خواجہ سرا: تیسری جنس یا کسی بیماری کا شکار ہیں؟


میں ویل چیئر پر بیٹھا ایک معمولی سا معذور شخص ہوں۔ انسانی مسائل پر لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم رنگ، نسل، مذہب اور جنس سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کو قبول کر لیں گے تو ہمارے ملک کے بیشتر مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

معذور افراد کے مسائل پر شاید سب سے زیادہ میں نے لکھا ہے اور میری تحریریں آگہی کا سب سے بڑا ذریعہ بنیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ معذور افراد کے مسائل پر لکھنے کے حوالے سے میری کبھی کسی نے تعریف نہیں کی نہ ہی کبھی کوئی ایوارڈ ملا۔

اس کے برعکس خواجہ سراؤں کے حقوق پر لکھتا ہوں تو لوگ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ جیسے میں کوئی غلط کام کر رہا ہوں۔ میری حیرت میں اس وقت مزید اضافہ ہوتا ہے جب تنقید کرنے والوں میں اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور انٹرنیشنل این۔ جی۔ اوز کے لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں جنھیں انسانی حقوق کا علمبردار تصور کیا جاتا ہے۔

بعض اوقات ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں کوئی جھوٹا الزام ہی نہ سر تھوپ دے۔ بہرحال مجھے روکا گیا تو کوئی اور لکھنا شروع کر دے گا۔

ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کو چھکا، ہیجڑا، زنخہ، مامو، کسری، شاپر، کیک، فروٹ، میٹھا، ٹھنڈا وغیرہ جیسے سطحی ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ والدین انھیں اولاد تسلیم نہیں کرتے، معاشرہ انسان تسلیم نہیں کرتا، پڑھنا چاہتے ہیں تو پڑھنے نہیں دیا جاتا، کام کرنا چاہتے ہیں تو نوکری نہیں دی جاتی۔

خواجہ سراؤں کو تحفظ دینے کے لئے کوئی قانون پاس ہوتا ہے تو اوریا مقبول صاحب جیسے دانشور اس کے خلاف عدالت میں چلے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعت خواجہ سراؤں کے حقوق پر سیاست کرنا شروع کر دیتی ہے۔ آپ کو جماعت اسلامی کے علماء کی یوٹیوب پر ایسی ویڈیوز بھی ملیں گی جس میں وہ چسکے لیتے ہوئے دین کا استعمال کرتے ہوئے خواجہ سراؤں کو پھنسانے کی کوشش کریں گے۔

سوال یہ ہے کہ خواجہ سراء کوئی خلائی مخلوق ہیں، تیسری جنس ہیں یا خواجہ سراء پیدا ہونا کسی بیماری کا نام ہے؟

اس سوال کا جواب 942 ء میں امریکہ کے مشہور محقق ہیری کلنفیلٹر  نے دیا۔ جس کے مطابق بچے کا تیسری جنس میں پیدا ہونا اندھے، گونگے بہرے پن کی طرح ایک جینیاتی بیماری ہے۔ پیدائش کے وقت بچے کو والدین کی طرف سے کروموسوم کی اضافی مقدار ملنے کی وجہ سے اس کی جنس کا تعین نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے یہ جنسی ابنارمیلٹی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس بیماری کو ہیری کے نام سے ”کلنفیلٹر سنڈروم“ منسوب کر دیا گیا ہے۔ جو کہ قابل علاج ہے۔

کروموسوم انسان کے خلیات میں پائے جانے والے میکرو مالیکیول کو کہا جاتا ہے۔ جو کہ ڈی۔ این۔ اے اور لحمیات سے مل کر بنے ہوتے ہیں۔ نسل انسانی کی افزائش اور ارتقاء میں کروموسوم کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک نسل سے دوسری نسل تک انسانی خصوصیات کی منتقلی کا کام ان کروموسوم کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ دھاگے نما ان کروموسوم پر مختلف پیغامات درج ہوتے ہیں۔ جن کا تعلق انسان کے رنگ، نسل، سوچ، رہن سہن وغیرہ کے طور طریقوں سے ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ بہت سے حوالوں سے ماحول سے مطابقت رکھتا ہے۔ والدین کی طرف سے متعدد ظاہری اور باطنی خوبیاں اسے وراثت میں ملتی ہیں۔ ظاہری خوبیوں میں آنکھوں کا رنگ، چہرے کی بناوٹ اور چال ڈھال وغیرہ جیسے عنصر، جبکہ باطنی خوبیوں میں پسند نہ پسند، بول چال کے طریقے اور ذہنی ہم آہنگی وغیرہ جیسی چیزیں والدین سے مطابقت رکھتی ہیں۔

ہر انسان میں کروموسوم کے تئیس جوڑے پائے جاتے ہیں۔ کروموسوم کا ہر جوڑا دو کروموٹین سے مل کر بنا ہوتا ہے۔ یعنی مجموعی طور پر ہر انسان میں چھیالیس کروموٹین پائے جاتے ہیں۔ کروموٹین کی شکل انگریزی کے حرف ایکس اور وائی سے ملتی جلتی دکھتی ہے۔ خواتین کے کروموٹین کے جوڑے ایکس اور ایکس شکل کے دکھائی دیتے ہیں جبکہ مردوں کے ہر کروموسوم میں ایک ایکس اور ایک وائی کروموٹین پایا جاتا ہے۔ مطلب مرد کے کروموسوم میں تئیس ایکس اور تئیس وائی کروموسوم پائے جاتے ہیں۔ نومولود بچے میں بھی کروموسوم کے تئیس جوڑے پائے جاتے ہیں۔ جن میں سے بائیس جوڑے اس کے رنگ، نسل، زبان وغیرہ کا تعین کرتے ہیں جبکہ تئیسویں جوڑے نے جنس کا تعین کرنا ہوتا ہے۔

پیدا ہونے والے ہر بچے کو ماں کی طرف سے ایکس۔ ایکس کروموسوم ہی ملتے ہیں۔ جنس کا تعین باپ کے جنسی کروموسوم نے کرنا ہوتا ہے۔ باپ کا ایکس کروموسوم متحرک ہو گا تو پیدا ہونے والی بچہ یقینی طور پر بیٹی ہوگی اور اگر جنسی تعین کے دوران باپ کا وائی کروموسوم زیادہ حاوی ہوا تو پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہی ہو گا۔

ایک تحقیق کے مطابق ہر پانچ سو افراد میں سے کسی ایک میں ایک کروموٹین زیادہ ہوتا ہے۔ مطلب کروموسوم کے تئیس جوڑوں کے علاوہ ایک اضافی کروموٹین۔ جنس کے تعین کے دوران اگر یہ اضافی کروموٹین بھی تعین کا حصہ بن جائے تو پیدا ہونے والے بچے کے جنسی کروموسوم ایکس۔ ایکس یا ایکس۔ وائی کے ساتھ اضافی ایکس یا وائی ہو گا۔ جس کی وجہ سے جنسی بگاڑ پیدا ہو گا اور دنیا میں آنے والا نیا مہمان نہ تو مکمل لڑکا ہو گا نہ ہی لڑکی۔ اس جنسی بیماری کو ”کلنفیلٹر سنڈروم ’ کا نام دیا گیا۔ جو کافی حد تک قابل علاج مرض ہے۔

خواجہ سراء مجھے اپنا محسن سمجھے ہیں اس لیے تشدد اور ہراسانی کے واقعات کی تصاویر اور ویڈیوز مجھے بھیجتے رہتے ہیں۔ پچھلے دس دنوں کے دوران مانسہرہ میں نادرہ خان نامی خواجہ سراء ایکٹوسٹ کی شاگرد کو گولی کا نشانہ بنایا گیا، حیدر آباد کی ایکٹوسٹ ثناء خان کی دوست کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ میں عثمان عرف زویا نامی خواجہ سراء کو گھر والوں نے تشدد کر کے قتل کر دیا۔ فیصل آباد کی کچھ پڑھی لکھی خواجہ سراء تفریح کی غرض سے ناران، کاغان گئیں ہوٹل والوں نے ان سے زائد کرائے وصول کیے۔ مختلف مقامات پر لڑکے آوازیں کستے رہے۔

اوپر بیان کیے گئے تمام واقعات میڈیا پر چل چکے ہیں۔ ان سب کے علاوہ دس دنوں میں کتنے ہی خواجہ سراؤں کے ساتھ ہراسانی، ذہنی اور جسمانی تشدد کے واقعات ہوئے ہوں گے ان کا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کیونکہ خواجہ سراء کمیونٹی ان سب چیزوں کی عادی ہو چکی ہے اس لیے بیشتر واقعات پر خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ خواجہ سراء بچے کی پیدائش کے حوالے سے ڈاکٹر کا ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جو تحقیق کر کے بتائے کہ ایک بچہ خواجہ سرا کیوں پیدا ہوتا ہے۔ خواجہ سرا تیسری جنس ہے یا کسی جنسی بیماری کا شکار ہے۔ پھر اس تحقیق کو علماء حضرات اور سول سوسائٹی کے سامنے رکھا جائے اور قوم کو رہنمائی فراہم کی جائے۔ جب تک خواجہ سراؤں کے مسائل کے حوالے سے آگہی عام نہیں ہوگی اس وقت تک یہ اسی طرح تشدد کا شکار ہوتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments