ارطغرل ثانی


اب کسی کو نہیں معلوم کہ کیا ہونا ہے، فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ، فیصلہ ساز خود گومگو  کے عالم میں ہے، ’ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں‘ والی کیفیت ہے، مقتدرہ خود بحرِ گمان میں غوطہ زن ہے، ہم ناتوانوں کی تو بات ہی چھوڑیے۔

ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے، ہر طرف ایک ڈاکٹرائن کا چرچا تھا جسے دہائیوں کے تجربے کا نچوڑ بتایا جا رہا تھا، جس کی روشنی میں بڑے تدبر کے بعد عمران خان کی دس سالہ حکومت کے منصوبے پر مہرِ توثیق ثبت کی گئی، اور اہلِ حکم نے فرمایا کہ نواز شریف اور زرداری کو بھول جائیے، وہ کردار کہانی کی ضرورت نہیں رہے، انہیں اسکرپٹ سے نکال دیا گیا ہے، ختم شد۔ لیکن پھر سب نے دیکھا کہ وہی مغضوب کردار کوڑے دان سے نکلے اور مسندِ اقتدار پر فرو کش ہو گئے۔ بھک کر کے اڑ گیا وہ ڈاکٹرائن، اور دھڑام کر کے گر گیا وہ دس سالہ منصوبہ۔ (پہلے بھی ہمارے کئی الل ٹپ ڈاکٹرائن ایسے ہی عبرت ناک انجام سے دوچار ہو چکے ہیں مگر غلطیوں سے سبق سیکھنا غالباً ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں)

مقتدرہ کا دعویٰ ہے کہ جب اتحادی حکومت آ رہی تھی تو ہم دہی کھانے میں مشغول تھے، یعنی کون آرہا ہے کون جا رہا ہے یہ ہمارا مسئلہ نہیں تھا، پھر نئی حکومت کتنی دیر رہتی ہے، اگلے انتخابات کب ہوتے ہیں، یہ سیاسی فیصلے بھی حکومت کو خود کرنا تھے۔ ریٹائرڈ افسروں سے لے کر کچھ حاضر سروس لوگوں تک سبھی کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی، اسی مقصد کے حصول کے لیے کچھ یونیورسٹیوں میں خطاب بھی ہوئے اور سوال جواب کے سیشن بھی۔ لیکن اس ساری مشق کے نتیجہ میں استاد کو شاگردوں نے نئی پٹی پڑھا دی، جوان پیروں کے استاد ٹھہرے، یعنی ”دل کو جاناں سے حسن سمجھا بجھا کے لائے تھے، دل ہمیں سمجھا بجھا کر سوئے جاناں لے چلا“۔

ایک دفعہ پھر اباﺅٹ ٹرن لیا گیا اور ’جلد انتخابات‘ کو قومی مسائل کا حل تجویز کیا گیا، اور پھر حسنِ اتفاق سے پنجاب کا آئینی و انتظامی ڈھانچہ ڈانواں ڈول ہونے لگا، منصف بھی متحرک ہو گئے اور صدر صاحب نے تو مورچہ سنبھالا ہی ہوا تھا۔ نتیجتاً حکومت منجمد ہو گئی اور معیشت پگھلنے لگی، اتحادیوں نے واضح کر دیا کہ اگر انتخاب آپ کی مرضی کی تاریخ پر ہونے ہیں تو خود ہی آئی ایم ایف سے مذاکرات کریں، خود ہی پیٹرول، بجلی کی قیمت بڑھائیں، ہمیں اجازت دیجیے۔ اور اگر حکومت کو اگلے انتخاب کی تاریخ چننے کا اختیار ہے تو ہم ضروری فیصلے بھی کریں گے اور ان سخت فیصلوں کا سیاسی بوجھ بھی اٹھائیں گے، نالوں کا جواب آیا ’ منظور ہے‘۔ یعنی، داناﺅں نے ایک مرتبہ پھر فیصلہ بدلا۔ (یونانیوں کو سسی فس اتنا یاد نہیں آتا ہوگا جتنا ہمیں آتا ہے)

تو پھر کیا اب یہ سمجھا جائے کہ معاملات بہ خوش اسلوبی طے پا گئے ہیں اور موجودہ حکومت مدت پوری کرے گی یا اس سے پہلے جب چاہے گی اپنی پسند سے موزوں وقت کا انتخاب کر کے انتخابات کا اعلان کر دے گی؟ کیا فیصلہ ساز قوتیں جو پچھلے چھ ماہ میں کم از کم تین بار اپنا قبلہ تبدیل کر چکی ہیں، اب ثابت قدم ہو جائیں گی؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ذہانت شرط نہیں ہے۔ فیصلہ ساز حلقے کسی آن بھی حلقہ فکر سے میدانِ عمل میں آنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، دو ووٹوں پر کھڑی حکومت کو گھر بھیجنا چٹکی بجانے سے زیادہ وقت نہیں مانگتا۔ کہہ یہ رہا ہوں کہ اگر آپ اور میں منتشر الدماغ ہیں اور نہیں جانتے کہ اگلا الیکشن کب ہو گا تو خاطر جمع رکھیے، ہماری کشتی میں فیصلہ ساز بھی سوار ہیں، وہ بھی بے یقین ہیں، وہ بھی بے سمت ہیں، وہ بھی ہماری طرح ہی منظر کو غور سے دیکھ رہے ہیں تاکہ کسی فیصلے پر پہنچ سکیں۔ بہرحال، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اگر اتحادی حکومت پر دباﺅ نسبتاً کم بھی ہو گیا پھر بھی الیکشن مقررہ وقت سے پہلے ہونے کے امکانات کہیں زیادہ ہیں۔

سیاست کی نیرنگیاں بھی عجیب ہیں، مثلاً، عمران خان فوری الیکشن کے لیے جتنا دباﺅ ڈال رہے ہیں الیکشن اتنا ہی دور ہوتا جا رہا ہے، حکومت جانتی ہے کہ عمران خان کے دباﺅ میں آ کر الیکشن کروانے سے عمران اور بپھر جائیں گے، اسے ان کی جیت سمجھا جائے گا، جو الیکشن میں انہیں مومینٹم فراہم کرے گا، اسی لیے حکومت اور عمران خان آخری حد تک جا کر کھیل کا یہ مرحلہ جیتنا چاہتے ہیں، پنجہ آزمائی جاری ہے، پہلے عمران نے اپنے جلسوں اور پھر لانگ مارچ والے دن تک کامیابی سے حکومت پر دباﺅ ڈالا، مگر پھر انہیں دھرنے کے بغیر پلٹنا پڑا، جسے نہ صرف ان کے مخالفین نے ’عظیم الشان پسپائی‘ سے تعبیر کیا، بلکہ ان کے غیر مشروط حامیوں نے بھی اس منظر کو حیرت اور صدمے سے دیکھا۔ عمران خان میدان سے لوٹتے ہوئے ’میں چھ دن بعد پھر آﺅں گا‘ کا اعلان کر گئے، مگر اس پر بھی عمل نہیں کر سکے۔ خان صاحب بھی فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ حکومت کو کیسے مجبور کریں، دھرنے کے لیے پہلے والی سہولتیں اب صارف کو میسر نہیں ہیں، کئی نمبر بلاک ہو گئے، کئی اے ٹی ایم مشینیں آﺅٹ آف سروس ہو چکی ہیں، اور پھر کئی ٹی وی چینل بھی حاضرین جلسہ کی صحیح تعداد بتانے کے لیے بے قرار نظر آرہے ہیں۔ اس صورت حال میں اگر خان صاحب سپریم کورٹ کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں تو حیرت کیسی۔

دوسری طرف عمران خان اپنی تیز دھار سیاست بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کے ساتھی، خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ محمود خان فرماتے ہیں کہ لانگ مارچ کے اگلے مرحلے میں اب صوبائی حکومت کی فورس بھی استعمال کی جائے گی۔ جی یہ ارشادات عمران خان کے شاگردِ رشید محمود خان کے ہیں، اور بہ ظاہر بہ قائمی ہوش و حواس دیے گئے ہیں، ہم تو مذاق سمجھتے تھے، عمران خان تو واقعی ارطغرل ثانی نکلے، خدا خیر کرے، صدیوں کہ بعد شمال سے حملے کی دھمکی آئی ہے۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments