گنٹر گراس، میلان کنڈیرا اور مساجنی


بیسویں صدی کے آخری نصف نے کئی انقلابات دیکھے مثلاً سامراجی نظام کا خاتمہ، کمیون ازم کا عروج و زوال، خلاء میں سفر اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ مگر جس انقلاب نے بقول کسے ہمارے زمانے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ آزادی نسواں ہے۔

آزادی نسواں کی اس تحریک کے زیر اثر خواتین رہنماؤں نے مذہب، فلسفہ اور فن پر تنقیدی نظر ڈالنا شروع کی اور ایسے ہر عقیدے نظریے اور فن پارے کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا جو صنفی امتیاز یا خواتین کے متعلق نفرت اور حقارت آمیز خیالات کا پرچار کرتا رہا تھا۔ اس خاص عورت دشمن رویے کے لیے مساجنی کی اصطلاح وضع کی گئی اور پھر جیسے جیسے خواتین کو سماجی سیاسی اور معاشی میدانوں مین کامیابیاں حاصل ہوتی گئیں مساجنی کے دائرہ تفتیش اور تحقیر میں ایسی عالمی شخصیات بھی آ گئیں جن کی نجی گفتگو، خط و کتابت اور ذاتی زندگی اس حوالے سے متنازع تھی مثلاً ٹی ایس ایلیٹ کی اپنی بیمار اہلیہ سے بے وفائی یا اور ٹیڈ ہیوز (سلیویا پلاتھ کے شوہر اور برطانیہ کے قومی شاعر جن کی دونوں بیگمات نے ذہنی دباؤ میں خود کشی کی) کے خلاف اخبارات اور رسائل میں بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی۔

اس عمل کی منطقی توجیہ اس کی اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ تحریر لکھنے والے کے تجربات کا عکس ہوتی ہے۔ ہر تجربہ مثبت ہو یا منفی وجود پر اپنا نقش ثبت کرتا ہے۔ جو کیفیت بھی تخلیق کار کے دل پہ گزرتی ہے وہ کہیں نہ کہیں ذات کی کٹھالی میں پکتی رہتی ہے اور پھر ناول، افسانے یا شعر کا قالب اختیار کر کے باہر آتی ہے۔ عورت سے نفرت اور خوف اگر کسی تخلیق کار کے لاشعور کا حصہ بن گئی ہے تو وہ کہیں نہ کہیں اس کی تحریر میں در آئے گی تو کیوں نہ ایسے منفی خیالات کا پرچار کرنے والی تحاریر کے پھیلاؤ کو روکا جائے؟

بعض حضرات کے نزدیک یہ بجا طور پر ایک انتہا پسندانہ رجحان ہے کیوں کہ کسی بھی فنکار کے ذاتی معاملات کی بنیاد پر اس کے تخلیقی جوہر کو مسترد کرنے کا مطالبہ صحت مند رویہ نہیں۔ مثلاً اردو ہی کی بات کریں تو فراق گورکھپوری اور جون ایلیا کی عائلی زندگی اور گھریلو معاملات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، اسے ہم بڑے شاعروں کی زندگی کا تاریک پہلو قرار دے سکتے ہیں مگر اس بنیاد پر ان کی شاعری کو مسترد کرنے کا مطالبہ کس طرح درست ہو سکتا ہے۔

چلیں جون اور فراق کے معاملے میں تو نجی زندگی سے کچھ نہ کچھ سراغ ملتا ہے مگر اقبال اور انتظار حسین جیسے بڑے ناموں کے بارے میں کیا کہا جائے؟ ان کی شاعری اور ناولوں میں اگر عورت غائب ہے تو اس کا کیا جواز؟ انتظار حسین کی ہیروئن کسی پرچھائی سے زیادہ نہیں جبکہ اقبال کی شاعری کی دنیا میں فاطمہ بنت عبداللہ جیسے سٹیریو ٹائپ کرداروں کے سوا کچھ نہیں۔ تو کیا ہم اردو کے ان دو عظیم ناموں سے کنارہ کر لیں؟

یہاں دو اہم سوال بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ محض عورتوں کے خلاف نفرت انگیز رویہ ہی ایسا خاص کیوں کہ جس کی مذمت کی جائے اور جس کا بائیکاٹ ہو دیگر تعصبات مثلاً نسل پرستی بھی اپنی نہاد میں اتنے ہی برے ہیں، تاریخ میں لا تعداد مشاہیر خصوصاً اکابرین سیاست ایسے گزرے ہیں کہ جن کی زبان اور قلم نے رنگدار اقوام اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف زہر اگلا کیا ان کی ہر تحریر اور تقریر کی تطہیر بھی اسی طرح ہوتی ہے جیسی مساجنی کے نام پر غریب شاعر اور ادیب کی نسائی تحریک والے کرتے ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ تطہیر کا یہ عمل محض انفرادی تخلیق یعنی شعر ادب اور مصوری تک ہی کیں محدود رکھا جائے اور فکر انسانی کی اجتماعی کاوشوں کو استثناء کیوں حاصل ہے۔

اس حوالے سے دو ایسی تاریخی دستاویز کی طرف آتے ہیں جنہیں دنیا بھر کے آئین کا ماخذ تصور کی جاتا ہے : حمورابی کے قوانین اور امریکہ کا اعلان آزادی، تقریباً 3300 سو سال کے زمانی فاصلے کے باوجود دونوں دستاویز کا مقصد ایک ہی تھا یعنی ریاست اور شہریوں کے درمیان ایسے قانونی معاہدے کے خد و خال واضح کرنا جو ایک منظم اور دیرپا سماجی ڈھانچے کو قائم اور برقرار رکھ سکے۔ اگرچہ یہ دونوں دستاویزات عدل اور انصاف کے عالمگیر اور دائمی اصولوں کی بنیاد پر کھڑے ہونے کا دعوا کرتے ہیں مگر دونوں میں کئی شقیں ایک دوسرے سے متضاد اور جدید ذہن کے لیے ناقابل قبول ہیں۔

مثلاً حمورابی عورت کو ایک آزاد شہری کے بجائے باپ یا شوہر کی ملکیت قرار دیتا ہے، حمورابی کے قانون میں اگر کوئی شخص کسی عورت کی عصمت دری یا قتل کردے تو اس عورت کے شوہر یا باپ کو فریق مخالف کی بیوی یا بیٹی پر ویسی ہی دسترس حاصل ہوگی، اسی طرح امریکہ کے اعلان آزادی میں غلاموں کے سوال کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔ بیسویں صدی میں انسانوں کی جنس اور نسل کی بنیاد پر تفریق دنیا کے ہر آئین سے غائب ہو چکی ہے اس کے باوجود حمورابی کے قوانین کی یادگار اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کے مراکز میں موجود ہیں اسی طرح دو سو سال سے دنیا کی ہر یونیورسٹی میں امریکی اعلان آزادی کو فرد کی آزادی کے اولین منشور کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ گویا جن آفاقی اصولوں پر یہ دستاویز قائم تھے انہی ترک کر دینے کے باوجود انسانیت ان سے چھٹکارا پانے کو تیار نہیں۔

اب اپنے اصل موضوع پر آنے سے پہلے ایک ذہنی مشق کے طور پر مساجنی کی یک دھاری تلوار کو پلٹا کے کر دیکھتے ہیں۔ پچھلی صدی کی نمایاں افرو امیریکن خواتین مصنفین کی تحاریر پر ایک نظر ڈالیں، تقریبا ہر کہانی میں افرو امیریکن مرد کے خصائل ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ ان کہانیوں کے مطالعے سے افروامیریکن مرد کی جو شبیہ ابھرتی ہے وہ کچھ یہ ہے کہ ایک عام افرو امیریکن مرد کاہل، شرابی، تشدد پسند اور جنسی درندہ ہے جو حسب مقدور چھوٹے یا بڑے جرائم میں بھی ملوث ہے۔

یہ تحریریں بڑی حد تک ان تمام اسٹیریو ٹائپس کی تصدیق کرتی ہیں جو سیاہ فام امریکیوں کے بارے میں سفید فام آبادی میں مشہور تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر ان ناولوں پر سے سیاہ فام خواتین کا نام ہٹا کر سفید فام مردوں کا نام ڈال دیا جائے تو بڑی آسانی سے انہیں نسل پرستانہ ادب قرار دیا جاسکتا ہے۔ گویا ادب کی اخلاقی اور سماجی قدر پیمائی) اگر اسے ضروری مان بھی لیا جائے تو ( میں آخری حکم اس کے مواد یا اسلوب نہیں بلکہ لکھنے والے کی شناخت کی بنیاد پر لگایا جائے گا۔

آزادی نسواں یا فیمن ازم کی تحریک کا آغاز براعظم یورپ سے ہوا اور یہی اس کا مرکز بھی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسی براعظم کے دو اہم ادیبوں نے مساجنی کے الزامات کا سامنا بھی کیا۔

گنٹر گراس 1924 تا 2014 جرمنی کے نامور ناول نگار اور شاعر ہیں جنہوں نے نازی ازم کے حوالے سے جرمن قوم کے احساس جرم کو تخلیقی جہت عطا کی، ان کے ناولوں خصوصاً ڈانزگ ٹرالوجی نے دوسری جنگ عظیم کی شکست خورہ جرمن قوم کے کتھارسس میں اہم کردار ادا کیا۔

گنٹر گراس کے ہم عصر میلان کنڈیرا چیک اور فرانسیسی زبان میں لکھتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں کمیونسٹ جبر کے ہاتھوں فرد کے استحصال کو موضوع بنا گیا ہے ساتھ ہی ساتھ عورت اور مرد کے رشتے کی جذباتی اور فلسفیانہ پرتوں کی کھوج بھی ان کا موضوع خاص ہے۔

سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں گنٹر گراس کے ناول فلنڈر کا جو ایک مافوق الفطرت مچھلی کی داستان ہے جو انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں بہ زعم خود انسانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اور پھر یہیں سے ایک مچھیرے اور اس کی گیارہ بیویوں کی کہانی شروع ہوتی ہے جو پتھر کے زمانے سے عہد جدید تک پھیلی ہوئی ہے۔ گراس کے مطابق انسانی تاریخ کانسی کے عہد سے لے کر آج تک جنگ بھوک اور استحصال کی تاریخ ہے اور اس کی بنیادی وجہ کانسی کے عہد میں انسان کا مادر شاہی نظام کو ترک کر کے پدر شاہی نظام کا اختیار کرنا ہے۔

گراس کے بقول مردانہ اوصاف کا انسانی تمدن پر غلبہ ان تمام مصیبتوں کا ذمہ دار ہے جو اب عہد جدید میں مکمل تباہی کو دعوت دے رہی ہے۔ گنٹر گراس کا یہ تھیسز یہاں تک تو ٹھیک ہے جو نسائی تحریک کے ایجنڈے کے عین مطابق ہے مگر اس کے آگے جو وہ کہتے وہ حقوق نسواں کے علمبرداروں کے لیے ہضم کرنا مشکل ہے۔ کیوں کہ وہ ان مردانہ اوصاف کے مقابل زنانہ اوصاف کو انسانی تمدن کی بقاء کا ذریعہ سمجھتے ہیں گویا ان کے نزدیک پدر شاہی نظام کا ایسا خاتمہ جس میں خواتین مردوں کی مشابہت اختیار کر کے طاقت کے مراکز میں شریک ہوں جائیں مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے، اس کا حل تو یہ ہے کہ نوع انسانی اس سارے تصور حیات کو اکھاڑ کر پھینک دے جو خالص مردانہ اوصاف پر کھڑے ہیں اور ان زنانہ تصورات کی طرف مراجعت کرے جو قبل از تاریخ انسانیت کا خاصہ تھیں ہے اور پھر ان تمام نسوانی خصوصیات کے آگے سرنگوں ہو کر پرورش اور نگہداشت کو انسانی تمدن کے بنیادی سرگرمی تسلیم کرے۔

ظاہر ہے ایسے تمام مشوروں کا انجام وہی ہونا تھا جو ناول میں نسائی خواتین کے ہاتھوں اس مچھلی کا ہوا۔ نسوانیت کی علمبردار خواتین کی جانب سے گنٹر گراس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا گویا وہ خواتین کو پرورش کی روایتی کردار تک محدود رکھنا کے حامی ہیں۔ گراس کو غالبا اس ردعمل کا اندازہ تھا اس لیے اپنے ناول اختتام پہ اس نے نہایت ڈرامائی انداز میں فلنڈر کو فیمنسٹ خواتین کے ہاتھوں المناک انجام تک پہنچایا۔

گراس کی طرح میلان کنڈیرا کا ناول امورٹیلیٹی بھی مساجنی کے الزامات کا شکار ہوا۔ اس ناول میں کنڈیرا نے عظیم جرمن شاعر گوئٹے اور اس کی دوست بٹینا کے تعلق کو موضوع بنایا ہے۔ بٹینا ایک ادب پرور خاتون تھی جو موسیقاروں، شاعروں اور فنکاروں کی مصاحبت میں وقت گزارتی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بیسویں صدی سے قبل سیاست، تجارت، علوم اور فنون کے دائروں میں خواتین کا کردار نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ ہزاروں برس کی معلوم انسانی تاریخ مین ایسی خواتین خال خال ہی گزری ہیں جنہوں نے گھر گرہستی کے روایتی میدان کے باہر مردوں کی حاکمیت کو چیلنج کیا ہو اور اپنا آپ منوایا ہو۔

فیمینسٹ تحریک والوں کو اگر ایسی کسی خاتون کا سراغ مل جاتا تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا پھر یہ بھی ہوتا کہ مورخ اور نقاد اس خاتون کے کام اور کردار کا معروضی جائزہ لینے کے بجائے رعائتی نمبر دے دیتے۔ بٹینا بھی ایک ایسی ہی شخصیت تھی جسے انیسویں صدی کی روشن خیال عورت کا استعارہ بنا دیا گیا جو بہا مس موزارٹ اور گوئٹے جیسے فنکاروں کے جھرمٹ مین نمایاں تھی۔ مگر میلان کنڈیرا کا موضوع کچھ اور ہے اس نے نہایت دلیری سے گوئٹے اور بٹینا کے تعلق کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔

کنڈیرا کے مطابق بٹینا ایک موقع پرست عورت تھی جو گوئٹے کے شاعرانہ امیج کو استعمال کر کے بقائے دوام حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اس مقصد کے حصول کے لیے گوئٹے اور اپنے تعلق کو افسانوی رنگ دینے سے بھی گریز نہ کیا بلکہ گوئٹے کی وفات کے بعد اپنے نام اس کے جعلی خطوط کا انبار لگا دیا۔ کینڈیرا کی یہ جسارت اسے بالآخر مساجنی مخالفین کے نشانے پہ لے آئی۔

میلان کنڈیرا کے دیگر ناولوں کی بات کی جائے تو جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ عورت اور مرد کے تعلق کی جسمانی نفسیاتی اور جذباتی تشریح اس کا بنیادی خیالیہ ہے۔ مگر یہاں اس کی کی مردانہ شاؤنیت رنگ دکھاتی ہے۔ جس کی وجہ سے تحریر میں یک رخا پن آ گیا ہے، اپنے تمام تر فلسفیانہ طرز بیان کے باوجود میلان کنڈیرا جنسی معاملات کے بیان میں مرد کے نقطہ نظر سے باہر نہیں نکا پاتا۔ وہ دستویسکی کی طرح اپنے نسائی کرداروں سے انصاف نہیں کر پاتا۔

کنڈیرا کا ہیرو ایک ڈون جون جبکہ ہیروئن ایک آبرو باختہ عورت ہے جنسی عمل میں مرد کو مرکزی حیثیت حاصل جو تمام تر سرگرمی اور قوت کا منبع ہے جبکہ عورت کے حصے میں محض غیر فعالیت آتی ہے جس کی حیثیت ایک خاموش تماشائی کی ہے۔ مثلاً وجود کا ناقابل برداشت ہلکا پن ”میں ہماری ملاقات تھامس سے ہوتی ہے، ایک اول درجے کا عورت باز جو جنس اور محبت کو علیحدہ علیحدہ خانوں میں رکھتا ہے۔ وہ اپنی بیوی تھریسا سے محبت کرنے کے باوجود درجنوں داشتاؤں سے تعلق قائم رکھنے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتا اور برملا اعلان کرتا ہے کہ عورت کو سمجھنے کے لیے جنسی ملاپ سے بہتر کوئی طریقہ نہیں، گویا تھریسا اور یہ ساری داشتائیں اس کے لیبارٹری کے چوہے ہیں جنہیں وہ فراخدلی کے ساتھ اپنے جنسی تجربات میں استعمال کرتا ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں میلان کنڈیرا کے نسائی کرداروں میں چھپی ہوئی وحشت کا احساس بھی ہوتا ہے ہے یہ خودکشی کی قدیم جبلت ہے۔ چاہے وہ سمپوزیم کی نرس الزبتھ ہو یا فیرویل پارٹی کی روزینہ یا پھر امورٹیلیٹی کی ایگنیس، ایسا لگتا یہ ساری عورتیں موت کے تعاقب میں ہیں، ان کی اس تلاش کا انجام بالآخر اپنی یا پھر کسی اور کی موت پر ہی ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ خود کشی یا موت کی یہ کشش نسائی کرداروں میں ہی نمایاں ہے؟ سچ پوچھیں تو عورت کا یہ پست تصور جو اس کی تحریروں میں کہیں جلی اور کہیں خفی نظر آتا ہے میلان کنڈیرا کے فن کی سب سے بڑی خامی ہے جس نے اسے اس سطح کی پذیرائی اور عالمی اعزازات سے محروم رکھا جس کا وہ حقدار تھا۔

اب اگر بات کی جائے گنٹر گراس کی ڈینزک ٹرالوجی تو نازی عہد کی تاریخ ہونے کی وجہ سے اس میں تشدد، قتل اور ریپ کے متعدد واقعات شامل ہیں۔ کہانی کے مخصوص پس منظر کی وجہ سے ان کے بیان میں کوئی مضائقہ نہیں، مگر گنٹر گراس کے اسلوب بیاں میں ایک قسم کی کثافت در آتی ہے، اس کی مخصوص حس مزاح جو ایک خاص طرح کی سفاکی میں لپٹی ہوئی ہے جو کہیں کہیں قاری کو بے مزہ کر دیتی ہے۔ مثلاً جب ہم ٹونی ماریسن کی کہانی میں ایک سیاہ فام جوڑے کا اوباش لڑکوں کے ہاتھوں ریپ دیکھتے ہیں تو یہ ایک آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی تحریر معلوم ہوتی ہے، مگر جب یہی کچھ گنٹر گراس نازی نسل پرستوں کے ہاتھوں ایک یہودی اور اس کی محبوبہ کے ساتھ ہوتا دکھاتا ہے تو نجانے کیوں ایک سفاک لا تعلقی کا احساس ہوتا۔ تشدد، قتل اور عصمت دری کے ہر منظر میں مصنف مجرم کے ساتھ لطف اندوز ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ گراس دراصل اس دیوانگی کو پینٹ کرنا چاہتا تھا جو اس وقت پوری جرمن قوم اور خود گراس پر بحیثیت فرد طاری ہوئی ہوئی تھی۔

اب آخر میں گنٹر گراس کے ایک اور ناول ”ٹٰؒیل گیٹ میں ملاقات“ کا تجزیہ کرتے ہیں جو تیس سالہ جنگ کے دوران 1647 میں ہونے والی جرمن ادیبوں اور شاعروں کی ملاقات کا احوال ہے۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے درمیان یہ ادیب اور شاعر ایک دور دراز قصبے میں جمع ہوتے ہیں اور زبان اور ادب کے مسائل پہ بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ گنٹر گراس کے مطابق اس طویل نشست و برخاست اور بحث و مباحثے نے آنے والی صدیوں میں جرمن زبان و ادب اور کلچر کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا۔

بظاہر تو یہ مختصر ناول اس افسانوی ملاقات کی روئیداد ہے مگر درحقیقت یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بننے والی جرمن ادیبوں کی تنظیم گروپ سینتالیس کی پیروڈی ہے، گنٹر گراس بھی اس کا ممبر تھا اور ہر اجلاس اور کارروائی میں شریک رہا۔ اس ناول میں ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کا کردار بستر کی زینت بننے اور میز پر خوان نعمت سجانے کی حد تک ہی محدود ہے جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گنٹر گراس اہم تاریخی عمل میں خواتین کا کردار کیا دیکھتا ہے، کیا وہ نسائیت کو تاریخ کے مرکزی دھارے سے باہر سمجھتا ہے؟

گنٹر گراس اور اس قبیل کے دوسرے لکھنے والے جب خواتین کو تاریخ بنے کے عمل سے باہر رکھتے ہیں تو پھر عہد جدید میں ایسی تاریخ کا کیا مقام ہو گا؟ کیا ہمیں تاریخ کو ازسرنو لکھنا اور پڑھنا ہو گا؟ مغرب مین کچھ مصنفین نے ٹروجن وار کو نسائی نقطہ نظر سے لکھنے کی کوشش کی ہے، مگر کیا ہر ادبی کلاسیک کو دوبارہ لکھنا ممکن ہے؟ اور اس سے بڑھ کر کیا تاریخ کو بھی دوبارہ لکھا جا سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).