تحریک انصاف کی معاشی کارکردگی اعداد و شمار کی روشنی میں


آج کل معیشت کے حوالے سے خوب زور و شور اور گرما گرمی سے بحث و تکرار ہو رہی ہیں۔ اتحادی جماعتوں کی حکومت اور ان کے ووٹرز و سپورٹرز کا کہنا یہ ہے کہ معیشت میں اس وقت کا بحران صرف اور صرف تحریک انصاف کی وجہ سے آیا ہوا ہے، جبکہ اس کے جواب میں تحریک انصاف کے ووٹرز اور سپورٹرز کا کہنا ہے کہ یہ سب سیاسی عدم استحکام کے مرہون منت ہے ورنہ تحریک انصاف نے سنبھالا ہی ہوا تھا۔ ہم نے سوچا ہم کیوں پیچھے رہ جائیں، تو ہم آج تحریک انصاف کی طرف سے کی گئی معاشی اصلاحات کے پیش نظر چیدہ چیدہ اہم معیارات کے ذریعے تحریک انصاف کی معاشی کارکردگی جانچنے کی کوشش کریں گے۔

سب سے پہلے اس الزام کو لیتے ہیں جو کہ اتحادی جماعتوں کی حکومت اور ان کے ووٹرز و سپورٹرز کی طرف سے کیا جا رہا ہے کہ ہمیں تحریک انصاف کی حکومت نے تباہ حال معیشت دی اور اس وقت سٹاک ایکسچینج کی مسلسل گراوٹ اور روپے کا ڈالر کے مقابلے میں اتنے کم دورانئے میں اتنی زیادہ قدر کھونا سب کچھ تحریک انصاف کی وجہ سے ہے۔ اس سوال کے جواب کئی طرز سے دیے جا سکتے ہیں مگر میرے خیال میں مضمون کے طول و عرض کو محدود رکھتے ہوئے ہم مسلم لیگ نون کی حکومت کے اعداد و شمار کا تحریک انصاف کی حکومت کے اعداد و شمار سے موازنہ کر لیتے ہیں۔ سامنے نظر آ جائے گا کہ کیا یہ الزام درست ہے یا صرف سادہ لوح عوام کے لئے بھرتی کا دعوی۔

TABLE 1

شرح نمو پچھلے مالی سال میں اور اس جاری مالی سال میں 6 % کے آس پاس ہے، دس ماہ کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مسلم لیگ نون کی حکومت کے پورے سال کے چھوڑے ہوئے خسارے سے 5 ارب ڈالر کم ہے، حتی کہ اگر ان دس مہینوں کے خسارے کو پورے سال پر بھی پھیلایا جائے تب بھی یہ 16.5 ارب ڈالر بنتا ہے، جو کہ پھر بھی تقریباً 3 ارب ڈالرز کم ہو گا نون کی حکومت سے۔ خالص سٹیٹ بنک کے ذخائر بھی تقریباً 2 ارب ڈالرز زیادہ ہیں (مہینے کے آخر کے ذخائر اس لئے ہیں کہ آگے غیر ملکی قرضہ جات والے ٹیبل میں قرضہ بھی مارچ کے مہینے کے آخر کا لیا ہے، اگر کسی سیانے کی ضد پر آٹھ اپریل کے ذخائر بھی لے لیں تب بھی 1.3 ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر بنتے ہیں ) ۔

اب سوال یہ ہے کہ کرونا جیسی عالمی وبا کے بعد بھی دو سالوں کی شرح نمو چھے کے آس پاس، اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بہت کم، اور ذخائر زیادہ، تو تب بھی اگر تحریک انصاف کی حکومت معیشت تباہ چھوڑ گئی ہے تو کیا کوئی ماننے کو تیار ہے کہ نون کی حکومت 2018 میں بدرجہ اولیٰ تباہ حال معیشت چھوڑ کر گئی تھی؟ اگر کسی کے نزدیک نون والے تباہ حال معیشت نہیں چھوڑ کر گئے تھے تو خاطر جمع رکھئے، اسی اصول کے تحت تحریک انصاف بھی تباہ حال معیشت نہیں چھوڑ کر گئی۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے نزدیک تو پھر بھی نون لیگ کی حکومت معیشت مشکل میں چھوڑ کر گئی تھی اور اب بھی اوپر دیے گئے اشاریے کوئی بہت زیادہ بہتر نہیں ہیں تو کیا تحریک انصاف نے بھی معیشت مشکل میں منتقل کی۔ تو اس کا جواب بہت واضح ہے۔ اس سال کے نو مہینے کی پٹرولیم مصنوعات کی درآمد 12.7 ارب ڈالرز کی تھیں جبکہ 2018 کے پورے سال میں یہ 13.2 ارب ڈالرز کی تھیں، ایک تو کرونا کے بعد سے عالمی مہنگائی اور روس اور یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے ان مصنوعات کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے اس کی وجہ سے امپورٹ بل بڑھا اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا چلا گیا جبکہ ذخائر کم ہوتے چلے گئے۔

دنیا میں اس وقت جو عالمی مہنگائی کا بازار گرم ہے اس کی وجہ سے بھی امپورٹ بل بڑھتا چلا گیا جس پر گورنمنٹ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے، مثلاً 2017۔ 18 میں خوراک والی چیزیں 5.5 ارب ڈالر کی امپورٹ کی گئیں جبکہ یہی امپورٹس اس جاری مالی سال کے نو مہینے کی 6.3 ارب ڈالر ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کرونا کی اور یوکرائن جنگ کی وجہ سے مہنگائی نہ ہوتی تو ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم از کم 1.5۔ 2 ارب ڈالر سے کم ہوتا اور اتنے سے ہی ذخائر زیادہ ہوتے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ عالمی مہنگائی کے شاخسانوں کو تو آپ تحریک انصاف کے سر نہیں منڈھ سکتے۔

پھر یہاں یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان ساڑھے تین سالوں میں ترسیل زر میں اور ایکسپورٹس میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور ڈالر بھی مارکیٹ کے مطابق اپنا ریٹ بنا رہا ہے جس سے امپورٹس مہنگی ہوتی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ قدرے قابو میں ہے، ورنہ جیسی معیشت کی ساخت نون چھوڑ کر گئی تھی، اب تک غدر مچ گیا ہوتا۔ اب جو مسائل نئی حکومت کو سامنا کرنے پڑ رہے وہ اصل میں پالیسی کا ابہام، سیاسی عدم استحکام اور تیل کی مسلسل بڑھتی قیمت کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا اور بڑھ جانے کا خوف ہے جبکہ نئی حکومت کی وجہ سے آئی ایم ایف بھی نئے سرے سے مذاکرات شروع کر رہا ہے۔

اس سب کی بڑی وجہ ہی یہی ہے کہ نئی حکومت کو ابھی خود بھی اندازہ نہیں ہے کہ وہ کتنی دیر کے لئے آئے ہیں اس لئے وہ فیصلے لیتے ہچکچا رہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ منی مارکیٹ، سٹاک مارکیٹ اور فاریکس مارکیٹ انویسٹرز اور ڈیلرز کے اعتماد پر اور حکومت کی پالیسی کے رجحان پر اپنا راستہ بناتی ہیں۔ جب غیر یقینی صورتحال ہوگی، جب پالیسی واضح نہیں ہوگی، جب عالمی مہنگائی ہر وقت ڈنگ مار رہی ہوگی تو یہی سب کچھ ہو گا جو آج کل ان مارکیٹس میں ریٹس کے ساتھ ہو رہا ہے۔

یہاں اس بات کا ذکر فائدے سے خالی نہیں ہو گا کہ تحریک انصاف کا پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے کا فیصلہ میری ذاتی رائے میں ایک غلط فیصلہ تھا اور اگر ان کی حکومت نہ بھی جاتی تب بھی آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران مسئلہ ضرور ہوتا مگر نئی حکومت کے آنے کے بعد اور ان کا اس فیصلے کو سیاسی رنگ دے دینے کے بعد یہ مسئلہ دوچند ہو گیا۔ اوپر سے خام تیل کی قیمتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ مگر یہاں نئی حکومت سب الزام تحریک انصاف پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتی کیونکہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے فوری بعد ستائیس مئی کو تیس روپے سے پٹرول بڑھایا (جو کہ بہت اچھا کیا) جس سے سبسڈی فی لیٹر سترہ روپے رہ گئی، مگر یکم جون کو پٹرول کی قیمت نہیں بڑھائی جس سے سبسڈی فی لیٹر انتالیس روپے ہو گئی۔ لہذا نئی حکومت اب خود بھی گوڈے گوڈے اسی پاپولسٹ فیصلوں کو برقرار رکھ رہی ہے جو کہ تحریک انصاف نے کیا تھا۔

موقع کے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم آپ کو ایک چیز اور سمجھائے دیتے ہیں۔ آپ نوٹ کریں کہ جب جب شرح نمو بڑھتی ہے تب تب ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ معیشت کی تھوڑی بہت سمجھ رکھنے والے کو بھی اندازہ ہے کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ یہی نون لیگ کی حکومت کی سب سے بڑی غلطی تھی اور شوکت ترین کو مشیر خزانہ بنانے کے بعد سے تحریک انصاف بھی اسی گروتھ کی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔ ہمیں امپورٹ والے کھپت کے گروتھ ماڈل سے نکلنا ہو گا ورنہ ہر کچھ سال بعد اسی طرح ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔

اس لمبی چوڑی تمہید کے بعد ہم تحریک انصاف کی معاشی کارکردگی پر مختصراً بات کرتے ہیں۔

شرح نمو (جی ڈی پی گروتھ ریٹ) : مسلم لیگ نون کی حکومت کے آخری دو مالی سالوں یعنی چوتھے ( 2016۔ 17 ) اور پانچویں ( 2017۔ 18 ) مالی سال میں شرح نمو بتدریج 4.61 % اور 6.10 % رہی ہے۔ یہ گروتھ ریٹس بنیادی سال کی تبدیلی کے بعد کے ہیں۔ بنیادی سال کی تبدیلی سے پہلے یہ بتدریج 5.22 % اور 5.53 % تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے تیسرے مالی سال ( 2020۔ 21 ) میں شرح نمو 5.74 % رہی اور چوتھے مالی سال ( 2021۔ 22 ) میں شرح نمو 5.97 % متوقع ہے۔

یہ سب ڈیٹا ادارہ شماریات پاکستان کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم سارے ساڑھے تین سال یہی رٹا رٹایا جملہ سنتے رہے کہ تحریک انصاف نے گروتھ کم کر دی، ملک تباہ ہو گیا، سب کچھ کھو گیا، ترقی رک گئی وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ وہ صحافی جن کو معیشت کا اتنا ہی پتا ہے جتنا فوج کو جمہوریت کا پتا ہے وہ بھی ادھر ادھر سے کچی پکی معلومات لے کر معیشت کی خرابی کا رونا روتے رہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے زمانے میں گروتھ ریٹ مسلسل دو سال ساڑھے پانچ سے اوپر رہا ہے اور خاص کر کرونا جیسی عالمی وبا کی تباہ کاریوں کے باوجود، اور ایسا اکیسویں صدی میں پہلے صرف مشرف کی حکومت میں ہوا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے ساتھ جی ڈی پی گروتھ پر ہم اپنا نکتہ نظر پہلے ہی دے چکے ہیں کہ یہ گروتھ مستحکم اور پائیدار نہیں ہوتی، چاہے مسلم لیگ نون کی حکومت کی ہو یا تحریک انصاف کی حکومت کی ہو۔

ایکسپورٹس (برآمدات) : ہمارے ہاں ایک عرصے سے ایکسپورٹس کے معاملے میں بنگلہ دیش کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ریت ہے۔ لیکن ہماری ایکسپورٹس کو بڑھانے کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے کبھی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، بلکہ مسلم لیگ نون کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کے نزدیک تو ایکسپورٹس اتنی اہم ہی نہیں ہیں کہ ان پر توجہ دی جائے، بلکہ ڈالر ریٹ کے حوالے سے تو ان کی پالیسی ایکسپورٹس نہ بڑھنے کی اہم وجہ ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں میں پیپلز پارٹی کے دور میں ایک سال 2010۔11 میں ایکسپورٹس پچھلے سال کی 19.7 بلین ڈالر سے بڑھ کر 25.4 بلین ڈالر ہوئی تھیں۔ نون لیگ کی پورے پانچ سال میں سالانہ ایکسپورٹس اوسطاً 23.4 بلین ڈالر رہیں۔ تحریک انصاف کی مختلف پالیسیز کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے اس ذکر کردہ ایک سال کے بعد پہلی دفعہ ایکسپورٹس میں صحتمند اضافہ نظر آ رہا ہے۔ ابھی تک دس مہینوں کی ایکسپورٹس 26.9 بلین ڈالر ہیں، جو کہ پورے سال میں 32۔ 33 بلین ڈالر کے قریب ہوں گی۔ میری ذاتی رائے میں مسلم لیگ کی حکومت آنے کا سب سے زیادہ نقصان ایکسپورٹ سیکٹر کو ہو گا، جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پہلے سے اور زیادہ ہو جانے کی توقع ہے، جو کہ پاکستان کے لئے سم قاتل ہے۔

ترسیلات زر (Home Remittances) : بیرونی ممالک میں رہنے والے پاکستانی جب پاکستان میں اپنے خاندان کو پیسے بھجواتے ہیں تو اسے ترسیل زر کہتے ہیں۔ پہلے ہم یہ بتا دیں کہ ترسیل زر حکومت کے لئے اہم کیوں ہوتا ہے۔ جب اوورسیز پاکستانی باہر سے ڈالر، یورو، پاؤنڈ، ریال، درہم وغیرہ بھجواتے ہیں تو بنک پاکستان میں پیسے لینے والے کو پاکستانی روپے دیتا ہے اور فارن کرنسی حکومت کے پاس تجارتی خسارہ فنڈ کرنے کے کام آتی ہے۔ اس ترسیل زر میں پچھلے دو تین سالوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جیسا کہ نیچے دی گئی تفصیل سے ظاہر ہے۔ تمام رقوم ارب ڈالرز میں ہیں۔

Table 2

ایک سرسری نظر ڈالنے سے عیاں ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت کے آخری چار سال کے دوران ترسیل زر میں مطلق اضافہ صرف 6 % رہا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کی حکومت کے دوران یہ اضافہ 44 % بنتا ہے۔ ازراہ تفنن ذکر کر رہا ہوں کہ جب ترسیلات زر بڑھنا شروع ہوئیں تو یار لوگوں کو لالے پڑ گئے کہ اب اس کی کیا توجیہہ کریں۔ کیونکہ تحریک انصاف کو تو کریڈٹ دینا نہیں تھا، پھر ایسے ایسے بعید از حقیقت دلائل سنے کے افسوس ہوا کہ صرف کریڈٹ نہ دینے کے لئے کس قدر زک اٹھائی جا رہی ہے۔ کرونا آنے سے پہلے والے سال میں بھی 9 %کا اضافہ ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ صرف اور صرف کرونا وجہ نہیں ہے۔ کرونا کی پابندیوں کے علاوہ، حکومت نے ترسیل زر کو آسان بنانے کے لئے بہت سے اقدامات کیے جن کا حاصل وصول بڑھی ہوئی ترسیلات زر کی صورت میں برآمد ہوا۔

روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ: اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میں انویسٹمنٹ کرنے کی ترغیب دینے کے لئے ڈاکٹر رضا باقر کی سربراہی میں سٹیٹ بنک آف پاکستان نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ متعارف کرایا جس سے نہ صرف یہ کہ پاکستان میں قیمتی زر مبادلہ آیا بلکہ ایک نیا اور پائیدار راہ اکانومی کی ترقی کی حاصل ہوئی جس سے قرضہ جات پر انحصار کم ہوا۔ ستمبر 2020 میں جب یہ شروع کیا گیا، تب سے لے کر اپریل 2022 تک روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں چار لاکھ سے زیادہ اکاؤنٹ کھل چکے ہیں اور چار بلین ڈالر سے زیادہ کی خطیر رقم اکٹھی کی جا چکی ہے۔

ٹیکس آمدنی: کسی بھی حکومت کا سب سے بڑا کمائی کا ذریعہ ٹیکس ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکس کا کلچر کبھی بھی پنپ نہیں سکا، ود ہولڈنگ اور سیلز ٹیکس وغیرہ کے ذریعے جمع کیا گیا ٹیکس ہی زیادہ پورشن ہے مجموعی ٹیکس میں۔ ٹیکس کی تفاصیل ہم نیچے ٹیبل میں دیکھ سکتے ہیں۔

Table 3

اب ہوتا یوں ہے کہ ٹیبل کے صرف آخری کالم پر نظر ڈال کر اور ٹیکس کے جی ڈی پی کے تناسب کو مسلم لیگ نون کے آخری سال سے موازنہ کر کے رولا ڈال دیا جاتا ہے کہ لٹ گئے برباد ہو گئے، ساری ترقی کھو کھاتے ڈال دی وغیرہ وغیرہ۔ اب کون تفاصیل میں جائے اور وجوہات تلاش کرے کہ ایسا کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ تناسب کم ہو کر پھر بڑھنا شروع ہوا ہے۔

2018۔ 19 پہلا سال تھا تحریک انصاف کی حکومت کا اور مسلم لیگ کے چھوڑے ہوئے پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور اس کی وجہ سے گرتے ڈالر کے ریٹ کے پیش نظر جو مہنگائی ہوئی اس کو کنٹرول کرنے کے لئے شرح سود بڑھانی پڑی جس سے اکانومی سست روی کا شکار ہوئی، جس سے ظاہر ہے پی اس ڈی پی کم ہوا اور نتیجے کے طور پر کانٹریکٹس پر ٹیکس کم موصول ہوا اور جس کا اثر تعمیرات کے شعبے سے حاصل ہونے والے ٹیکس پر بھی پڑا۔ کارپوریٹ ٹیکس کا ریٹ تیس فیصد سے انتیس فیصد پہلے سے ہی ہونا منظور تھا جس سے کارپوریٹ انکم ٹیکس کی وصولی متاثر ہوئی۔

اس کے علاوہ مالی سال 2017۔ 18 میں نوے ارب روپے ایمنسٹی سکیم سے ون آف حاصل کیے گئے تھے اور ساتھ ہی اگلے سال کے لئے مفتاح اسماعیل صاحب نے تنخواہوں پر ٹیکس خاطر خواہ کم کر دیا (الیکشن کے لئے چلی گئی چال) جس کی وجہ سے 2018۔ 19 میں صرف تنخواہوں پر ساٹھ ارب روپے کا ٹیکس کم حاصل ہوا۔ اوپر سے عدالتوں نے پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح نمایاں طور پر کم کر دی، اور موبائل فون پر ودہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی کر دی جس سے کم از کم بھی ایک سو تیس ارب کا ٹیکس کم موصول ہوا۔ پی ایس ڈی پی کی وجہ سے کم وصول کردہ ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس کی ایک فیصد کی کمی کو اگر الگ بھی رکھ لیں تب بھی یہ ون آف آئٹمز (کچھ اور بھی ہیں ) تقریباً تین سو ارب روپے کے بنتے ہیں۔ مگر یار لوگ ان سب وجوہات کی وجہ سے ٹیکس میں کمی بھی تحریک انصاف کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔

اگلا سال ویسے بھی کرونا کا تھا، لہذا لاک ڈاؤن اور اکانومی بند ہو جانے کی وجہ سے ٹیکس کی وصولی میں بھی خاطر خواہ فرق پڑا۔ اس کے بعد کے دونوں سالوں میں ہمیں صاف نظر آ رہا ہے کہ ٹیکس کی بڑھوتی کی شرح جی ڈی پی کی بڑھوتی کی شرح سے زیادہ ہے اور اسی لئے ٹیکس کا جی ڈی پی سے تناسب بھی بہتر ہو رہا ہے۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اوپر بتائے گئے بہت سے ون آف سے اگلے سال بھی متاثر ہوئے مثلاً 2017۔ 18 میں پٹرولیم مصنوعات کی درآمدی قیمت 1.27 ٹریلین روپے تھی جبکہ اس پر سیلز ٹیکس 264 بلین روپے تھا، جو کہ تقریباً 21 % بنتا ہے۔ جبکہ 2020۔ 21 میں پٹرولیم مصنوعات کی درآمدی قیمت 1.86 ٹریلین روپے تھی جبکہ اس پر سیلز ٹیکس 256 بلین روپے تھا، جو کہ تقریباً 14 % بنتا ہے۔ یعنی عدالتی فیصلے کی وجہ سے تین سال میں درآمدی قیمت 46.5 % بڑھ جانے کے بعد بھی ٹیکس 3 % کم ملا ہے۔

اسی طرح ایک اور مثال دیتا چلوں کہ 2017۔ 18 میں وہ درآمدات (جن پر ڈیوٹی لگ سکے ) کی مجموعی رقم 3.4 ٹریلین روپے تھی (پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ) ، اور ان پر انکم ٹیکس 218.7 بلین روپے تھا، اور 2020۔ 21 میں ڈیوٹی والی درآمدات (پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ) کی مجموعی رقم 3.5 ٹریلین روپے تھی اور ان پر انکم ٹیکس 218.5 بلین روپے تھا۔ اس سے یہ واضح ہو گیا ہو گا کہ ٹیکس کی وصولی میں زیادہ تر کمی پٹرولیم کے ودہولڈنگ ٹیکس میں عدالت کی طرف سے کٹوتی، اور درآمدات کی قیمت چار سال میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2