بت اور بت


بنگلور ائرپورٹ پر تیس سالہ عالیہ نے سکیورٹی چیک پوائنٹ پہ پہنچ کر پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن اسے صرف طارق کی پشت نظر آ رہی تھی۔ وہ دیکھتی رہی کہ شاید طارق مڑ کر اسے دیکھے بھری آنکھوں سے کہ پتا نہیں اب کب اور کہاں ملیں گے۔ لیکن طارق ایسے ہی کھڑا رہا ایک بت کی طرح۔ ایک بھاری نسوانی آواز نے عالیہ کو چونکا دیا۔ ’میڈم، سامان اور بیگ بیلٹ پہ رکھیں۔ ‘

تھوڑی دیر بعد عالیہ بنگلور سے دوبئی کی طرف اڑی جا رہی تھی لیکن اس کی سوچیں کئی سال پیچھے کی طرف دوڑ رہی تھیں۔

طارق کے ساتھ اس نے پانچ سال ایک ہی دفتر میں کام کیا تھا لیکن عالیہ نے کبھی جذباتی انداز سے اس کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ ایک محنتی، ایماندار، قدرے شرمیلا، عورتوں سے انتہائی ادب سے بات کرنے والا۔ پھر طارق نے عالیہ سے رسمی بات چیت شروع کر دی اور عالیہ کے دل کے کسی کونے میں گدگدی شروع ہو جاتی۔ دوستوں کو محبت کی خوشبو آ گئی، گھر والوں کو بھی پتا چل گیا۔ سب تذبذب میں تھے کہ ان کی محبت کامیاب نہیں ہو سکتی۔

دو دشمن ملکوں سے منسوب یہ لوگ کہاں رہیں گے؟ اور ان دونوں نے ہمیشہ یہی جواب دیا۔ دوبئی میں۔ پھر کوئی سوال اٹھاتا۔ کب تک؟ شہریت تو وہاں نہیں ملتی اور وہاں کی سرکار کی مرضی کہ جب چاہیں ایک قلم کی جنبش سے پالیسی بدل دیں، کسی بھی ملک کے لوگوں کو ویزا دینے پہ پابندی لگا دیں۔

طارق یہ باتیں سن کر تشویش میں مبتلا ہو جاتا لیکن عالیہ بضد اور پر امید تھی کہ کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ شاید پاکستان طارق کو شہریت دے دے گا یا بھارت عالیہ کو قبول کر لے گا۔ یا دونوں کو کسی تیسرا ملک مستقل ویزا اور پھر شہریت دے دے گا۔

جذبات کی رو نے عقل کو بے بس کر دیا۔ دونوں نے محبت کی ڈور کو ایک رشتے کی مضبوط رسی میں بدل دیا۔ ایک خوابی دنیا کا آغاز، شہزادہ اور شہزادی کی سی کہانی، اسی طرح دو سال اور گزر گئے۔ اور پھر ایک بہتر ملازمت کی پیشکش جس کو طارق انکار نہیں کر سکا۔ اور وہ دن عالیہ کی آنکھوں میں ہمیشہ کے لئے سما گیا جب طارق نئی ملازمت کے لئے طبی معائنہ کے نتائج لے کر گھر میں داخل ہوا۔ وہ طارق نہیں تھا، طارق کے جسم میں کوئی اور ہی شخص تھا منہ لٹکا ہوا گردن بائیں طرف ڈھلکی ہوئی۔

اس نے حسب معمول سلام کیا اور ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح دروازے کے پاس پڑی ہوئی کرسی پہ بیٹھ گیا۔ عالیہ نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے ٹسٹ رپورٹ لی۔ ایڈز، ایڈز۔ عالیہ نے کانپتے ہاتھوں سے اس کاغذ کو پکڑا ہوا تھا جو کسی طرح سے بھی موت کے پروانے سے کم نہیں تھا۔ تین دن بعد طارق کا دوبئی کا ویزا منسوخ ہو گیا۔ اب یہ لوگ کہاں جاتے، بنگلور یا پشاور؟ عالیہ کے ایڈز ٹسٹ کا نتیجہ منفی تھا۔ بھارتی سفارت خانے نے عالیہ کو ایک سال کا ویزا جاری کر دیا۔

بنگلور، طارق کے لئے ایک مانوس جگہ لیکن عالیہ کے لئے اجنبی شہر، انجانا ملک۔ ہندو، سکھ، مسلمان سب طرح کے لوگ طارق کے دوست تھے جن میں سے کچھ کی مدد سے اسے اچھی ملازمت مل گئی۔ طارق کا علاج شروع ہو گیا اور زندگی دوبارہ رواں دواں ہو گئی۔ لیکن کب تلک! عالیہ کو پتا چلا کہ وہ کبھی بھارت کی شہری نہیں بن سکتی کیونکہ وہ ایک دشمن ملک کی باشندہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ ویزے کی توسیع کی درخواست بھی رد کر دی گئی۔ کوئی سفارش یا اعلی افسران سے تعلقات کام نہیں آئے کیونکہ یہ ملک کے تحفظ کا مسئلہ تھا۔

بہت تگ و دو کے بعد عائلہ کو معلوم ہوا کہ طارق کے لئے پاکستان میں مستقل سکونت کی اجازت جوئے شیر لانے کے برابر تھا کیونکہ وہ ایڈز کا مریض تھا۔ محبت، مرض، ملکوں کی دشمنیاں یہ سب جونکیں عالیہ اور طارق کو کاٹ کاٹ کر چوس رہی تھیں۔ عالیہ کو کبھی کبھی خیال آتا کہ اگر وہ محبت کے بت کے آگے نہ جھکتی تو آج وہ کتنی آزادی سے اڑ رہی ہوتی۔

عالیہ دوبئی سے پرواز بدل کر پشاور پہنچ گئی تھی۔ وہ طارق سے بات کرنے کے لئے بیتاب تھی۔ ائرپورٹ سے فون کیا، اپنے آبائی گھر پہنچ کر کئی مرتبہ فون کیا۔ دوسری طرف خاموشی رہی۔ ’کہاں چلا گیا میرا طارق! اس کے دوستوں کو بھی اس بارے میں کچھ علم نہیں۔ یا اللہ یہ کیا سزا ہے، ہجر کے بعد اب اس سے بھی کٹھن امتحان! کیا طارق زندہ ہے، کیا وہ بدل گیا ہے، کیا وہ مجھ کو اپنے آپ سے دور کر رہا ہے؟ میرا محبوب، میرا رفیق، میرا جیون ساتھی، میری زندگی طارق کہاں غائب ہو گیا۔ میرا طارق ایڈز کا مریض، کون اس کا خیال کرے گا! ‘ عالیہ کا سارا دن فون کو دیکھتے ہوئے گزر جاتا۔ ہر گھنٹی کی آواز پہ اس کا دل دھڑک اٹھتا اور بغیر نمبر دیکھے ہیلو طارق دہرانے لگ جاتی۔

ایک مہینہ ایسے ہی گزر گیا جس کا ہر دن ہزار برس کی قیامت کے برابر تھا۔

پورے ایک مہینے کے بعد طارق کے نمبر سے فون آیا لیکن دوسری طرف صرف رونے کی آواز تھی، اور ہچکیاں۔ ’طارق، میری محبت اتنا کیوں رو رہے ہو؟ ہم پھر کہیں نا کہیں اکٹھے ہو جائیں گے۔ تم صبر سے کام لو ورنہ تمہاری بیماری بڑھ جائے گی۔‘ عالیہ محبت بھرے بھول بولتی رہی اور طارق روتا رہا اور پھر فون بند ہو گیا۔

اگلے دن طارق کا ٹیکسٹ میسیج آیا۔ ’عالیہ مجھے معاف کر دو، میں تمہیں طلاق نامہ بھیج رہا ہوں کیونکہ تم ایک معصوم عورت میرے ملک کے لئے خطرہ ہو اور میں تمہارے ملک کی سلامتی کے لئے۔ اپنے اپنے قومی جھنڈوں کو سلام کرو، قومی ترانے گا کر معصوم محبتوں کو ہمیشہ کے لئے ان بتوں کے قدموں میں دفن کر دو۔ خدا حافظ، اب ملیں گے شاید، شاید اگلے جہاں میں! ‘

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments