صورت حال سنبھالنے کا آخری موقع نواز شریف کی حکومت میں ملا تھا


ملکی صورتحال سنبھالنے کا آخری موقع اکتوبر 2016 میں ڈان لیکس کے وقت ملا تھا جب نواز شریف نے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان اپنی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں تنہا ہو رہا ہے اور ملک سنبھالنا ہے تو پالیسی تبدیل کرنا ہو گی۔

اس بات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی بجائے نواز شریف کو ہٹانا بہتر سمجھا گیا اور عمران خان کو لایا گیا۔ پھر واقعی جب امریکہ افغانستان کے معاملے میں بلیک میل نہ ہوا اور اپنا بوریا بسترا لپیٹ کر نکل گیا تو ہمیں پتہ لگا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔ جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست بھی مودی کو جپھیاں ڈالتے اور ترکی اور چین جیسے ساتھی فیٹف میں ہمارے خلاف ووٹ ڈالتے دکھائی دیے تو وہ بات کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی جو نواز شریف نے 2016 میں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

سیاست دان کی نظر مستقبل قریب پر نہیں مستقبل بعید اور بڑے منظر نامے پر ہوتی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا جب وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے سامنے چند جرنیلوں نے کارگل آپریشن پر حملے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز جنرل مشرف کا کہنا تھا کہ وہ سری نگر اسمبلی پر پاکستانی جھنڈا لہرا دیں گے۔ بے نظیر کی نظر اس سے بہت آگے دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ عالمی برادری ہمیں واپس اپنی پوزیشن پر جانے پر مجبور کر دے گی۔ بعد میں جنرل مشرف کے آرمی چیف بننے کے بعد ایسا ہی ہوا۔ اور ایسا کرنے کی بھاری قیمت پاکستان نے چکائی۔

اب عوام کو جس طرح مہنگائی کے سیلاب میں ڈبویا جا رہا ہے اس کا بھار صرف سیاست دان نہیں اٹھائیں گے۔ ابھی سے سرکاری ملازمین کی مراعات کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ جب اگلے مہینے کا بجلی کا بل آئے گا اور تیل کی قیمت جو آگ بھڑکائے گی اس سے لوگوں کے چولہے ٹھنڈے ہوں گے تو اس آگ کے شعلے وہیں پہنچیں گے جہاں ڈان لیکس کا فیصلہ ہوا تھا۔ بہرحال ہم نے ابھی بھی سبق نہیں سیکھا۔ مزید تباہی ہماری منتظر ہے۔

جب گھر اجڑ جائے تو چوکیدار کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ بھوکے کے گھر میں ہو گا کیا جو وہ چور سے بچائے گا؟

اب حالات بہتر کرنے ہیں تو ایک تو موجودہ سیاسی حکومت کو آزادی سے کام کرنے دینا چاہیے۔ اس کی راہ میں روڑے نہیں اٹکانے چاہئیں۔ انتظامی معاملات میں مداخلت کرنے سے ادارے خود بھی باز رہیں اور دوسروں کو بھی روکیں۔ جس بات کا مینڈیٹ حکومت کو عوام سے ملا ہے، اسے وہ کرنے دیں۔ مقننہ اور عدلیہ اپنے دائرے میں کام کریں اور انتظامیہ کے دائرہ اختیار میں ٹانگ نہ اڑائیں۔

دوسرے نمبر پر داخلہ اور خارجہ پالیسی مکمل طور پر سیاسی حکومت کے سپرد کر دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ تھوڑی بہت تباہی مچ جائے گی؟ پھر کیا ہوا، جہاں باقی سب نے پاکستان کو تباہ کیا ہے، ایک موقع سیاست دانوں کو بھی دے کر دیکھیں۔ پاکستان کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ سیاست دان نقصان نہیں عموماً کچھ فائدہ ہی کر کے جاتے ہیں۔ ایک سیاست دان وزیراعظم کے زمانے میں ہی ہم نے آرام سے گوادر لے لیا تھا، ورنہ وہ بھی آج ہمارا نہ ہوتا۔ دوسری طرف ڈکٹیٹروں کے زمانے میں مشرقی پاکستان سے سیاچین تک بہت کچھ کھویا ہی ہے۔

قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارا سب سے بڑا خرچ دفاع پر ہوتا ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد نہ تو پاکستان کوئی بڑا پنگا کر سکتا ہے، اور نہ ہی بھارت۔ چھوٹی موٹی جھڑپیں ہی ہوں گی۔ ورنہ بھارت کشمیر کی علیحدہ حیثیت بھی ختم کر کے اسے اپنے اندر ضم کر لے تو پاکستانی آدھا گھنٹہ دھوپ میں کھڑے ہونے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔

بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے اسی پس منظر میں بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی تھی۔ بھارت سے ہمارے 1965 تک اچھے تعلقات تھے۔ ایک وقت تھا جب جنرل ایوب خان نے جواہر لال نہرو کو پاک و ہند کے مشترکہ دفاع کی پیشکش کی تھی تو نہرو نے پوچھا تھا کہ مشترکہ دفاع کس کے خلاف؟ بہرحال 1962 میں نہرو کو اس سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔ دوسری طرف جنوری 1965 میں مشکوک قسم کے صدارتی انتخابات میں فتح یاب ہونے کے بعد ایوب خان نے کھوئی ہوئی عوامی مقبولیت دوبارہ پانے کی خاطر کشمیر میں مہم جوئی کر کے بھارت سے تعلقات ایسے خراب کیے کہ نہ صرف ہم مشرقی پاکستان گنوا بیٹھے بلکہ آج تک اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔

بھارت سے ستمبر 1965 سے قبل کی سطح کے اچھے تعلقات ہونے کے ہماری معیشت کو کئی فائدے پہنچیں گے۔ دفاعی بجٹ تو کم ہو گا ہی، ساتھ ساتھ ہم بھارت سے وہ بہت کچھ براہ راست درآمد کر سکیں گے جو ابھی ہم براستہ دبئی مہنگے داموں منگواتے ہیں۔ بے شمار ادویات اور خام مال کے لیے ہم بھارتی درآمدات کے محتاج ہیں۔ پاکستانی فیشن انڈسٹری بھارت میں مقبول ہے، اس قسم کی بہت سی چیزیں ہم بھی بھارت کو برآمد کر سکتے ہیں۔

پاکستان جغرافیائی طور پر بھارت سے وسط ایشیا اور یورپ کا راستہ بلاک کر کے بیٹھا ہے۔ اگر ہم زمینی راستے سے بھارتی تاجروں کو وسط ایشیا اور یورپ میں درآمد برآمد کی اجازت دے دیں تو محصول کے طور پر ہی اچھی بھلی رقم کما سکتے ہیں۔ اگر دنیا کی پچاس فیصد آبادی، بھارت اور چین کی برآمدات اور درآمدات پاکستان کے راستے ہو رہی ہوں، تو ہمیں کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ باقی پھر بھارتی تاجروں کو پاکستانی علاقے میں سرمایہ کاری کرنے پر زیادہ منافع دکھائی دے گا تو وہ یہاں آنے پر مجبور ہوں گے۔

ہمیں انڈیا سے تجارت اور اچھے تعلقات قائم کرنے کی یہ اجازت دینا ہی ہو گی۔ ہماری معاشیات ہمیں اس پر مجبور کر دیں گی۔ جتنی دیر کریں گے اتنا ہمیں نقصان پہنچے گا۔ اس لیے کڑوا گھونٹ بھر کر سیاسی حکومت کو یہ دشمنی کا کھیل ختم کرنے کی اجازت دی جائے تو سب کے لیے اچھا ہو گا۔ ہم مستقل حالت جنگ میں رہنا برداشت نہیں کر سکتے، خاص طور پر اس وقت جب ہماری معیشت ڈوبتی جا رہی ہو اور بھارت معاشی طور پر دنیا کا ایسا اہم ملک بنتا جا رہا ہو کہ مشرق وسطیٰ میں ہمارے دیرینہ دوست بھی ہمیں ایک طرف دھکیل کر اسے گلے ملنے کو بے تاب دکھائی دے رہے ہوں۔ ایران اور افغانستان سے بھی تعلقات کو سیاسی حکومت بہتر انداز میں ڈیل کر سکتی ہے۔

سیاسی حکومت کے ہاتھ میں خارجہ اور داخلہ پالیسی کے فیصلے کرنے کا اختیار ہو تو ہماری اندرونی شورشیں بھی کم ہوں گی اور ہمسایوں سے بھی ہم چار پیسے کما لیں گے۔ جتنے پیسے کمائیں گے، اتنے ہی ہم اپنے شہریوں کی فلاح پر خرچ کریں گے اور اپنے اداروں کو اتنا زیادہ بجٹ دے سکیں گے۔ ورنہ پھر آئی ایم ایف سے محض ایک ارب ڈالر لینے کی خاطر اپنے عوام کو بھوکا مرتے اور خودکشی کرتے دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments