کیا آپ ’اچھی بیوی‘ چاہتے ہیں؟


کہتے ہیں کہ آج کل کے مرد موٹیویشنل سپیکرز حمل کے علاوہ تمام تجربات سے گزرے ہیں۔ جب کہ ان کی مد مقابل خواتین باپ بننے کے علاوہ تقریباً سب کچھ ہی کر چکی ہوتی ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی تقاریر میں روز نیا تجربہ بیان کرتے ہیں۔

پچھلے کچھ روز سے ایک معروف موٹیویشنل سپیکر کی جانب سے ’اچھی بیوی‘ بننے کی تربیت دینے والے سیشن کے اشتہار سامنے آئے۔ ان اشتہارات کو دیکھ کر بھائی لوگ فورا ہی غصے میں آ گئے اور برا بھلا کہنے لگ گئے۔

تفنن برطرف، کسی موٹیویشنل سپیکر کے سماجی نظریات سے آپ کو اتفاق ہو یا نہ ہو، اس کی شخصیت آپ کو اچھی لگے یا بری، کچھ بنیادی نکات سے آپ اختلاف نہیں کر سکتے۔

1۔ پہلا نکتہ ہے الفاظ اور جملوں کی طاقت۔ الفاظ اور جملے آپ کو تکلیف بھی دے سکتے ہیں، آپ کا جینا حرام بھی کر سکتے ہیں، ڈپریشن کا مریض بھی بنا سکتے اور دوسری جانب آپ کو جینے کی امید بھی دلا سکتے ہیں، تسلی و تشفی اور کچھ کر گزرنے کی امنگ بھی دلا سکتے ہیں۔ خود کش بمبار الفاظ کے ذریعے ہی پیدا کیے جاتے ہیں جبکہ ماہرین نفسیات بھی بھی الفاظ ہی استعمال کرتے ہیں، روحانی معالج بھی الفاظ پہ مبنی کلمات استعمال کرتے ہیں اور ڈاکٹرز سے بھی عوام کو یہی گلے کرتے رہتے ہیں کہ وہ مریضوں سے فیس تو لے لیتے ہیں مگر ان کو آرام سے تسلی کے الفاظ نہیں دیتے بس کاغذ پہ دوائیوں کے نام لکھ دیتے ہیں۔

2۔ دوسرا نکتہ ہے سماج کی تربیت کی ضرورت۔ کیا ایک فرد کو یہ تربیت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ گھر کے اندر اپنے زوج کے ساتھ کیسے معاملات کرے؟

سماج کی اساس جس اکائی پہ تشکیل پاتی ہے وہ اکائی ایک گھرانا یا شادی کا ادارہ ہوتا ہے۔ اس ادارے میں ایک جانب شوہر ہے اور پیچھے اس کا خاندان۔ دوسری جانب بیوی ہے اور اس کے پیچھے اس کا خاندان۔

اب سوال اصل یہ ہے کہ ’اچھی بیوی‘ کی تعریف کیا ہے۔ ؟

عموماً لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اچھی بیوی وہ ہوتی ہے جو شوہر اور سسرال کی خدمت گزار ہو، خوش اخلاق ہو اور خاموش طبع ہو۔

فرض کیا کہ ’اچھی بیوی‘ ایک روبوٹ ہو وہ خدمت کرے مگر شکایت کا لفظ ہونٹوں پہ نہ لائے اور مسکرا کر بات کرے۔ تو کیا زندگی خوش و خرم ہو جائے گی؟

میں آپ کو ایک خاتون کا بتانا چاہتا ہوں وہ ہماری ایک جاننے والی ہیں۔ اور گریڈ اٹھارہ کی سرکاری ملازمت کرتی ہیں۔ وہ گھر کے سارے کام بھی سنبھالتی ہیں اور ساس سسر کے سامنے بولتی بھی نہیں۔ جواب میں ساس کام والی کو بھی ان کی مدد نہیں کرنے دیتیں۔ اور وقتاً فوقتاً بیٹے کو انہونی کہانیاں بھی سناتی ہیں۔ مثلاً بہو گھر میں آتی ہیں۔ بآواز بلند السلام علیکم کہتی ہیں۔ ساس جواب نہیں دیتیں۔ بعد میں بیٹے سے کہتی ہیں کہ اس نے مجھے سلام بھی نہیں کیا۔ اگر کوئی کہے کہ سلام کیا تھا تو جواب دیتی ہیں کہ انہوں نے سنا نہیں۔

اسی طرح ہماری ایک اور جاننے والی خاتون ہیں وہ بھی سرکاری ملازمت کرتی ہیں۔ ان میں بھی مندرجہ بالا تینوں صفات موجود ہیں مگر پھر بھی ان کی ساس نے انہیں شوہر سمیت گھر سے نکال دیا تھا۔

ان دونوں واقعات کی شکار خواتین کو خدمت گزاری، اور خوش اخلاقی کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکا۔

میرے کہنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ خوش اخلاقی بے فائدہ ہے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ انسانوں کے ساتھ تعلقات صرف قربانی کی بنیاد پہ بنائے نہیں جا سکتے۔ مولا علی کا فرمان ہے کہ جس پہ احسان کرو اس کے شر سے بچو۔

جس طرح مختلف بیماریوں کی بعض دفعہ مشترک وجوہات ہو سکتی ہیں جب کہ بعض دفعہ مختلف افراد میں ایک ہی بیماری کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔

ایک مثال دیکھیے۔ میرے تین دوست سردرد کے عارضے کا شکار ہیں۔ ایک دوست کی تکلیف کو خراب معدہ ٹرگر کرتا ہے جبکہ دوسرے کو بلند فشار خون ٹرگر کرتا ہے۔ تیسرے دوست مسلسل خاموش رہیں، اور جذبات کا اظہار نہ کر سکیں تو سردرد کی شکایت کرتے ہیں۔ اس طرح تین مختلف اشخاص میں ایک ہی بیماری کے علاج مختلف ہوں گے۔

اس طرح اگر چہ خوش اخلاقی اور گھرانے کا خیال رکھنے کی خصوصیات نہایت اہم ہیں مگر یہ خصوصیات لازمی طور پہ ہماری ’اچھی بیوی‘ کے سسرال کو خوش کرنے کو کافی نہیں۔ اور یوں وہ خود بھی خوش نہیں رہ سکتی۔ کیوں کہ وہ بھی ایک انسان ہے روبوٹ نہیں۔

تو پھر سوال یہ ہے ’اچھی بیوی‘ کیسے تخلیق کی جائے۔ ؟

جواب یہ ہے کہ بیوی بعد میں وجود میں آتی ہے جبکہ شوہر اور سسرال پہلے وجود میں آتا ہے۔ کچھ مخصوص کیسز کو نظر انداز کر دیا جائے تو عموماً سسرال طاقتور پوزیشن رکھتا ہے اور اچھی بیوی کا تصور وہ خود ہی تشکیل دیتا ہے۔ اور پھر بہو کو اس تصور پہ پرکھتا رہتا ہے۔ اور یوں ’اچھی بیوی‘ وجود میں نہیں آ سکتی۔

درست ترتیب یہ ہے کہ پہلے اچھے سسرال کا تصور اجاگر کیا جائے۔ اس کے بعد اچھے شوہر کا تصور ہو اور ان دونوں تصورات پہ متعلقہ فریق کی تربیت کی جائے۔ تا کہ وہ جان سکیں کہ وہ خود کیسے لوگ ہیں۔ اور انہیں کیسی بہو چاہیے۔ پھر اس بہو میں اگر کوئی انسانی کمزوریاں ہیں تو ان کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کیسے ہو گی۔ یا یہ کہ یہ ایڈجسٹمنٹ ممکن بھی ہے یا نہیں۔

اس کے بعد یقیناً ایک لڑکی کو سسرال میں ایڈجسٹ ہونے کی تربیت دی جائے۔

دوسرا حل یہ ہے کہ معاشرے میں فیملی کاونسلنگ کا رجحان پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ محض ایک لڑکی کو اچھی بیوی بنانے کی کوشش کوئی رنگ نہیں لا سکتی۔ یاد رکھیئے کہ طاقت کا توازن بہت سے مسائل کو خود بخود ختم کر دیتا ہے۔

ورنہ آپ بے شک لیکچر دیتے رہیں۔ ہر جگہ آپ کو یہی دیکھنے کو ملے گا کہ لوگ اپنی بیٹی کے لیے تو آزادی، سہولیات اور خود مختاری کا ماحول مانگتے ہیں مگر اپنی بہو کے لیے معیار یکسر مختلف ہوتا ہے۔ تو اس طرح ’اچھی بیوی‘ کیسے تخلیق ہو سکتی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments