پیٹرول کی نئی قیمت اور عوام کی پریشانی میں اضافہ


موجودہ اتحادی حکومت نے ایک ہفتے کے اندر پیٹرول کی قیمت 60 روپے بڑھا کر عوام پر ایٹم بم گرا دیا ہے جو ایک آنے والے دنوں میں عوام پر مہنگائی کی سونامی سے کم نہیں ہو گا کیونکہ پیٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو ہر چیز کی قیمتیں آٹومیٹک بڑھ جاتی ہیں، جس کی وجہ سے جو دیہاڑی دار طبقہ ہے وہ شدید متاثر ہو رہا ہے، بلکہ متاثر لفظ بھی اب اپنی معنی کھو بیٹھا ہے یوں کہیں کہ اب عوام سے جینے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ پیٹرول کی قیمت 210 روپے ہوئی ہے جس سے ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا، آٹا، چینی، گھی، دال، چاول سمیت تمام ضروریات زندگی کی چیز آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں اور آج سے پھر دوبارہ یہ ہی چیزیں مہنگی ہوں گی ۔

اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں گزشتہ ستر سالوں سے کوئی ایسی حکومت نہیں آئی جو عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچے، تمام جماعتیں عوام کی باتیں تو کرتی ہیں اور عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتی ہیں مگر عوام کے لئے کوئی نہیں سوچتا، اسی عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبوچ لیا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان واحد ریاست ہے جہاں پر اگر کوئی چیز مہنگی ہوتی ہے تو پھر وہ واپس نہیں ہوتی اور مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جاتی ہے۔

پاکستان بننے سے لے کر آج تک مین نے نہیں دیکھا کہ کوئی چیز مہنگی ہوئی ہو اور پھر وہ سستی بھی ہوئی ہو ایسا نہیں ہوا، موجودہ حکومت نے جب اپوزیشن میں تھی تو بہت بڑے بلند دعوے کر رہی تھی کہ پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے عوام پر اضافی بوجھ آئے گا مگر جب یہ ہی اب اقتدار میں آئے ہیں تو پیٹرول کی قیمتیں ایک ہفتے کے اندر 60 روپے بڑھا دی ہیں، جبکہ مزید سننے میں آ رہا ہے کہ ایک سے ڈیڑھ ماہ میں یہ ہی قیمتیں مزید بڑھیں گی اور پیٹرول فی لیٹر 270 تک جائے گا، اب سوچیں اگر پیٹرول کی قیمتیں ایسی ہی مسلسل بڑھتی جائیں تو عوام کا کیا ہو گا؟

کہا جا رہا ہے کہ پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدے کیے تھے اس کے پیش نظر پیٹرول کی قیمتیں بڑھانا مجبوری ہے، مجبوری ہوگی مگر کیا پیٹرول کی قیمتیں صرف عوام کے لئے ہیں، افسر شاہی سے لے کر تمام سرکاری محکمے کے افسران پیٹرول فری میں دیا جاتا ہے جو عوام کی ٹیکس کا پیسا ہوتا ہے مگر عوام کو کیا رلیف مل رہا ہے اس کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ جن افراد کی تنخواہ 40 ہزار سے کم ہے ان کو دو ہزار روپے ماہانہ دیا جائے گا، اب دو ہزار روپیا ماہانہ دینے سے عوام کو کیا رلیف ملے گا اس سے نا تو عوام کے اخراجات پورے ہوں گے اور نا ہی گھر کا پورا راشن آئے گا جس سے جو نچلے طبقے کا شہری ہے وہ اپنے گھر کے اخراجات کہاں سے پورے کرے گا؟

مہنگائی نے تو پہلے ہی عوام کی قمر توڑ کر رکھ دی ہے، گھی 600 روپے فی کلو ہو گیا ہے، چینی 95 روپے فی کلو، آٹا 85 روپے فی کلو، ایسی بہت ساری روز مرہ کی اشیاء خورد و نوش کی چیزیں ہیں جو روزانہ استعمال میں آتی ہیں سب چیزیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ایسے میں عوام کیا کرے؟

جو شخص دیہاڑی کی مزدوری کرتا ہے جس کی آمدنی روزانہ پانچ سو روپے ہے وہ روزانہ آٹا لے گا، چینی لے گا، گھی لے گا، دودھ لے گا یا گھر کا کرایہ دے گا یا اپنے بچوں کو تعلیم دے گا کیا کرے گا آخر؟

حکمران ہیں کہ ایک دوسرے پر صرف الزام تراشی کر کے خوش ہو رہے ہیں کہ فلاں حکومت نے مہنگائی کردی ہے اب اس کو ٹھیک کرنے میں اتنا ٹائم لگے گا، یہ صرف موجودہ حکومت کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر حکومت جو بھی آتی ہے وہ جانے والی حکومت کے رونے روتی ہے کہ اس نے اتنی مہنگائی کردی۔

عوام کا مسئلہ ہے جو جوں کا توں ہے کسی کو عوام کی فکر نہیں ہے بس سب ایک دوسرے پر الزام لگا کر اپنی ذمے داری سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔

پیٹرول بڑھنے سے نا صرف اشیاء خورد و نوش کی چیزیں مہنگی ہوئی ہیں بلکہ ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بڑھ گئے ہیں۔

یہ واحد ملک ہے جس کو سب نے مال مفت دل بے رحم کے طور پر لیا ہوا ہے اور جو حکومت آتی ہے وہ صرف اپنوں کا سوچتی ہے اور اپنے پیٹ بھر کر اللہ خیر صلہ کر کے چلے جاتے ہیں اور پھر دوسرے آتے ہیں پچھلی حکومت کا رونا رو کر عوام کو بے وقوف بنا کر مہنگائی میں اضافہ کر کے چلے جاتے ہیں مگر ایسی کوئی حکومت نہیں آئی ہے جو صرف اور صرف عوام کے لئے سوچے۔

اس وقت مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے صرف پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے ایک بہت بڑا مہنگائی کا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، دہی کی بات کی جائے تو اس کی قیمت اس وقت 2 سو روپے فی کلو ہو گئی ہے دودھ 140 روپے فی کلو، مطلب کیا کیا نہیں مہنگا ہوا ہے۔

ہر چیز اب اس ملک کی غریب عوام سے دور ہو گئی ہے۔

جن کے پاس روزگار کرنے کے لئے رکشے تھے اب وہ بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ سواری مل نہیں رہی پیٹرول کی قیمتوں کے پیش نظر انہوں نے بھی اپنے کرائے بڑھا دیے ہیں جس کی وجہ سے عوام اب رکشہ کی سواری بھی افورڈ نہیں کر پا رہا۔

حکومت کو چاہیے کہ اپنے اخراجات اپنے وزراء، مشیروں، افسران شاہی کے اخراجات کم کر کے عوام کو رلیف دے نہیں تو غریب طبقہ بھوک اور افلاس سے مر جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments