وہ کون تھا؟


یہ سوال پہلے ایک استعارہ بنا اور اب احتجاج کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

ہماری موجودہ نوجوان نسل ایک ہی بیانیہ سن سن کے سیاسی نظریہ بنا چکی ہے، جس کے مطابق پاکستان کی معاشی، سماجی، اخلاقی بدحالی کی ذمہ دار جمہوری حکومتیں ہیں۔ تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ ان جمہوری جماعتوں نے پچھلے تیس سالوں میں ناصرف یہاں بہنے والی دودھ، شہد کی نہریں سکھا دیں بلکہ وہ سونے چاندی کے پہاڑ بھی بیچ کھائے جو رب کریم نے پاکستان کو عطا کیے تھے۔

سولہ سے پینتیس سال کی عمر کے یہ پاکستانی ملکی سیاسی منظرنامے کو اسی عینک سے دیکھ رہے ہیں جو گھوڑے کو پہنا دیں تو وہ سوکھے چارے کو ہرا سمجھ کے چر لیتا ہے۔

تیس سال سے پہلے کے بارے میں انہیں وہی پتہ ہے جو مطالعۂ پاکستان کے نصاب میں درج ہے، اس میں بھی وہ حصے پڑھتے ہی نہیں جن سے ایک سال پہلے امتحان میں سوال آچکے ہوں۔ یوں بھی نصاب کی تیاری میں حد درجہ احتیاط کی گئی ہے تاکہ حقیقت بقدر ضرورت ہی بیان ہو اور سب اچھا تھا، ہی ذہن نشین ہو جائے۔

مگر جب سوال اٹھ ہی گیا ہے کہ وہ کون تھا؟ تو اچھا ہے کہ انہیں بھی اندازہ ہو کہ یہ سوال نیا نہیں!

تو میرے نوجوانوں، دھیان سے سنو، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ابتداء سے ہی یہ غلغلہ ہر دور میں کسی نہ کسی حادثے یا سانحے پے اٹھا، پبلک پوچھتی رہ گئی کہ وہ کون تھا؟

مگر ہر بار جواب کمال ہوشیاری سے صیغۂ راز میں ہی رکھے گئے۔

پچھتر سال کے پاکستان میں پہلی بار یہ سوال تب ہوا، جب قائد اعظم گیارہ ستمبر سن اڑتالیس کو ساڑھے چار بجے زیارت سے کراچی پہنچے اور جو آرمی ایمبولینس انہیں ماری پور ائرپورٹ سے رہائش گاہ تک لے جانے کے لئے بھیجی گئی، چار میل کے بعد اس میں پٹرول ختم ہو گیا۔

”وہ کون تھا“ جس نے بانی پاکستان اور ملک کے گورنر جنرل کے لئے ایسی ایمبولینس بھیجی۔ دو گھنٹے قائداعظم نیم بیہوش سڑک کنارے اسی عالم میں اس ایمبولینس میں رہے، جہاں ان کے چہرے سے مکھیاں دور کرنے کے لئے ان کی نرس اور محترمہ فاطمہ جناح باری باری ایک گتے سے پنکھا جھل کر مکھیاں ہٹاتی رہیں اور قائد کی حالت غیر ہوتی گئی، بالآخر دو گھنٹے کی اس اذیت ناک کوتاہی کے بعد انہیں گورنر جنرل ہاؤس پہنچایا گیا اور اس سے پیشتر کہ گیارہ ستمبر کی تاریخ بدلتی، ملکی تاریخ میں پہلا قومی سانحہ درج ہو گیا۔

وہ کون تھا؟ جس نے قائد کی کراچی آمد کو راز رکھتے ہوئے، ایمبولینس میں فیول تک چیک کروانے کی زحمت نہ کی؟ یہ سوال آج بھی ایک معمہ ہے۔

دوسرا موقع، چند سال گزرے، تئیس فروری 1951 کو جنرل ایوب خان افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف ہوئے، اسی سال وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو سولہ اکتوبر پنڈی میں ایک جلسے میں گولی مار دی گئی۔ قاتل سید اکبر کو لوگوں نے جکڑ لیا تھا، اسے باآسانی گرفتار کیا جا سکتا تھا تاہم وہاں تعینات انسپکٹر محمد شاہ نے اس سے پہلے ہی اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یعنی سوال رہ گیا اور جواب دینے والا خاموش کر دیا گیا۔

تفتیش کے بعد کمیشن نے تحقیقاتی رپورٹ پیش کی، جسے عوام اور بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ماننے سے انکار کر دیا۔

اس رپورٹ کے دس دن بعد انسپکٹر جنرل پاکستان اسپیشل پولیس نوابزادہ اعتزاز الدین کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا۔

نوابزادہ اعتزاز الدین اس رپورٹ سے الگ، اس کیس کی تفتیش کر رہے تھے، طیارہ حادثے میں نہ صرف وہ جاں بحق ہوئے بلکہ اس کیس کی اہم معلومات اور فائلز بھی راکھ ہو گئیں۔

پبلک پوچھتی رہ گئی، وہ کون تھا؟ جس نے اس قاتل کو قتل پے آمادہ کیا۔
وہ کون تھا؟ جو قتل کے ارادے سے آیا تو اپنے دس سالہ بیٹے کو بھی ساتھ لایا۔

بیگم لیاقت علی خان کے مطابق، پاکستان کے پہلے شہید وزیر اعظم اس روز نئے انتخابات کا اعلان کرنے والے تھے۔

یہاں سے پاکستان ایک عجب دور میں داخل ہوا۔ سات سال تک یہ عالم تھا کہ ایک عوامی مذاق ہو گیا تھا : بھئی، پاکستان کا وزیر اعظم کون ہے؟

جواب: پتہ نہیں، آج اخبار نہیں دیکھا۔

تیسری بار وہی سوال، وہ کون تھا؟ جس کے ہاتھ میں جمہوری حکومت کٹھ پتلی تھی۔ سات سال میں چھ وزیر اعظم بدلے گئے۔

خواجہ ناظم الدین:
1953۔ 1951۔ دو سال
محمد علی بوگرہ:
1955۔ 1953۔ دو سال
چوہدری محمد علی:
1956۔ 1955۔ ایک سال
حسین شہید سہروردی:
1957۔ 1956۔ ایک سال
آئی آئی چندریگر :
1957۔ تین ماہ
فیروز خان نون:
1958۔ 1957۔ ایک سال

فیروز خان نون صدر ریٹائرڈ میجر جنرل اسکندر مرزا اور آرمی چیف ایوب خان کی منشاء کے خلاف انتخابات کروانا چاہتے تھے کہ 8 اکتوبر کی رات انہیں فوجی مداخلت کے ذریعے معزول کر دیا گیا اور 1958 میں پاکستانی عوام نے اپنا پہلا غیر جمہوری سربراہ دیکھا۔

اسکے بعد گیارہ سال دیکھتے اور پوچھتے ہی رہ گئے۔
وہ کون تھا؟ جس نے سویلین یعنی عوامی بالادستی رفتہ رفتہ ختم کی۔

وہ کون تھا؟ جس نے ملک کا دارالحکومت راتوں رات کراچی سے اس شہر منتقل کیا جہاں جنرل ہیڈکوارٹرز تھے اور ہیں۔

وہ کون تھا؟ جس نے ملکی ترقی کو چند خاندانوں تک محدود کیا
وہ کون تھا؟ جس نے ریفرنڈم سے اپنی مرضی کا فیصلہ اخذ کروانے کی ترکیب متعارف کروائی
وہ کون تھا؟ جس نے اہم قومی اداروں میں اعلی عہدوں پے قلم کی جگہ بندوق والوں کو لگایا
وہ کون تھا؟ جس نے پہلی انٹیلیجنس ایجنسی داغ بیل ڈالی اور اسے عوام کے خلاف استعمال کیا۔
وہ کون تھا؟ جس نے صوبہ بنگال کا احساس محرومی بڑھایا
وہ کون تھا؟ جس نے اپنا اقتدار بچانے کے لئے اچانک جنگ مسلط کی اور ملکی ترقی کو سالوں پیچھے لے گیا

وہ کون تھا؟ جس نے ڈھاکہ اور کراچی میں یونیورسٹی اسٹوڈنٹس اور مزدوروں پے فائر کھولا، جانیں لیں، گرفتار کیا۔

وہ کون تھا؟ جس نے پاکستانی فضائیہ کے اڈے کسی اور کو دیے۔
وہ کون تھا؟ جس نے سیاست میں گالی اور گولی کو رائج کیا
وہ کون تھا؟ جس نے انتخابات میں دھاندلی کو شعار بنایا
وہ کون تھا؟ جس کی پروپیگنڈا ٹیم نے بنگالیوں کے خلاف منافرت و حقارت پھیلائی
وہ کون تھا؟ جو جاتے جاتے انتخابات کروانے کے بجائے ملک دوسرے آمر کے حوالے کر گیا

انہی سوالات میں الجھے ہم 1969 تک آ گئے۔ سوال اب بھی جاری ہیں۔
وہ کون تھا؟ جس نے ظلم کی داستان جمہور کے خون سے لکھی۔
وہ کون تھا؟ جس نے صوبہ بنگال پے دنیا کی تاریخ کا سیاہ ترین فوجی آپریشن کیا

وہ کون تھا؟ جس نے اپنی فوج کے جنگی جرائم کے بارے میں ہنس کے کہا تھا کہ جب فوجی دور تعینات ہو گا تو اپنی فطری جبلت کی تسکین بھی وہیں کرے گا۔

وہ کون تھا؟ جس کی سربراہی میں 93 ہزار فوجی نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال کے، دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ تعداد میں شکست تسلیم کرنے والی فوج کا اعزاز حاصل کیا۔ (یہ ریکارڈ پچاس سال میں کوئی توڑ نہیں پایا۔ )

وہ کون تھا؟ جس نے ملک کے دو ٹکڑے کیے ، پاکستان کو معاشی بدحالی کے گڑھے میں ڈال دیا۔
وہ کون تھا؟ جس نے رشوت، بدعنوانی، بے ایمانی کو سرکاری اداروں کا طرۂ امتیاز بنا دیا۔
یوں ”وہ کون تھا“ کے پچیس سال پورے ہوئے، یہاں تک آتے آتے سانس پھول گئی، آنکھ نم اور دل رنجیدہ ہے۔

میرے نوجوانو۔ ان سوالوں کے جواب تلاشو شاید کہ اس سراب کے تعاقب سے نکل سکو جو تمہیں نخلستان لگ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments