ہوشربا مہنگائی:عوام کو ریلیف دیں!


مہنگائی 15.67 فیصد کی تاریخی حدوں کو چھو رہی ہے یہ شرح ادارہ شماریات نے حالیہ ہفتہ میں رپورٹ کی ہے نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد تاحال ملک میں ہوشربا مہنگائی کا سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے اس مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی روک نہیں لگائی گئی۔ حالیہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بڑے اضافہ نے مہنگائی کو ایک مہلک بحران میں تبدیل کر دیا ہے پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عام آدمی کی ضروریات زندگی کی اشیاء کی خریداری میں معاشی مشکلات کا ہمالیہ کھڑا کر دیا ہے کیونکہ اشیائے خورد و نوش سے لے کر ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کی قیمتوں کو پر لگ چکے ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق خدشہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے یہ اعداد و شمار کس حد تک برے یا اچھے ہیں یہ اقتدار میں بیٹھی اشرافیہ کو شاید معلوم نہیں لیکن یہ اعداد و شمار ایک عام شہری کی سمجھ میں ضرور آتے ہیں جب وہ یوٹیلٹی بل جمع کرواتا ہے یا پھر مارکیٹ میں گھی ’سبزی‘ پھل ’گوشت اور دیگر اشیاء کی خریداری کے لئے اسے اپنی جیب ہلکی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ یہ ادراک اب عام آدمی کو بھی ہے کہ مہنگائی ایک گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے آئی ایم ایف کے مشروط معاہدے کے تحت تیل کی قیمت کو کنٹرول کرنا از حد مشکل ہے اور اس صورتحال میں مہنگائی کنٹرول کرنے کے دعوؤں میں فی الحال کوئی صداقت نظر نہیں آتی اور اس حوالے سے دور دور تک حکومتی اقدامات نظر نہیں آتے۔

حکومتی بیانات اس کی بے بسی کو ظاہر کر رہے ہیں اب ڈالر اور تیل کی قیمتوں نے جو اڑان بھری ہے اس سے عوام کے اعصاب پر مزید مہنگائی کا جو عفریت نازل ہو چکا ہے اس سے یقیناً عوام حکومتی اقدامات سے مزید بد دل ہو جائیں گے۔ اس وقت ملک بد ترین معاشی بد حالی سے دوچار ہو چکا ہے ملک دیوالیہ ہونے کی بازگشت بھی سنی جا رہی ہے اللہ نہ کرے ملک عزیز کو ڈیفالٹ ہونے جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے لیکن حالات ایسے ہیں کہ خزانہ خالی ہے اور ریاستی امور چلانے کے لئے حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں۔

معاشی زبوں حالی کے سونامی نے عوام کو بے یقینی کی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے گو حکومت اپنے معاملات چلانے کے لئے ایسے اقدامات سے گریز نہیں کر رہی لیکن عام آدمی سمجھتا ہے کہ حکومت مفاد عامہ کے برعکس فیصلے کر رہی ہے۔ اور ایسے حالات میں عوام کے تحفظات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو نئی حکومت کے لئے فکر مند اشارہ ہے۔ اگر حکومت اپنی آئینی مدت پوری بھی کر لے تو شاید عوام کو صحیح معنوں میں ریلیف نہ دے پائے اس وقت مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی حکومت میں واضح نمائندگی ہے اور ان حالات کا بار نئے الیکشن میں ان دونوں بڑی جماعتوں کے کندھوں پر آئے گا۔

عدم اعتماد سے قبل کے حالات ایسے تھے کہ تحریک انصاف اکیلی ان حالات کی سزا وار تھی اگر وہ اپنی آئینی مدت پوری کرتی تو شاید وہ ان سزاوار حالات کے پیش نظر عوام میں وہ مقبولیت نہ پا سکتی جو آج پی ڈی ایم نے ان کی حکومت گرا کر تحریک انصاف کے تن مردہ میں جان ڈال دی ہے۔ جماعت اسلامی نے مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا اور ہو سکتا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر اے پی سی کا اجلاس بلانے کی نوبت آ جائے ان حالات میں اگر تحریک انصاف مہنگائی کے حوالے سے اپنا سیاسی کردار کا تعین کر لے تو جہاں اسے عوام کی ہمنوائی حاصل ہو سکے گی وہیں مستقبل میں سیاسی فائدہ بھی پہنچے گا اور حکومت کے لئے مزید مشکلات میں اضافہ ہو گا اور یہ صورتحال حکومت کے لئے کسی سوہان روح سے کم نہیں ہو گی حکومت کے لئے ملک کے اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ایک تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ضروری ہے حکومت کو چاہیے کہ مہنگائی کے مسئلہ پر اے پی سی بلائے اور تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو اس مسئلہ کے حل کے لئے مل بیٹھنے کی دعوت دے اس سے سیاسی تلخیاں کم ہوں گی اور عوام کے مسائل حل کرنے میں بھی معاونت ملے گی۔ حکومت کو ادراک کرنا چاہیے کہ ایمان دار اور پر عزم قیادت کے فقدان کے باعث قومی خزانے اور قومی وسائل کے ساتھ جس بے دردی کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا وہ اب عام آدمی کے ذہن کی در دیوار پر نقش ہے ملک میں پیدا ہونے والے نومولود کی سانسیں تک صیہونی و دجالی قوتوں کے پاس گروی رکھی ہوئی ہیں اس وقت معاشی ناؤ ڈوب رہی ہے ادارے خساروں کے بوجھ تلے دب کر آخری سانسیں لے رہے ہیں۔

کمر شکن مہنگائی‘ بے روزگاری ’دہشت گردی‘ انصاف کی عدم دستیابی ’بد عنوانی‘ کرپشن اور لاقانونیت کا اژدھا پھن پھلائے بہت کچھ نگلنے کو تیار ہے اور عوام کو پل پل ذہنی ’قلبی اور اعصابی اذیت سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے مہنگائی مزید بڑھے گی تو عوام بلبلا اٹھے گی۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک عوام تو پہلے ہی حکومتوں کی دی گئی خود ساختہ جمہوریت کے عوض حیرت کدوں میں جمہوری لوازمات کی تلاش میں سر پھٹک رہی ہے لیکن انہیں کہیں ریلیف کی جھلک تک دکھائی نہیں دے رہی اگر یہ حکومت بھی عوام کو دل پذیر نعروں کی بھینٹ چڑھائے گی تو پھر کون سا مسیحا آئے گا۔

گو حالات مشکل ترین ہیں لیکن حکومت کو چاہیے عوام کو ریلیف فراہم کرے کیوں کہ حکومتی اقدامات کے ساتھ عوام اور نسل نو کا مستقبل وابستہ ہے۔ روٹی‘ کپڑا ’مکان‘ تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ عوام کو اقوام متحدہ کے چارٹر آئین پاکستان کے مطابق بنیادی حقوق چاہیے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے جو عوام کی آنکھوں میں خوش کن سہانے خواب چنے ہیں انہیں ٹوٹنے سے بچائیں لوگ ملکی ترقی و خوشحالی جیسے اقدامات اٹھانے میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن عوام کی ترجیحات کے بر عکس فیصلے نہ کریں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments