گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کا امتحان شروع ہو چکا ہے


جب اختلاف رائے جرم بن جائے، عوامی عہدوں پر براجمان لوگ گردن میں سریا ڈالے خود کو عقل کل ٹھہرائے، اور یہ تقاضا کرے کہ تاریخ کا آغاز وہیں سے کیا جائے جہاں سے وہ خود چاہتے ہیں، اور جب سیاست گھر گھر پہنچ جائے، گلی گلی میں تعمیری سوچ کے بجائے ’گندی سیاست‘ کا ہی تذکرہ چھڑ جائے، جب پولو گراؤنڈ کی طرح ایوانوں اور فیصلہ ساز اداروں میں بھی شور اٹھ جائے تو دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے۔

اس خاموشی کے پیچھے دوسری وجہ یہ تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت کو سنبھلنے کا موقع فراہم کرنا ناگزیر تھا، گلگت بلتستان کا سیاسی سفر بھی اس قدر لمبا نہیں ہے کہ ماضی سے یا گزشتہ حکومتوں سے سبق سیکھنے کا گلہ کیا جائے، ہر ایک عشرے کی اپنی سیاست اور سیاسی پس منظر رہا ہے اور عملی طور پر 2009 سے موجودہ سیٹ اپ چل رہا ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی دو حکومتیں یہاں ہو گزری ہیں اس کے علاوہ اور کوئی نمونہ نہیں جس کو سامنے رکھ کر اپنا قبلہ درست کیا جائے جس کے لئے لازم ہے کہ نئی حکومت اپنی تشریحات اور ترجیحات کو عوام کے سامنے رکھیں۔

گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت کا قیام بھی ڈرامائی انداز میں سامنے آیا اور آخری دنوں تک بلکہ سپیکر، ڈپٹی سپیکر کے انتخاب تک خالد خورشید علانیہ طور پر وزیراعلیٰ کے امیدوار نہیں تھے، تھوڑا سا مزید پیچھے چلیں تو سید جعفر شاہ کی رحلت نے بھی ایک خلا پیدا کر دیا تھا اور تیاری کا نہ ہونا ایک فطری بات تھی۔

گلگت بلتستان کا نظام نام نہاد صحیح مگر منفرد ہے لیکن اسے سمجھنے کے لئے بڑے فلسفے کی ضرورت نہیں اور جن دنوں خالد خورشید گلگت بلتستان کے عبوری صوبے کی فائل لے کر گھوم رہے تھے تو اس وقت محسوس ہو رہا تھا کہ انہوں نے اس نظام کو سمجھنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور ہنگامی صورتحال سے نکل کر معمول کے معاملات کی طرف بڑھیں گے۔

گلگت بلتستان حکومت کو ڈیڑھ سال کا عرصہ مکمل ہو گیا ہے اور حکمران آئندہ دنوں اپنے دوسرے بجٹ کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ بجٹ سے پہلے مجموعی صورتحال کا جائزہ لینا ناگزیر ہے اور ان کے وجوہات کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت تھی تو جی بی حکومت نے پالیسیز پر کام کرنے اور سیاسی عمل کو لے کر آگے بڑھنے کی بجائے زیادہ توجہ مخالفین کو جواب دینے پر صرف کردی، کہیں سے کوئی تنقیدی پہلو سامنے آتا تو حکمرانوں کی کوشش رہی کہ وہ مزید بآواز بلند اس کو جواب دیں اور اتنا شور مچائیں کہ تنقیدی پہلو زیر بحث آنے سے پہلے ہی دب جائے۔

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کی یہ بھی بدقسمتی رہی ہے کہ ٹیم کا ساتھ بہت زیادہ دیر تک نہیں رہا ہے، اگرچہ اس سوال کا ہمیشہ جواب وزیراعلیٰ کے پاس موجود ہے اور اسلام آباد کی پریس کانفرنس میں بھی اس کو دہرایا ہے لیکن یہ اٹل ہے کہ دراڑیں بہت ہیں۔ مرکز کا رخ اور وزن اب بھی خالد خورشید کے ساتھ ہی ہے لیکن جی بی کی سطح پر عدم توازن کا معاملہ درپیش ہے، ہاں اپوزیشن کی جماعتیں عدم اعتماد کے نام پر جتنی بیان بازی اور ہمت کریں گے اس کا فائدہ خالد خورشید کو ہی ہونا ہے۔

اس وقت تک اگر ترقیاتی منصوبوں کی بات کی جائے تو صرف گلگت غذر روڈ ہے جس پر عملی طور پر کام کا آغاز ہوا ہے باقی چند منصوبوں پر کاغذی حرکت ضرور ہوئی ہے لیکن عملی کام نہیں ہوسکا ہے، مثلاً شغرتھنگ روڈ کے معاوضوں کے تخمینہ کے لئے کمیٹی قائم کر کے اور 7 دنوں میں رپورٹ پیش کرنے کا نوٹیفکیشن ہوا ہے لیکن ہفتہ گزر گیا کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے، اب ان میگا منصوبوں کو حکومت چونکہ عمران خان سے جوڑتی رہی ہے، اسے 370 ارب کا کمال قرار دیا ہے تو خدشہ ہے کہ عمران مخالف حکومت اس کو روک ہی نہ دے۔

رواں مالی سال کے نان ٹیکس محصولات کی مد میں مئی کے آخر تک صرف 50 فیصد اہداف حاصل کرلئے گئے ہیں جبکہ ایک مہینے میں 50 فیصد، جو کہ ایک ارب بنتے ہیں، بقایا ہیں۔ حکومتی پھیلاؤ اب بڑھ کر اسلامی تحریک تک جا پہنچا ہے، اطلاعات کے مطابق رکن اسمبلی اسلامی تحریک کو وزارت کی آفر کے ساتھ ایک غیر رکن کو مشیر لینے پر آمادگی کا اظہار کر لیا گیا ہے، اب ان غیر پارلیمانی اراکین حکومت کا حساب انگلیوں پر ہونا ممکن نہیں ہے۔ 6 کوآرڈینیٹرز کی تقرری بھی کھٹائی میں پڑ گئی ہے اور کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے۔

موجودہ حکومت کے رخ کا تعین بدقسمتی سے چیف سیکریٹری کر رہا ہے، سابق چیف سیکریٹری سخت مزاج تھے تو پورا نظام سختی میں گھرا ہوا تھا، وقت کی پابندی تھی، سویرے حاضری کا دستور تھا، فائلوں کو بھگا بھگا کر متعلقہ مقام تک پہنچایا جاتا تھا جبکہ اس سے قبل کے چیف سیکریٹری سست اور خشک مزاج کے آدمی تھے تو موجیں ہی موجیں تھیں، افسران کی۔ اب موجودہ چیف سیکریٹری متحرک آدمی ہے تو انتظامی سطح پر معاملات چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک طالبعلم کے گھر تک پہنچنے سے لیکر، ترقیاتی منصوبوں کے خود دورے کرنے، کھیل و تفریح کے میدانوں تک پہنچنے، ٹیکنالوجی بیسڈ کارکنوں کو اپنے پاس بلانے و دیگر سرگرمیوں کی وجہ سے ایک رخ نظر آ رہا ہے کہ معاملات میں دلچسپی لی جا رہی ہے۔

گلگت بلتستان حکومت کے چند امور میں دلچسپی اچھی خاصی رہی ہے اور دلچسپی جب بھی لی جاتی ہے وہ نظر آتی ہے۔ دبئی ایکسپو کے انعقاد کے لئے حکومت کی دلچسپی تھی، 12 ربیع الاول کے حوالے سے سرکاری سطح پر بڑے سطح کے پروگرام کرانے میں حکومت کی دلچسپی تھی، دو مرتبہ اسلام آباد، ایک ناکام مگر کامیاب جبکہ دوسرا کامیاب مگر ناکام، مارچ کرنے میں حکومتی دلچسپی تھی، عبوری صوبے کی فائل پر چند ماہ بڑی دلچسپی نظر آئی لیکن نتیجہ صفر رہا، چند ایک بار وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے اچانک دورے کیے اور یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ حکومت موجود ہے۔ صحت کے شعبے میں بعض اہم اقدامات اٹھائے گئے جو وقت کی ضرورت تھے۔ باقی حکومت کے تمام کارناموں کی تفصیل جی بی اسمبلی کے چہرے پر گاڑھی گئی ہے اور اپنی داستان خود سنا رہی ہے۔

مرکز میں ’تبدیلی‘ کا مثبت اثر نہ عمومی غریب پر پڑا ہے اور نہ ہی گلگت بلتستان جیسے پسماندہ خطے پر پڑا ہے۔ جن وجوہات کی بنیاد پر عمران خان کے خلاف مہم چلائی گئی، وہ چیزیں اب مرکزی حکومت کے ضمنی موضوعات بن گئے ہیں۔ گلگت بلتستان کے بجٹ میں کٹوتی اور گندم سبسڈی کی رقم کو 4 ارب تک محدود کرنا گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ صریحاً ظلم ہے۔ 2015 میں مسلم لیگ نون گندم سبسڈی کی مد میں 6 ارب روپے فکس کر گئی تھی جو بڑھ کر 9 ارب تک پہنچ گئی تھی جسے مسلم لیگ نون نے دوبارہ 4 ارب پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔

مسلم لیگ نون گلگت بلتستان خصوصی اور عمومی حزب اختلاف کی جماعتوں کو اس معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ضرورت ہے، گندم کے دانے میں یہاں اتفاق و اتحاد کی بڑی مثالیں موجود ہیں۔ 2012۔ 13 میں بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون پر الزام تھا کہ یہ سبسڈی کے خاتمے کی کوشش کر رہے ہیں اب پھر ایک دم 50 فیصد سے زائد بجٹ میں کٹوتی کردی گئی ہے جو معمولی بات نہیں ہے۔ اپوزیشن لیڈر امجد حسین ایڈوکیٹ نے تو اس کی ’توثیق‘ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حافظ حفیظ الرحمن گندم سبسڈی کی قیمت میں کمی کی تردید کرتے ہوئے شاہ خرچیوں کے بجٹ میں کٹوتی کا الزام عائد کر دیا ہے، بحیثیت سابق وزیراعلیٰ انہیں بتانا چاہیے کہ کن کن امور پر شاہ خرچیاں ہو رہی ہیں۔ وزیراعلیٰ کا امتحان اب شروع ہو چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments