معاشرے میں اسلامی ٹچ کا جھانسا


مذہب کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کیسے ہے؟ ان سوالات کے جواب میں آپ کے ذہن میں جو شبیہ آئی اسے جاننے کے لیے کوئی لمبی چوڑی علمی استعداد رکھنے والا شخص ہونا ضروری نہیں میرے جیسا عام سا طالب علم بھی اپنے ادنی سے مشاہدے کی بنیاد پر یہ جان سکتا ہے کہ مذہب اور مذہبی یا اسلام اور اسلامی ہونے سے متعلق ہمارے ہاں اکثریتی ذہنوں میں چند مخصوص خاکے ابھرتے ہیں ایک خاص الخاص بیانیہ ابھرتا ہے جس میں خاص ظاہری ہیئت کے لوگ مخصوص عبادات میں مشغول پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟

اسلام عرب سے نکل کر دنیا کی مختلف تہذیبوں میں پہنچا مثال کے طور پر اپنے ہاں دیکھا جائے تو بڑی تہذیبیں ہیں ایک فارسی/ ایرانی دوئم ہندوستانی۔ ان دونوں تہذیبوں کی جغرافیائی نفسیات کا گہرا اثر یہاں پر رائج اسلام میں نظر آتا ہے جسے اہل دانش ایران میں Persianization of Islam یعنی اسلام ہر فارسی اثرات اور ہند میں Indianaiztion of Islam یعنی اسلام پر ہندوستانی اثرات سے تعبیر کرتے ہیں۔ فارسی تہذیب ادبی لحاظ سے بہت ارفع ہے سو وہاں پر اسلام میں شعر و ادب اور سخن وری کے گہرے اثرات ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہندوستانی تہذیب و تمدن میں تصویر سازی، مصوری اور اصنام گری وغیرہ۔

خدا کا دین حضرت آدم ع سے لے کر رسالت ماب ص تک کتاب کے گرد گھومتا عمل کی مشق کا نام ہے۔ خالصتاً علمی و فکری بنیادوں پر باطنی و روحانی تطہیر کا یہ دین جب ایک ایسی تہذیب میں پہنچا جہاں جغرافیائی نفسیات ظاہر و ظہر ہی کی جذباتیت کے گرد گھومتی ہے تو یہاں میری طالب علمانہ نگاہ میں ہماری بد قسمتی کہ پیغمبر اسلام ص کے تربیت یافتہ لوگوں جیسی وہ شخصیات دستیاب نہیں تھیں جو اس نفسیات کو اسلام کے مطابق ڈھال سکیں نہ کہ الٹا اسلام کو اس نفسیات اور انداز فکر سے مغلوب ہونے دیں۔ بلکہ رائج اسلام کی جن روایات و واقعات سے یہاں کا لٹریچر بھرا پڑا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ یہاں اسلام کو پھیلانے والی کئی شخصیات نے اس امر سے حظ اٹھایا۔

جب اسلام چند ظاہری نمود و نمائش کی چیزوں کا نام بن گیا تو یہ خدا کا مطلوبہ خالصتاً علمی و استدلالی بنیادوں پر اس کی خشیت اور محبت کے توازن والا دین نہیں رہا بلکہ یہاں کے مذہبی پیشواؤں کی منشا کے مطابق ظاہری نمود و نمائش پر مبنی ایک ریاکاری کا مجموعہ سا بن کر رہ گیا جنہوں نے اس کا محور نیت کی جگہ دکھاوے کو بنا دیا۔ عقل کی جگہ جذباتیت کو۔

خدا انسانیت سے کلام کرتے جگہ جگہ کہتا ہے۔ عقل کرو، عقل سے کام لو، کیا تم عقل نہیں رکھتے، کیا تم تدبر نہیں کرتے، میری نشانیوں پر غور کرو۔ اور تھوڑا سا بساط بھر غور کرنے کے بعد طالبعلم اس نتیجے پر پہنچا کہ جذباتیت اور عقل دو ایسی تلواریں ہیں جو ایک فکری نیام میں نہیں رہ سکتیں۔ برصغیر میں رائج مذہبی فکر اپنے ماننے والوں سے سب پہلے پیروی کے خراج کے طور پر پر جس شے کو اپنے پاس گروی رکھ لیتی ہے وہ یہی عقل ہی ہے۔ اب ظاہر ہے جس نے اپنی عقل ہی عقیدت کے عوض رہن رکھ دی ”افلا یعقلون“ کا مخاطب وہ تو ہونے سے رہا۔

اب جب یہ دکھاوا ہی دراصل دین ٹھہرا تو یہ نمود و نمائش ایک پیمانہ بن گئی۔ زیادہ ابتر حالت تب ہوئی جب اسے بطور پیشہ اپنا لیا گیا۔ اور پیشہ ورانہ نظام میں سب سے بڑی چیز ہے برینڈنگ اور مارکیٹنگ۔ برینڈنگ کے طور پر یہاں فرقہ بازی ہے اور مارکیٹنگ کا تو پوچھیے مت۔ ہر کوئی موقع کی تلاش میں ہے کہ کب کہاں کیسے مذہب کو بیچا جائے۔ افسوس کہ خدا نے خدائی سے خود کو نہ بیچنے کا کہا اور خدائی نے خود خدا ہی کو بیچ ڈالا۔

آپ حکمت خانوں کے سامنے سے گزرے ہوں گے۔ آپ نے شہد بیچنے والوں کے اشتہار پڑھے ہوں گے۔ آپ نے بس میں چڑھنے والے کسی سرمہ یا پھکی فروش کی گفتگو ملاحظہ کی ہو گی۔ آپ نے عمرہ پیکیج والی کسی ٹریولنگ کمپنی کے اشتہار کا مشاہدہ کیا ہو گا۔ آپ نے روزانہ کی بنیاد پر مختلف امور کے لیے چندہ مانگنے والوں کی باتیں بھی سنی ہوں گی اور آپ نے کسی سیاستدان کو اپنی تقاریر میں مذہب کارڈ کا استعمال کرتے بھی دیکھا ہو گا۔ یہ سب لوگ کیا کرتے ہیں یہ دراصل اپنے کاروباری مفادات کو وہ ”اسلامی ٹچ“ دیتے ہیں جس سے اسی جغرافیائی نفسیات کی بنا پر عقیدت پیدا ہوتی ہے ایک عقیدت مند پیروی کرتا ہے نعرہ لگاتا ہے جذبات و احساسات پیش کرتا ہے اور اس اسلامی ٹچ کے جھانسے میں سودا خرید لیتا ہے جو کہ بیوپاری کی اصل منشا ہوتی ہے لیکن عقل رکھنے والا پرکھتا ہے سوال کرتا ہے سوچتا سمجھتا ہے اور پھر استدلال کی بنیاد پر تجزیہ کرتا ہے جو کہ اس کو بہتر حکمت عملی وضع کرنے میں مدد دیتا ہے۔

اگر ہم واقعی میں اس اسلامی ٹچ کے جھانسے سے نکل کر اپنے سماج کو ایک بہتر انسانی معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف ایک کام کرنا ہے اور وہ یہ کہ اسلام جیسے اخلاص نیت پر مبنی علم و عمل کے دین کو ایک مصنوعی ملمع کاری کے ٹچ کے لیے نہ خود استعمال کرنا ہے نہ دوسروں کو اس کی اجازت دینی ہے۔

ہمیں اپنی عقل کو عقیدت کی قید سے آزاد کرنا ہے۔ ہمیں اسلام کو دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے نہ استعمال کرنا ہے نہ کرنے دینا ہے۔ ہمیں خالصتاً اس بنیاد پر فیصلہ اور تجزیہ کرنا ہے جس بنیاد پر ہمیں خدا کہتا ہے جس پر ہم اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ ہے شعور۔ ورنہ معاشرے کا ہر کاروباری اپنے مفادات کو اسلامی ٹچ دیتا رہے گا اور ہم مرعوبیت، عقیدت اور تقلید میں اس کے گروہی، مسلکی، مذہبی، کاروباری اور سیاسی مفادات کے چولہے میں بطور ایندھن استعمال ہوتے رہیں گے۔

اس ضمن میں ایک فی البدیہہ شعر۔
وہ جو اسلام تھا پیمانۂ حق سچ کے لیے
اب ہے تقریر میں بس مذہبی اک ٹچ کے لیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments