شہباز گل کے پختون ٹچ سے سہمے ہوئے پنجابی
آج کل ایک طرف شہباز گل بھوت بن کر پشاور کی گلیوں میں آدم بو آدم بو کی آوازیں لگاتا پختونوں کو اس ملک کو شکست دینے کی مبارک باد دیتا ہے جس کا یہ جٹ صاحب خود شہری ہے، تو دوسری طرف آخری بار وزیر اعلیٰ بننے والا محمود خان، آئندہ لانگ مارچ میں صوبائی فورس کے ساتھ مرکز پر چڑھائی کرنے کی نوید سناتا ہے۔ یہی بات اینکر نما یوتھیا عمران ریاض بھی کہتا ہے کہ خان نے لانگ مارچ اس لئے ختم کردی کہ اس کے ساتھ مسلح سرپھرے پختون تھے جو ایک دفعہ بپھر جائے تو پھر خون کی ندیاں بہا دیتے ہیں۔ ایاز امیر نے بھی یہی ٹویٹ میں لکھا کہ عمران کے ساتھ غیرت مند پختون کھڑے ہیں رانا ان کے سامنے آیا تو سمجھ آ جائے گی۔
عمران خان خود بھی اعتراف کرتا ہے کہ میں سب چھوڑ کر واپس اس لئے آیا کیونکہ میرے ساتھی بھی مسلح تھے۔ اس سے پہلے بھی عمران نے انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان پختون قوم پرستی کی تحریک ہے، ڈرون کی وجہ سے پختون ریاست پر چڑھ دوڑے۔
پختونوں کے خون کی ارزانی کی گردان ہر ٹی وی چینل پر جاری ہے۔ جہاں ان کو کوئی پاگل، دہشت گرد، سرپھرے، سپورٹر اور کوئی انہیں احمد شاہ ابدالی اور محمود غزنوی کی طرح پنجاب پر حملہ آور باور کرا رہا ہے۔ جب کہ پختونوں کی اپنی حالت یہ ہے کہ کبھی کشمیر پر چڑھائی کرنے والے آج جلسوں اور جلوسوں میں رو رو کر خود کو پنجابیوں سے بچانے کی دہائیاں دے رہے ہیں۔
جمہوریت میں پدرم سلطان بود نہیں چلتا۔ رنگ مذہب زبان نسل علاقے کی تکریم نہیں ہوتی۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ایک قومیت باقی تینوں سے عددی طور پر کہیں زیادہ ہے، جمہوریت چھوٹی قومیتوں کی نجات دہندہ ہے۔ اگرچہ ’اکثریت کی حکمرانی‘ کے اصولوں کے تحت چھوٹی قومیتوں کو حکومت کبھی نہیں مل سکتی لیکن وہ اپنے پسندیدہ حکمران منتخب کرنے اور ہٹانے میں آزاد ہوتے ہیں۔ آئین اگر جمہوریت کی بائبل ہے تو چھوٹی قومیتیں آئین کے قاری ہیں۔
عمران خان کو اس لیے ہٹایا گیا کہ اس نے پنجاب کو سنٹرل پنجاب کے کسی سیاسی لیڈر کی بجائے جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے کے عثمان بزدار کے حوالے کیا تھا۔ جبکہ پنجاب سے بدتر انتظامی حالت پختونخوا میں ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ پختونخوا کا وزیر اعلیٰ کوئی بنجمن ڈزرائیلی ہے۔ لیکن اس پر کبھی بزدار کی طرح تنقید نہیں ہوئی کیونکہ پختونوں کی بربادی پر کسی کو کوئی افسوس نہیں ہوتا۔
پنجاب سے نو سال پہلے پی ٹی آئی کو پختونخوا میں کاشت کیا گیا تو مولانا، شیرپاؤ اور اسفندیار ولی نے نواز شریف کو عمران کی حکومت گرانے کا یقین دلایا تھا، لیکن نواز شریف نے کہا تھا کہ میں عمران خان کی حکومت گرانے میں دلچسپی نہیں رکھتا میں چاہتا ہوں وہ وہیں پر حکومت کرے تاکہ ناکام ہو کر مرکز میں نہ آ سکے۔ لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ عمران وہاں کے حکومتی وسائل استعمال کر کے مرکز کو فتح کیا۔ اس دوران عمران خان پختونخوا کے وسائل اپنے چہیتوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹے اور وہاں کی برداشت پر مبنی روایتی سیاسی فضا کو متعفن کر کے گالی گلوچ کی ابتدا کی۔ کرپشن کے اولین الزامات اسفندیار ولی اور اس کی پارٹی پر لگائے۔ ملائشیا اور دبئی کی جائیدادیں، پختون کے خون کا سودا اور اے این پی کے دور میں ہونے والے دھماکے سب کا انہیں ذمہ دار قرار دیتا رہا، یعنی جو مرے وہی قاتل بھی۔
دہشت گردوں نے پختونخوا کے دو طبقات یعنی سیکورٹی فورسز اور اے این پی کے ورکرز اور رہنماؤں کو ٹارگٹ بنایا، جبکہ اس بے رحم شخص نے دہشت گردوں کو دفاتر اور معاہدے کرانے کے مطالبات کر کے سیکورٹی فورسز اور اے این پی کے شہداء کی قربانیوں کا مذاق اڑایا، لیکن پنجاب میں اس بات کا احساس تب ہوا جب اس کے گالی گلوچ کا رخ باچا خان فیملی کی بجائے شریف فیملی کی طرف موڑ دیا گیا۔ پنجاب نے پی ٹی آئی کی حکومت کا ذائقہ کوئی تین سال چکھا ہے جبکہ پختونخوا نو سال سے اس اژدھے کی گرفت میں سسک رہا ہے۔
عمران نے پختونخوا میں کون سا میگا پراجیکٹ دیا ہے جس کی وجہ سے پختونوں کی زندگی بدل گئی ہو جس کو دیکھ کر طوطا مینا کی کہانیاں سنائی جا رہی ہیں۔ پختون پی ٹی آئی کے سپورٹرز ہیں یہ تو گاہے بگاہے ہونے والے انتخابات ثابت کر رہے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ پختونوں کا سپورٹر کون ہے؟ ان کے حقوق کا محافظ کون ہے؟ کم از کم پی ٹی آئی، عمران خان یا شہباز گل تو بالکل نہیں، کیونکہ عمران کی حکومت کے دوران سرکاری طور پر جب بھی پختونوں کا خون بہایا گیا تو حکومت نے شرمندگی ظاہر کی اور نہ معافی مانگی، بلکہ الٹا مراد سعید، علی محمد خان اور امین گنڈا پور جیسوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
لانگ مارچ کے دوران جس طرح عمران پختونوں کو مسلح بتا رہا ہے یہ ان کا خون بہانے کا باقاعدہ بندوبست کیا جا رہا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کو پختونوں کی لاشیں اسی طرح چاہیے، جس طرح ماضی میں ان کے بچوں کی لاشوں کا سہارا لے کر وہ اس کینٹینر سے اترا تھا جس کی سیڑھی کوئی ساتھ لے گیا تھا۔
عمران خان کو پختونخوا پر پنجابی اسٹبلشمنٹ نے مسلط کر دیا تھا اور پاکستان پر اس کی بدترین حکومت بھی پختونخوا کی وجہ سے نہیں، بلکہ پنجاب کی وجہ سے برقرار تھی۔ جونہی پنجاب میں اس کی حکومت ختم ہو گئی سب ختم ہو گیا۔ اب بھی وہ پختونخوا میں اسی حکومت کی وجہ سے بیٹھا ہے جو اسٹیبلشمنٹ نے اسے دی تھی اور جس کو نواز شریف گرانا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن میڈیا پر پنجاب کے کنٹرول کی وجہ سے یوں ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جیسے پختونخوا کی وجہ سے عمران خان کی حکومت بنی تھی اور اب پختونخوا پنجاب پر حملہ آور ہونے آ رہا ہے۔
عمران خان لاہور، زمان پارک کا رہائشی اور پنجاب کے ڈومیسائل کا حامل ہے۔ اس کی مادری زبان پنجابی ہے۔ پختونخوا کی اصل سیاسی لیڈرشپ کو غائب کرنے کی خاطر اسے وہاں کا نمائندہ بنایا گیا ہے، ورنہ نواز شریف اور عمران دونوں لاہوریے ہیں۔ نواز شریف جیتے یا عمران خان جیت پنجاب کی ہوتی ہے۔
اس سیاسی کشمکش کو کچھ حلقے سستی نسلی تعصب میں لپیٹ کر محض اپنا الو سیدھا کرتے ہیں، ورنہ پشاور کا کور کمانڈر اور آرمی چیف بھی دونوں پختون نہیں ہیں۔ پنجاب کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے لاہور کے نواز شریف کے لئے لاہور کا عمران خان تیار کیا گیا ہے۔ ویسے بھی سید علی ہجویری کے علاوہ کسی افغان کی لاہور میں کوئی وقعت اور اعتبار نہیں۔ پنجاب کے مفرور کو ضرورت پڑے تو پختونخوا میں پناہ ملتی ہے لیکن عمران لاہوریا اور نواز شریف لاہوریا دونوں ہمارے لیے برابر ہیں۔ نہ احمد شاہ کا لشکر پختونخوا سے آ رہا ہے نہ رنجیت سنگھ کا لشکر اس کے مقابل ہے کیونکہ رنجیت سنگھ احمد شاہ کا نوکر تھا، مقابل نہیں۔
- پاکستان نے افغانستان کو واخان پر قبضے کی دھمکی کیوں دی؟ - 27/03/2024
- صدارتی دنگل: جمہوریت بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ - 04/03/2024
- اینف از اینف (Enough is enough) پر ایمل ولی خان سے 22 سوال - 15/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).