کیا آپ ڈاکٹر خالد سہیل کے گرین زون طریقہِ علاج سے واقف ہیں؟


اپنے آپ کو ہر وقت پر سکون و پر مسرت رکھنے کی ضرورت انسانوں کو جتنی آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ آج کی پر شور، تیز رفتار اور مشینی زندگی میں قدم قدم پر انسانوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو ان کے جذبات بر انگیختہ کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ سیاسی کشمکش، معاشی مسائل اور لوگوں کے نامعقول روئیے ایسے ماحول میں غصے پر قابو اور مزاج دھیما رکھنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ انسانوں کو پر سکون رکھنے کے لیے ایک نیا نفسیاتی طریقہ علاج وجود میں آیا ہے۔ جو یہاں شمالی امریکہ میں افراد اور معاشروں میں بہت مقبول ہو رہا ہے۔ گرین زون تھراپی ”اپنی مدد آپ“ کے تصور پر قائم ایک ایسا پروگرام ہے جس میں آپ کو کسی معالج کے پاس جانے اور بھاری فیس بھرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس تھراپی کے پس منظر میں ایک فلسفہ ہے جس کو کینیڈا کے نامور نفسیات دان ڈاکٹر خالد سہیل نے دریافت کیا ہے۔ میں نے ای۔ میل کے ذریعے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کر کے اس نئی دریافت کے بارے مزید جاننے کی کوشش کی۔ تو انھوں نہایت سادہ زبان میں اس تھراپی کے کچھ بنیادی نکات سے مجھے سے آگاہ کیا۔ میں ’ہم سب‘ فورم کے توسط سے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کیا گیا مکالمہ یہاں پر شیئر کرنا چاہتا ہوں۔

نعیم اشرف : ڈاکٹر صاحب! ہم دیکھتے ہیں کہ شمالی امریکہ میں بہت سے لوگ گرین زون تھراپی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اور میرے علم میں آیا ہے کہ آپ نے ایک گرین زون کمیونٹی بھی بنا رکھی ہے۔ جس کے تحت نفسیاتی معالجے کے سیشن ہوتے ہیں اور گروپ تھراپی بھی ہوتی ہے۔ آپ مجھے گرین زون فلسفے کا بنیادی تصور اور اس پر عمل درآمد کا طریقہ مختصراً بتائیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل : سبز، زرد اور سرخ جذبات کے تین تصوراتی حلقے یا زون ہیں۔ بنیادی تصور یہ ہے کہ ٹریفک کے اشاروں کی طرح ہر انسان ہر وقت ان میں سے کسی ایک زون میں ہوتا ہے۔ جب ہم پرسکون، خوش اور زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں تو اپنے گرین زون میں ہوتے ہیں۔ جب ہم تھوڑے سے خفا، پریشان یا غصے میں ہوتے ہیں تو اپنے زرد زون میں ہوتے ہیں۔ مگر جب ہم بہت زیادہ غمزدہ یا غصے سے بے قابو اور نامعقول ہو جاتے ہیں تو اس وقت ہم اپنے سرخ زون میں ہوتے ہیں۔ میری رائے میں جذباتی خود آگاہی ’گرین زون جیون‘ کی طرف پہلا قدم ہے۔ یعنی اس بات پر توجہ مرکوز رکھنا کہ ہم اس وقت کس جذباتی زون میں ہیں؟ اسی سے ایک خوشگوار، صحتمند اور پرسکون زندگی کا ظہور ہوتا ہے۔ گرین زون کا تصور سادہ مگر گہرا اور اثر انگیز ہے۔

میں اپنے مریضوں کو بتاتا ہوں کہ ’گرین زون فلسفے‘ کا سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ ہم اپنے ’جذباتی حلقے‘ یا ’زون‘ میں تبدیلیوں پر نظر رکھیں۔ ہم جتنے زیادہ ان تبدیلیوں سے آگاہ ہوں گے اتنا زیادہ جذبات کو قابو میں رکھ کر زیادہ سے زیادہ دیر اپنے پرسکون ’گرین زون‘ میں گزار سکیں گے۔ ’تھری آرز‘ ۔) تصور اسی چیز کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ Recognize، Recover، Restrain (
پہلا قدم : جذباتی تبدیلیوں کی پہچان ہے یعنی یہ معلوم ہو جانا کہ میرا زون تبدیل ہو رہا ہے۔
دوسرا قدم : زرد یا سرخ زون سے باہر نکلنا۔
تیسرا قدم : دوبارہ زرد یا سرخ زون میں جانے سے اپنے آپ کو روکے رکھنا۔

لوگوں کو اپنے جذباتی محرکات ( ”ٹرگرز“ یا جذبات بر انگیختہ کرنے والی باتوں ) سے جتنی زیادہ آگاہی ہوتی جاتی ہے وہ اتنے ہی اس قابل ہوتے جاتے ہیں کہ ان سے نمٹ بھی سکیں۔ ان کو یہ بھی پتہ چلتا جاتا ہے کہ ’گرین زون‘ والے افراد عمل کرتے ہیں جبکہ ’ریڈ زون‘ والے افراد ردعمل دیتے ہیں۔

میں لوگوں کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرواتا ہوں کہ ’احساس خود توقیری‘ (سیلف اسٹیم) بھی ذہنی صحت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ احساس خود توقیری میں کمی کے شکار افراد کا کسی ذہنی عارضے میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اردگرد کے لوگوں کی تنقید اور رائے کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں۔

جتنے بھی ماہرین نفسیات اور فلاسفروں نے ’احساس خود توقیری‘ پر بحث کی ہے، امریکی نفسیات دان ’ہیری سٹیک سلیوان‘ نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ سلیوان کو ’باہمی نفسیات کے مکتبہ فکر‘ کا بابائے آدم سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اصرار تھا کہ ’احساس خود توقیری میں کمی تمام نفسیاتی عارضوں کی جڑ ہے۔ ”گڈ می“ اور ”بیڈ می“ کا تصور بھی اسی نے دیا تھا۔

اس کا کہنا تھا کہ اپنی وہ تمام خصوصیات جو ہمیں اچھی لگتی ہیں وہ ہمارے ’گڈ می‘ کا حصہ ہوتی ہیں۔ اور اپنی وہ باتیں جو ہمیں بری لگتی ہیں ہمارے ’بیڈ می‘ کا حصہ ہوتی ہیں۔ جذباتی طور پر صحت مند افراد کا ’گڈ می‘ ، ’بیڈ می‘ سے بڑا ہوتا ہے۔ اور جذباتی طور پر علیل اشخاص کا ’بیڈ می‘ ان کے ’گڈ می‘ سے بڑا ہوتا ہے۔ ہم جذباتی طور بیمار اشخاص کا ’گڈ می‘ ان کے ’بیڈ می‘ سے بڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کے اوصاف، صلاحیتیں اور قدرتی لیاقت باہر لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان میں خود اعتمادی، خود توقیری اور احساس عزت میں اضافہ ممکن ہو۔ احساس توقیری میں کمی کا شکار افراد ظاہری و باطنی محرکات کا جلد اثر لے لیتے ہیں جن سے ان کے جذبات میں نا ہمواری آنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ فوری ردعمل دینے لگتے ہیں۔

’سیلف ایسٹم‘ (احساس خود توقیری ’) کے مقابلے میں، میں نے ایک نیا تصور پیش کیا ہے جس کا نام ”ادر ایسٹیم“ ( احساس غیر توقیری) رکھا ہے۔ احساس خود توقیری وہ احساس ہے جو ہم خود پیدا کرتے ہیں۔ جبکہ احساس‘ غیر توقیری ’ہم دوسرے لوگوں سے لیتے ہیں۔ اس احساس میں مبتلا لوگ اپنے ساتھیوں، دوستوں اور خاندان والوں کی منفی باتوں، تبصروں اور رائے کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں۔ اپنے پر سکون گرین زون میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے بعد ہمیں اپنے رشتوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

میں اپنے رفقائے کار خواتین و حضرات کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے عزیز ترین رشتوں کی ایک فہرست بنائیں اور یہ بھی لکھیں کہ وہ کس زون میں جی رہے ہیں۔ ہمارے جو رشتے زرد اور سرخ زون میں ہیں ان سے بات چیت کر کے ہم ان کو گرین زون میں لا سکتے ہیں۔ ہم ان کو بتا سکتے ہیں کہ کوئی بھی قضیہ تین طریقوں سے حل ہو سکتا ہے۔

پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہم رابطہ بہتر بنا کر مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ رشتہ ہی ختم کر دیں اور ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ دیں۔ اگر دو افراد رشتہ توڑنا نہیں چاہتے تو ہم ان کو کسی تیسرے شخص کو ثالث مقرر کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ شخص کوئی دوست، رشتے دار یا نفسیاتی معالج بھی ہو سکتا ہے۔ جس کے طرفین عزت کرتے ہوں۔ یوں حل کرنے، ختم کرنے اور ثالثی جیسے طریقے استعمال کر کے ہم بہت سے رشتوں کو بچا سکتے ہیں۔ میں ایک مثال سے اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں :ایک شوہر ٹریفک میں تعطل کی وجہ سے گھر دیر پہنچتا ہے۔ اس کی بیوی ڈنر بنا کر اس کا انتظار کر رہی ہے۔ شوہر گھر میں داخل ہوتے ہی کہتا ہے :

”آئی ایم سوری، میں لیٹ ہو گیا، ٹریفک میں پھنس گیا تھا۔“ اس کی بیوی ہمدردی جتلانے کی بجائے گلے شکوے شروع کر دیتی ہے :

بیوی: ”تم ہمیشہ دیر سے آتے ہو۔“
شوہر: ”تم نے کبھی بھی ہمدردی نہیں دکھائی۔“

گرین زون فلسفے میں ’ہمیشہ‘ اور ’کبھی بھی‘ ریڈ زون الفاظ ہیں۔ اسی طرح ”چاہیے“ بھی ریڈ زون لفظ ہے۔ اس کے استعمال سے دوسرا شخص اپنے آپ کو بچہ محسوس کرتا ہے۔ جس سے مکالمہ ’دو بالغ افراد‘ کی بجائے ’والدین اور بچے‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جب کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ اس پر تنقید ہو رہی ہے تو وہ ’ریڈ زون‘ میں جا سکتا ہے۔

اپنے خاص تحفے کو تلاش کرنا گرین زون فلسفے کا بنیادی جزو ہے۔ میں اپنی کلینکل پریکٹس کے دوران بہت سے ایسے افراد سے ملتا ہوں جو اپنے خوابوں سے رابطہ توڑ چکے ہیں۔ وہ مجھے اداس لگتے ہیں اور اپنے آپ کو آزردہ محسوس کرتے ہیں۔ جب میں ان کی زندگیوں کا جائزہ لیتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی کوئی منزل نہیں، کوئی خواب نہیں، کوئی آدرش نہیں اور کوئی جنون نہیں ہے۔ وہ زندگی نہیں گزار رہے صرف جی رہے ہیں۔ میں جب ان کو اور قریب سے دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ بچپن میں ان کے خواب ضرور تھے۔

مگر وقت گزرنے کے ساتھ جب وہ بڑے ہوئے تو ذمہ داریوں میں اس قدر کھو گئے کہ ان کے خواب زندگی کے جھمیلوں میں کہیں گم ہو گئے۔ تعلیمی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ کام ڈھونڈنے لگ گئے۔ کام ملا تو پھر شادی اور بچوں کی ذمہ داریوں نے آن گھیرا۔ کام، گھر، بچے اور پھر کام۔ اس دائرے میں رہتے رہتے یکسانیت کا شکار ہو گئے، زندگی اکتاہٹ کا شکار ہو گئی۔ ان کی زندگی میں کام زیادہ اور تفریح کم ہوتی گئی۔ جب ایسے افراد مجھ سے ملنے آتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ نہ صرف ان کے خواب کھو گئے ہیں بلکہ ان کی امید بھی ختم ہو رہی ہے۔ ایسی ہی ایک خاتون نے مجھ سے کہا : ”میرا مستقبل ایک کورا کاغذ ہے۔ مجھے اس میں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔“

میں انھیں بتاتا ہوں کہ قدرت نے ہر انسان کے اندر ایک تحفہ خاص رکھا ہوا ہے۔ اس تحفے کی تلاش جدوجہد کا نصف ہے۔ جب یہ تحفہ مل جائے تو ہمیں اس کی نشوونما کرنی ہوتی ہے تاکہ یہ بھرپور صلاحیتوں کا حامل بن جائے۔ بہت سے افراد جو ہمارے کلینک میں آ کر ہمیں ملتے ہیں ان کی ’ساختہ ذات‘ ان کی ’تخلیقی ذات‘ سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے اندر بے چینی، آزردگی اور غصہ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ ”چاہیے“ کو لے کر چل رہے ہوتے ہیں۔

ہم ایسے اشخاص کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ دن میں ایک گھنٹے کے لیے کچھ ایسا کریں جس سے ان کو خوشی ملتی ہو۔ ہم اس کو ”گرین زون گھنٹہ“ کہتے ہیں۔ یہ ایک مشغلے کا آغاز ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مشغلہ ان کا خواب بن جاتا ہے پھر وہی خواب ان کا شوق اور عشق بنتا ہے۔ زندگی خوبصورت ہو جاتی ہے۔ اور ان کو جینے میں لطف آنے لگتا ہے۔ مجھے ان افراد میں سے کچھ افراد یاد آرہے ہیں جنھوں نے ہمارے کلینک کی رہنمائی سے اپنی ’تخلیقی ذات‘ کی نشوونما کی :

ایک شخص فوٹو گرافر بن گیا۔
ایک خاتون باغبان بن گئیں۔
ایک خاتون رنگین شیشہ ساز بن گئیں۔
ایک خاتون نامور موسیقار بن گئیں۔
اور بہت سے لوگ متاثر کن لکھاری بن گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments