پاکستانی سیاست اور فرینکسٹائن


پاکستان کے موجودہ سیاسی و اقتصادی حالات چیخ چیخ کر کسی ناگہانی گھڑی کی جلد آمد کا بتا رہے ہیں۔ ویسے تو پاکستان ہر دور میں نازک دور سے گزرا ہے۔ چاہے آپ پاکستان میں کسی بھی ایج گروپ سے کیوں نا ہوں! جوان ہوں یا بوڑھے۔ جمہوری دور دیکھ چکے ہوں یا آمریت کے ادوار کے چشم دید ہوں۔ یہ جملہ کبھی نا کبھی آپ کے کانوں سے ضرور ٹکرایا ہو گا۔ اگر پاکستان کوئی فرد ہوتا اور اپنی خود نوشت لکھتا تو اپنی زندگی میں گزرنے والے تمام حادثات و واقعات کی مکمل منظر کشی کے لیے ادبی اسلوب یقیناً ”ہارر“ ہی چنتا۔

البتہ یہ وہ ”ہارر“ ہوتا جس میں چند بڑوں کے درمیان چند ساعتی رومانس بھی دیکھنے کو ملتا خیر یہ وہی رومانس ہے جسے ہر دور کے سیاسی مخالفین ”ناجائز تعلق“ کا نام دیتے آئے ہیں۔ ”ٹیسٹ ٹیوب بے بیز“ اور ”نا لائق لاڈلوں“ اور ”سلیکٹڈ ’کی اصلاحات بھی انہیں مخالفین کی ایجاد کی گئی جو تقریباً ہر انتخابی و غیر انتخابی سیاسی دور میں سننے کو ملے۔ پاکستان کی اس خود نوشت کا ذیلی عنوان“ دلچسپ و المناک واقعات اور پراسرار ان دیکھے ہاتھوں کی داستان ”۔

یہ وہی ا‍ن دیکھے ہاتھ ہیں جو سب جانتے ہیں کہ سب سے مضبوط اور لمبے ہیں۔ اور لمبے اتنے ہیں کہ پاکستان کی پیدائش سے پہلے سے یہ ہر ایوان و عدالت کو اپنی ہتھیلیوں پر اٹھائے بیٹھے ہیں۔ یہ وہی ہاتھ ہیں جن کے سائے کے نیچے ہر وہ عوامی نمائندگی کا دعویدار آ نا چاہتا ہے جو جانتا ہے کہ عوامی پذیرائی اور رائے کی پائیداری کیا ہے!

یہ ہاتھ ہر اندرونی و بیرونی دشمن کی پہچان کے دعویدار ہیں اور اسی حیثیت سے وہ روز اول سے غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بھی جاری کرتے رہے ہیں۔ البتہ ”آزادی رائے“ اور ”آزادی آہ و زاری“ کے علمبرداروں میں سے اکثریت صرف غداری کا سرٹیفیکیٹ بنانے میں ہی کامیاب رہے۔

ان ہاتھوں کو اگر ”میری شیلے“ کے گوتھیک ناول کے کردار ”وکٹر فرینکنسٹائن“ سے تلمیح دی جائے تو غلط نہ ہو گا۔ یہ ان دیکھے مضبوط اندرونی ہاتھ وکٹر کی طرح کسی بھی مردہ سیاسی وجود میں جان ڈال سکتے یہ کسی بھی بوسیدہ ہوتی آئیڈیالوجی اور تحریک میں جان ڈال کر عوام میں ایک مقبول بیانئے کے طور پر لا سکتے ہیں۔ اور حب الوطنی، سازشی مفروضوں اور مذہب کے تڑکے لگا سکتے ہیں۔ اور سادہ لوح عوام کے ایک بڑے حصے میں جوش و ولولہ جگا کر کسی بھی لمحے متحرک کر سکتے ہیں۔

پاکستان کے سیاسی سٹیج پر ایسا کوئی بھی سیاسی و غیر سیاسی کردار نہیں گزرا جو ان ہاتھوں کے دست شفقت کے بغیر ایوانوں کی راہداریوں کو عبور کر پایا ہو۔ اور دست بوسی کے لیے کسی لمبی قطار میں کھڑے ہونے کو برا سمجھتا ہو۔ بات صرف سیا ست کے مردوں میں جان بھرنے تک محدود نہیں بلکہ ان کرداروں کی بھی ہے جن کو پہاڑوں اور مدرسوں میں چھپایا اور پروان چڑھایا گیا۔ اور بوقت ضرورت باہر نکال کر خدمات بھی حاصل کی جاتی رہی۔

خیر بات پاکستان کے ”فرینکسٹائنز“ کی ہو یا میری شیلے کے ناول کے ”فرینکسٹائن“ کی ہو دونوں کو ہی اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے گھوسٹ کے حملوں کا سامنا رہا ہے۔ چاہے وہ کوئی سیاست دان ہو جو اپنے اقتدار کو آخری دموں پر دیکھ کر اپنے ہی بنانے والوں پر جملے جاتے اور حملے کرتے عوام سے مدد کے لئے جلسہ گاہوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ چند ایک مثالوں میں یہ سیاسی بھوت کامیاب بھی ہوئے اور ایک سیاسی لیڈر کے طور پر سامنے نظر آتے بھی دکھائی دیے۔

اسی طرح ”اپنے لوگ“ کی چھتری تلے پروان چڑھنے سے خودکش بمبار زومبیز کا سفر طے کرنے والے طالب علموں کی جنونیت بھی سب نے دیکھی۔ ان سیاسی و غیر سیاسی مردوں میں جتنی بھی جان آ جائے! رسیاں پھر بھی پاکستانی ”فرینکسٹائنز“ کے ہاتھوں میں ہی رہیں گی اور وقتاً فوقتاً خود کو آنکھیں نکالتے بھوتوں کا قلع قمع کرنا جانتے ہیں۔ میری شیلے کے لکھے ”فرینکسٹائن“ نے تو ایک مونسٹر بنانے اور اس کے نتائج دیکھنے کے بعد اس کام سے توبہ کر لی تھی اور خاموشی سے چھپ کر اپنی موت کا انتظار کیا تھا۔

البتہ پاکستان کے ”فرینکسٹائنز“ مردوں میں جان بھرنے سے توبہ کرتے بالکل نظر نہیں آتے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بنائے بھوتوں کی جنونیت اور ہوس کے براہ راست اثرات ان کے خاندان اور ان پر نہیں بلکہ عوام پر ہوتے ہیں۔ ”فرینکسٹائنز“ اپنی تجربہ گاہ کو بند کر یہ بھوت بنانا کب چھوڑیں گے۔ اس کا فیصلہ تو ”فرینکسٹانز“ اور عوام کو ہی کرنا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments