ایک پناہ گزین کی داستان حیات: ”ریفیوجی“


پچھلے کئی دنوں جس سوانح عمری نے مجھے اپنے سحر میں مبتلا رکھا، وہ کسی ایک فرد یا خاندان کی زندگی کی ہی کہانی نہیں بلکہ ایک ایسی پناہ گزین قوم کی ہجرت کی داستان ہے جسے کبھی مذہب تو کبھی لسانی و نسلی تفریق کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ سفر مسلسل ہے ایک مستقل جائے سکونت کی تلاش کا، یہ داستان ہے درد اور خون کے دریا عبور کر کے ترک سکونت پہ مجبور ہونے والی تین نسلوں کی جسے مصنف عظمت اشرف نے جھیلا اور اس آپ بیتی کو ”ریفیوجی“ کے نام سے رقم کیا۔ یہ کتاب آنکھوں دیکھا حال ہے ان تاریخی حقائق اور واقعات کا جو ان حالات کا محرک تھیں۔ یادداشت ہے ان بے قصور لوگوں کی جدوجہد کی جو خونریزی اور بربریت کا شکار ہوئے اور جن کی قربانیوں کو فراموش کر دیا گیا۔ اسی خونی واردات میں خود مصنف کے والدین، چار بھائی اور سات بھائیوں کی چمبیلی کی مانند نازک اور کمسن بہن تک کو قتل کر دیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں، ”میں ایک ایسا مستقل پناہ گزین ہوں جو اپنی پوری زندگی محو ہجرت رہا ہوں۔ اپنی روح پر بہت ساری ہجرتوں کے گہرے انمٹ نقوش لیے میں اپنی زندگی کا نامکمل سفر جاری رکھتا ہوں۔“

انگریزی میں لکھی، پاکستانی سیاست کے تاریخی ابواب کا ترتیب وار تجزیہ کرتی متاثر کن کتاب کا اردو میں خوبصورت اور رواں ترجمہ سید ابو احمد عاکف نے کیا۔

چار سو صفحات پہ مشتمل اس سوانح میں مصنف نے اپنی زندگی کی چھ ہجرتوں کا احاطہ کرتے ہوئے پاکستان کی آفرینش اور اس کے دولخت ہونے کے ان عوامل کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا کہ جس نے مذہب، لسانیت اور قومیت کی تفریق کی بنا پہ نفاق اور عناد کی ایسی کھیتی کو پروان چڑھایا جس کی آبیاری لاکھوں بے گناہ انسانوں کے خون سے کی گئی۔

1947 ء میں ہونے والی برصغیر کی تقسیم کی بنیاد مذہبی تفریق اور دو قومی نظریہ پہ تھی، جس کے نتیجہ میں ہونے والی ہجرت انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انخلا اور لرزہ خیز اجتماعی خونریزی قرار پائی۔ مصنف کی ہجرت کا پہلا سفر ایک برس کی عمر میں اپنی بہاری مسلمان والدہ کی گود میں اپریل 1953 ء میں انڈیا سے چلنے والی پناہ گزینوں سے بھری ٹرین میں شروع ہوتا ہے۔ برصغیر میں انگریزوں کے تسلط سے آزادی کے چھ سال بعد ۔ اس طرح مصنف کی پہلی ہجرت اپنے خاندان کے ساتھ مظفر آباد، صوبہ بہار ( ہندوستان) سے ٹھاکر گاؤں، مشرقی پاکستان کی جانب تھی۔ 1953 ء سے 1970 ء تک کی ان کی زندگی کی سب سے اہم ہجرت کا مفصل حال کتاب کے آدھی سے زیادہ صفحات پہ مشتمل ابتدائی ابواب میں درج ہے۔

اس دورانیے نے اشرف گھرانے کو مشرقی پاکستان کی زرخیز مٹی نے بھر پور تعلیمی، اقتصادی اور سماجی ترقی کے پربہار سال دیے۔ فارغ التحصیل ہونے والوں میں مصنف کے بڑے بھائی حشمت نے ڈھاکہ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس میں پہلی پوزیشن لی، دوسرے بھائی اقبال نے بی کام کیا تھا اور مصنف عظمت نے انٹر میں دوسری پوزیشن لی تھی جس کے بعد 1970 ء میں مصنف معاشیات پڑھنے ڈھاکہ یونیورسٹی پہنچ چکے تھے جو اس وقت سیاست کا گڑھ تھی۔ مصنف نے اس وقت ہونے والے الیکشن کا منظر نامہ اور مجیب کے جلسوں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ”تا حد نگاہ، انسانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ لاکھوں لوگ اپنے سفید کرتے پاجاموں میں ملبوس تھے۔“ یہ لباس بنگالی قوم پرستی کی علامت بن چکا تھا۔ سیاسی طور پہ باشعور اور فعال بنگالی قوم پرست شیخ مجیب کی منطق اور چھ نکات کے حامی تھے جو ”وفاق کی سیاسی اجارہ داری کو چیلنج کرنے والے واحد رہنما تھے۔“

ملکی سیاست کے سبب جہاں مشرقی اور مغربی پاکستان کے بیچ نفاق اور عناد کی دیوار کھڑی تھی۔ وہاں عرصے سے آباد اردو بولنے والے ایک فی صد، پانچ لاکھ بہاریوں کے خلاف بنگالیوں کے دلوں میں نفرت بھر چکی تھی۔ ”لگتا تھا کہ ایک آتش فشاں ہے جو اچانک پھٹ کے لاوا اگلنے کو ہے۔“ دسمبر 1970 ء کے الیکشن میں مجیب نے اسمبلی میں 162 میں سے 160 نشستیں لیں اور بھٹو نے 120 میں سے 80 نشستیں لے کر ”یہاں ہم وہاں تم“ کا اعلان کیا۔ اس طرح ”سیاست عروج پر تھی اور اصول زیر نگوں۔“

تین ماہ بعد بھی حکمران جنرل یحیی خان نے اقتدار حقدار عوامی لیگ پارٹی کے ہاتھوں میں منتقل نہیں ہونے دیا۔ اور جب 2 مارچ 1971 ء کو ہونے والا اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوا تو گویا آتش فشاں نے آگ اگلنا شروع کردی تھی۔ جس کے دھانے کا رخ ان بے قصور بہاریوں کی جانب تھا جو سالوں سے یہاں رہتے ہوئے بنگالی تہذیب اور ثقافت میں رچ بس گئے تھے۔ سات مارچ 1970 ء کی تقریر میں شیخ مجیب نے پورے ساز و سامان کے تیار کرنے اور مشکل وقت کے لیے کمر باندھنے کا اعلان کر دیا تھا۔

23 مارچ کو ”یوم مزاحمت“ قرار دیا۔ اس دن پاکستانی جھنڈے جلائے گیے اور محمد علی جناح کی تصاویر اتار کے ”بونگو باندھو“ ، بنگال کے دوست، شیخ مجیب کی تصاویر آویزاں کردی گئی تھیں۔ ”دو قومی نظریہ اب مشرقی پاکستان کی گلیوں اور محلوں میں اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے آخری سانسیں لے رہا تھا۔ گلی کوچے“ جوئے بنگلہ ”کے نعروں سے گونج رہے تھے۔“ مشرقی پاکستان کی فوج کے باغی بنگالی فوجی، مکتی باہنی، اور مقامی پولیس اب مسلمان قومیت رکھنے والے ایک پاکستانی قوم نہیں بلکہ صرف بنگالی زبان بولنے والی ایک قوم تھے، جو بندوقیں اور گولہ بارود لے کر عوامی لیگ کی سچا سیوک میں شامل ہو گیے تھے۔ جب کہ بہاری ان کی نظر میں ”خونی پاکستانی ایجنٹ“ تھا۔ جس نے چند ماہ قبل ہی 14 اگست کو آزادی کا پرچم لہرایا تھا۔ لہٰذا بہت منظم انداز میں چن چن کر بہاری خاندانوں کا قتل عام ہوا کہ جس مقصد کے لیے ایک قتل گاہ وضع کی گئی۔ ”اندازے کے مطابق ڈیڑھ سے دو لاکھ بہاری اور دیگر پاکستان نواز نہتے شہریوں کا قتل عام ہوا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں واقع ہونے والی پہلی بڑی نسل کشی کی کارروائی تھی۔“ انسانی جان کی حرمت پامال ہو چکی تھی۔ مصنف کے علاقے ٹھاکر گاؤں میں، جہاں اردو بولنے والے پندرہ سے بیس ہزار تھے وہاں محض ایک درجن چھوٹے بچے اور پانچ چھ بالغ افراد ہی زندہ بچے تھے۔ خود مصنف کے دس افراد کے گھرانے میں سات افراد کو مار دیا گیا۔ (تین بھائی اس قتل عام کا شکار محض اس لیے نہیں ہوئے کہ وہ اس وقت قتل و فساد کے علاقے میں نہیں تھے۔ مصنف تعلیمی وظیفہ پہ مغربی پاکستان میں تھے، حشمت ڈھاکہ میڈیکل کالج اور چھوٹا بھائی کسی کی مدد سے ہندوستان نانی کے گھر پہنچ چکے تھے۔ )

25 مارچ کو جنرل یحیی نے شورش بلاخیز کے طوفان سے نبٹنے کے لیے ”باغیوں“ کو کچلنے کی منظور دیتے ہوئے واپس مغربی پاکستان کا رخ کیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے ہاسٹلوں کو مشین گنوں اور توپوں کا نشانہ بنا کے بڑی بڑی خندقیں کھود کر انہیں دفن کیا گیا۔ مجیب کو دھان منڈی میں ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ جبکہ مقامی ریڈیو اسٹیشنوں نے مجیب کے پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغام کے ذریعہ بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کر دیا۔ چونکہ اس خطے کی فلاح کے لیے وفاق کی جانب ابتدا سے انتہا تک منصوبہ بندی کا فقدان تھا۔ لہٰذا اس وقت زور زبردستی سے وفاق کے ساتھ اتحاد کی کوشش یقیناً بے سود تھی۔

تین ماہ بعد جون 1971 ء تک پاک فوج نے پورے صوبے پہ کنٹرول کر لیا تھا۔ اور یہ وقت تھا کہ مصنف نے جو کراچی تعلیم کے لیے آئے ہوئے تھے، ٹھاکر گاؤں، مشرقی پاکستان جانے اور بچ جانے والوں لوگوں سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ جس کا غالباً مقصد ٹھاکر گاؤں جا کر اپنے خاندان کے افراد کی موت کی خبر کو یقین اور بے یقینی کے عذاب سے آزاد کرنا بھی رہا ہو گا۔ وہ ہر اس جگہ گئے جہاں ان کے خاندان نے روپوشی کے آخری دن گزارے۔ ان کے شہر میں پندرہ ہزار بہاری ہلاک ہوئے۔ انہوں نے عینی شاہدوں سے بالمشافہ گفتگو کی کہ کس طرح نسل کشی کی یہ واردات کی گئی۔ مثلاً کھانے اور پانی کی رسد کو منقطع کر کے، دریائے کنچن کے کنارے پل کے نیچے قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے مارے جانے کی۔ یہ حقیقت ہے کہ ”انسانیت شناس بنگالیوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت تھی جو انتہا پسندوں کی خونریزی سے اتفاق نہیں رکھتی تھی۔“ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مشتعل اکثریت کی نفسیات کے سامنے اقلیت کی عقل اور فیصلہ بے بسی کے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔

باوجود اس کے کہ سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کی بربریت اور بعد کی فوجی کارروائیوں کو عوام سے پوشیدہ رکھا گیا۔ سالوں بعد بھی چھپنے والی سوانح عمریاں ہمیں انسان میں پوشیدہ وحشی حیوان کی جنوں خیزی اور بربریت سے آشنا کراتی ہیں۔ تاریخ کو مسخ کیا جائے یا پوشیدہ رکھنے کی کوشش، داستان کی تہوں سے سچ عیاں ضرور ہوتا ہے۔

اتنے بڑے المیہ کو دہرانے اور تجزیہ کرنے کے لیے دل و دماغ کو ایک بار پھر اسی کشت و خون اور رنج و الم کے سمندر میں ڈوبنا پڑتا ہے اور ہم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ عظمت صاحب اس واقعہ کے پچاس سال بعد بھی اس کتاب کو لکھتے ہوئے کس المناک کیفیت سے گزرے ہوں گے۔ لیکن مجھے حیرانی اس بات کی ہے کہ کس طرح اتنی جانوں کے زیاں پہ کوئی قیامت کیوں نہ ٹوٹی۔ مغربی پاکستان کے میڈیا نے لسانی تشدد کی ان خبروں کو کیوں اتنا عام نہ کیا؟ کسی نے اس ملی سانحہ کے ضمن میں سنجیدہ تحقیقات کا مطالبہ کیوں نہ کیا؟ شاید یہ سرد رویہ اس بات کا گواہ تھا کہ دراصل روحانی طور پہ مشرقی پاکستان کبھی پاکستانی وفاق کے وجود کا حصہ ہی نہ بنا تھا۔

دسمبر 1971 ء میں دنیا نے دیکھا کہ پینسٹھ ہزار پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ لیکن ”شاید ہے کس شہری کو پاکستانی حکمرانوں کی انتہائی فاش غلطیوں کا ادراک تھا نہ ہی ان میں سے کسی کو ملک کے بدقسمت مشرقی حصے میں زمینی حقائق کا علم تھا یا وہاں کے مسائل پہچاننے کی صلاحیت۔“

مصنف کے مطابق آزادی کے مختصر وقت کے بعد ہی سقوط ڈھاکہ کی کے کئی عوامل تھے۔ جس میں اگر آزادی سے قبل برطانوی تسلط سے نجات حاصل کرنے میں معاشی آزادی کے حامی لیڈران کی آزاد و خود مختار صوبے کے لیے جدوجہد کو نظرانداز کرنا، تو آزادی کے بعد پاکستانی قیادت کی تاریخی غلطیاں تھیں۔ مثلاً بنگالیوں کے فیصلے بہت دور بیٹھ کے کیے گیے، ان کو باور کرایا گیا کہ ان کی زبان ریاست کی زبان نہیں ہوگی، وہاں کی عوام کی زندگیوں میں کوئی خاص معاشی بہتری کی صورت نہیں پیدا کی گئی۔

دوسری ہجرت کے اس تجربے نے ابتدا میں اگر مصنف کے خاندان کو تعلیمی اور معاشی طور پہ مضبوطی کا موقع دیا تو ٹوٹنے کے بعد اسی طاقت اور اعتماد نے ٹوٹ کے بکھرنے سے بچنے کا موقع بھی دیا۔

بچے کچے خاندان کو سمیٹنے والے بڑے بھائی حشمت کی اس بات کو چھوٹے بھائیوں نے گرہ میں باندھ لیا کہ ”بس ایک بات یقینی بنانا کہ تمھاری تعلیمی اور امتحانی کارکردگی کسی قیمت پہ خراب نہ ہونے پائے۔“ لہٰذا تیسری ہجرت برطانیہ میں تعلیم کے حصول کے لیے کی گئی۔ جس کے بعد اگر حشمت کا شمار دنیا کے ان چند ڈاکٹروں کی ٹیم میں ہوا کہ جنہوں دل کی منتقلی کی سب سے پہلی سرجری کی۔ تاہم ان کی اس کامیابی کے پیچھے ان کی ایک بنگالی محبوبہ ڈاکٹر نہار سے ہونے والی ناتمام محبت کی کہانی میرے لیے تکلیف دہ ہے کہ جنہوں نے اپنے محبوب ساتھی ڈاکٹر حشمت کے لیے خاندان سے بغاوت کی۔ حتی کہ اپنی شادی والے دن رخصتی سے پہلے گھر سے بھاگ گئیں۔ مشرقی سماج میں اتنی بڑی ٹکر لینا کوئی مذاق نہیں۔ خاص کر عورت کے لیے۔ لیکن شاید عورت کی محبت کی گہرائی کا اندازہ مردوں کی رسائی سے باہر ہے۔

ڈاکٹر نہار برطانیہ میں جا کر تینوں بھائیوں کے لیے غیر مشروط محبت اور ڈھارس بنی مگر ان کی تمام تر قربانی کے باوجود حشمت خلیج کا وہ دریا نہ عبور سکا جو اس خونی سانحہ نے محبت کے جذبات کے اظہار میں حائل کیا۔ میں سوچتی ہوں نجانے کتنے ہی بنگالی اور بہاری نوجوان دلوں میں پروان چڑھنے والے محبت کے شجر اس نفرت اور نفاق کے سبب ٹھٹھر کے مر چکے ہوں گے۔

برطانیہ سے معاشیات کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد عظمت کی چوتھی ہجرت نوکری کے سلسلے میں کم متمدن قبائلی نظام کے پیروکار سعودی عرب کے شہر جدہ میں تھی۔ جہاں زندگی پرامن، پرمسرت سے بھرپور تھی۔ لیکن اس دھرتی کی گود غیر ملکیوں کے لیے کشادہ نہ تھی۔ باوجود مالی خوشحالی کے ”یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جو تضادات سے بھرپور تھا۔ لیکن پھر بھی ہمیں جدید زندگی کی تمام سہولتیں پیش کرتا تھا۔ یہ ایک ایسا معاشرہ بھی تھا جہاں ایک عورت۔ عدالت میں اپنی گواہی کے ضمن میں ایک مرد کے آدھے کے برابر تھی۔“ یہ بالکل بھی ایسی جگہ نہیں تھی کہ جہاں کوئی بھی والدین اپنی مرضی سے اپنی بیٹیوں کو زندگی گزارنے کی اجازت دینا چاہتے ہوں۔

اور اب وقت تھا پانچویں ہجرت کا ( 1990 ء) ایک بار پھر سوئے وطن پاکستان۔ جدہ کی اچھی تنخواہ اور مراعات کو چھوڑ کے کراچی، کہ جو بظاہر ابھی بھی سونے کی کان تھا لیکن ساتھ ہی یہاں جرائم، شادی ہالوں، مساجد، تیس لاکھ افغان مہاجرین کے لائے اسلحہ و منشیات، مذہبی شدت پسندی میں بلا خیز اضافہ ہوا تھا۔ جہاں شہروں اور دیہی علاقوں کے درمیان سماجی، معاشی اور معاشرتی تقسیم اور حد فاصل ابھرتی جا رہی تھی۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے مابین بغض اور لسانی تقسیم وہی تھی جس کا انہوں نے مشرقی پاکستان میں مشاہدہ کیا تھا۔ تاہم ”مہاجر“ وہی لفظ جو وہاں توہین تھا اب سیاسی مزاحمت کی علامت تھا۔ ”جنرل ضیا کی سیاسی حکمت عملی ملک کو خطرناک طور پر لسانی اور نسلی بنیادوں پہ تقسیم کرتی دکھائی دے رہی تھی۔“ لاقانونیت، بھتہ، نو گو ایریا، بوری بند لاشیں عام ہو کی تھیں۔ ”بدنام اور بدعنوان پولیس نوجوان ڈاکوؤں کے حق میں دستبردار ہو چکی تھی۔“ مصنف کے مطابق ”یہ پاکستان کی ناقص جمہوریت کا تلخ ثمر تھا جس میں وقفہ وقفہ سے سب اپنی باریاں لگا رہے تھے۔ نواز شریف اور بینظیر۔ جن کا غیر علانیہ مقولہ تھا“ ان عوام کے ساتھ وہی کریں جو اپنی ذات کے ساتھ نہیں کرنا چاہیے۔ ”انہیں ایسا لگا جیسے پچھلے المیہ دہرانے کا سمے ابھر آیا ہو۔

”ایک بار پھر ہم پانی کے نازک بلبلے میں زندگی گزار رہے تھے۔ کچھ اس طرح جیسا کہ مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے سے قبل کے آخری سال میں ہماری کیفیت تھی۔“

اور اب وقت تھا چھٹی ہجرت کا۔

”اب مجھے ایک ایسی جگہ کی تلاش کرنی تھی جہاں ہماری بیٹیاں ظلم ستم اور جبر و نا انصافی کے خوف کے بغیر جی سکیں اور جہاں وہ مستحکم اور محفوظ وجود سے لطف اندوز ہوئی خوشحالی کی جانب گامزن ہو سکیں۔ ایک ایسی سرزمین جو میری آنے والی نسلوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرسکے اور جسے میرے بچے اپنا کہہ سکیں۔“ اپنایت کے گہوارے، پیارے گھر کے متلاشی، اس دفعہ کینیڈا میں بسنے والے پناہ گزین عظمت اشرف کی ہجرتوں کی یہ طویل داستان جہاں انسان کے ہاتھوں انسانی زندگیوں کی پامالی کا نوحہ ہے تو وہاں ان پہ بیتے سانحوں کے اندمال کا ذریعہ بھی۔ نفسیاتی اعتبار سے المیوں کو دہرانا ان کی شدت میں کمی، خوگری اور قبولیت کا باعث بنتا ہے۔ ان کی داستان حیات، یقیناً اس مقولے پہ ایمان کا سبب بنتی ہے کہ ”جو لوگ ہار نہیں مانتے وہ کھنڈرات سے اٹھ کر بھی آسمان چھو سکتے ہیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments