرے جیون کا سرمایہ مری ہستی و خود داری
میں بھوکا ہی بھلا مجھ پر کوئی احسان رہنے دے
حسن کا گو خراج اپنا ہے
عشق کا بھی مزاج اپنا ہے
سب کی اپنی ہی ہے مسیحائی
درد کا بھی علاج اپنا ہے۔
پت جھڑ کا ہو یا دوش ہواؤں کے زور کا
پتہ بہار میں بھی جھڑا ہے سکون سے۔
بیچین ندی اور مہینوال مضطرب،
لہروں پہ سوہنی اور گھڑا ہے سکون سے۔
گر دھوپ زندگی کی جھلسا رہی ہو تجھ کو،
مجھ میں پناہ لینا، میں سائباں کھڑا ہوں۔
دشت جفا میں زاہد کیا آب جو ملے گی؟
چشم غزال بن کر کیوں بے کراں کھڑا ہوں؟
کچھ پیاس بجھ سکے گی، باقی سراب ہو گا
اس عشق کے سفر میں بس اضطراب ہو گا
نہ خم رہے گا کوئی، نہ دم بچے گا باقی
سود و زیاں کو لے کر پورا حساب ہو گا
کچھ اس طرح رہے گا درد فراق مجھ میں
رگ رگ میں رقص ہو گا، من یہ رباب ہو گا
یوں ہی نہیں ہوں غلطاں اس ہجر میں اے زاہد!
غم سے نجات پانا اور اک عذاب ہو گا۔
نماز عشق کے غافل، قضا کی بات کرتے ہیں!
جفا کے خول کے قیدی، وفا کی بات کرتے ہیں!
دکھ سکھ دونوں پاٹھ ندی کے، جیون ندیہ دھار،
جھرنا بن کر گرے افق سے، انت ہے ساگر کھار۔
عشق آیا تو دہرے پن سے، ہو گئی ہے پہچان،
اندر میرا اونگھ رہا ہے، ہونٹوں پر مسکان۔
پگلے چاند کی پگلی باتیں، دن کے گیت سنائے،
رات پڑی چپ چپ سی گم سم، اس کو دیکھے جائے۔
پریتم بن کچھ اور نہ دیکھوں، وہی دکھے دن رین،
منظر کے رومال میں ٹانکے، اپنے دونو نین۔
جسم ڈھکا پر روح کی الفی، کی ادھڑی ہے سیون،
نہ سوئی سوجھے نہ درزی، سیے گا اس کو کون!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments