طاہر اشرفی صاحب، سعودی عرب اور اسرائیل



ایک بار پھر یہ خبر شائع اور نشر ہوئی کہ کچھ پاکستانی اسرائیل جا پہنچے۔ یہ خبر اڑانے والے کوئی ایسے ویسے صحافی نہیں تھے جنہیں کسی لفافہ کا وصول کنندہ قرار دے کر جھٹلایا جا سکے۔ یہ بھانڈا خود اسرائیل کے صدر نے ورلڈ اکنامک فورم کے چوراہے میں پھوڑا کہ کچھ پاکستانی امریکنوں کا وفد اسرائیل میں ان سے ملا تھا۔ وہ تو سویٹزرلینڈ میں بی جمالو کا کردار ادا کر کے اسرائیل سدھارے اور ہم نے پاکستان میں ایک دوسرے کے گریبانوں پر مشق شروع کر دی۔

بھاگو دوڑو اور لینا پکڑنا کا شور شروع ہوا۔ یہ کون غدار تھے؟ اسرائیل گئے تو کس طرح گئے اور کس کے کہنے اور بہکانے سے گئے؟ عمران خان صاحب نے اسے بھی امریکہ کی تازہ تازہ امپورٹڈ غلامی کا نتیجہ قرار دیا اور ایک جلسہ عام میں فرمایا کہ یہ تصویر تو شائع ہو گئی ہے کہ پاکستانیوں کا ایک وفد اسرائیل گیا ہے، اب اس دن کی راہ دیکھو جب کشمیر کا سودا کیا جائے گا۔

اس نازک صورت حال میں آل پاکستان علماء کونسل کا خاموش رہنا قرین مصلحت نہ تھا۔ اس کونسل کے صدر طاہر اشرفی صاحب نے بھی اس معاملہ پر اظہار تشویش شروع کیا۔ انہوں نے مختلف بیانات میں کہا کہ ہم نے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کو خط لکھا ہے کہ کچھ لوگ پاکستان کے پاسپورٹ پر اسرائیل کس طرح گئے؟ ان کے متعلق قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ انہوں نے وزیر اعظم سے اس پر تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اسرائیل گئے ہیں انہوں نے امت مسلمہ کے دلوں کو زخمی کیا ہے۔

طاہر اشرفی صاحب پہلے بھی بارہا اس موضوع پر اظہار خیال کر چکے ہیں۔ ایک سال قبل انہوں نے بول چینل پر اینکر پرسن مدثر اقبال صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس مسئلہ پر مسلمان ممالک بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اور کہا تھا کہ مسلمان ممالک میں صرف دو ممالک یعنی پاکستان اور سعودی عرب ایسے ہیں جن کے اسرائیل سے کوئی روابط نہیں ہیں، تجارت نہیں ہے اور ان کے کوئی مفادات اسرائیل سے وابستہ نہیں ہیں۔

اگر کسی بھی پاکستانی نے پاکستان کا قانون توڑتے ہوئے اسرائیل کا دورہ کیا ہے تو اس کے بارے میں قانون کے مطابق کارروائی ہو سکتی ہے۔ اور یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ کسی بھی صورت میں ان مظالم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر کیے جا رہے ہیں اور یہ مظالم اتنے واضح ہیں کہ ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان بیانات نے بعض سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ طاہر اشرفی صاحب کا کہنا ہے کہ جن پاکستانیوں نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے انہوں نے امت مسلمہ کے دلوں کو زخمی کیا ہے۔ اور انہوں نے جذباتی انداز میں کہا کہ کچھ لوگ پاکستان میں اسرائیل کے لئے فضا بنا رہے ہیں۔ ان لوگوں کو فلسطینی بچوں پر ہونے والے مظالم نظر نہیں آ رہے اور انہیں فلسطینی بہنوں کے سروں سے اتاری گئی چادریں نظر نہیں آ رہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امت مسلمہ کے دل صرف اس وقت زخمی ہوتے ہیں جب کوئی پاکستانی اسرائیل کا دورہ کرتا ہے یا اس وقت بھی ان دلوں پر ضرب لگتی ہے جب عرب ممالک میں سے کوئی اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے یا جب بعض عرب ممالک اسرائیل تسلیم نہ کرنے کے باوجود اس سے تجارتی اور سفارتی روابط قائم کرتے ہیں اور ان کو پروان چڑھاتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے ایک سال قبل طاہر اشرفی صاحب نے سعودی حکومت کو کلین چٹ عطا فرمائی تھی کہ ان کے اسرائیل سے کسی قسم روابط نہیں ہیں۔ اس لئے اس کالم میں اس سلسلہ میں بعض حقائق پیش کیے جائیں گے۔

اب یہ راز کوئی راز نہیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کچھ سالوں سے ایک دوسرے سے نہ صرف روابط قائم کر رہے ہیں بلکہ ایک دوسرے تجارتی تعلقات بھی بڑھا رہے ہیں۔ اور اب تو سعودی عرب نے اسرائیل میں سرمایہ کاری بھی شروع کردی ہے۔ اور تو اور ان دنوں میں جب ہم اسرائیل کے دورہ کے مسئلہ پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف تھے سعودی عرب اور اسرائیل کے اہم شہری بہت یکسوئی سے تجارتی مذاکرات میں مصروف تھے۔ اور یہ خبریں اسرائیل کے اخبارات میں شائع ہو رہی تھیں۔

چنانچہ ٹائمز آف اسرائیل نے 29 مئی کو یہ خبر شائع کی کہ اسرائیل سے ایک دو نہیں بلکہ درجنوں تاجر اور ٹیکنالوجی کے ماہرین سعودی عرب پہنچ کر وہاں کی اہم شخصیات سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اور فخر سے لکھا کہ اصل میں سعودی ولی عہد ایران کے خلاف اسرائیل کو ایک اتحادی سمجھتے ہیں۔ اور سعودی حکومت کی اجازت سے ہی بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور سعودی عرب کا دورہ کرنے والی اہم اسرائیلی شخصیات سعودی عرب میں اسرائیلی پاسپورٹوں پر داخل ہو رہی ہیں اور ان کو سعودی حکومت سپیشل ویزے جاری کر رہی ہے۔ اور سعودی عرب اور اسرائیل میں دفاعی معاہدات بھی ہو چکے ہیں۔ اور اب سعودی عرب اسرائیل کی کئی کمپنیوں میں کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اور یہ خبر معروف جریدے وال سٹریٹ جرنل میں بھی شائع ہو چکی ہے۔ اور اسی جریدے نے یہ تجزیہ کیا ہے کہ اب سعودی حکومت اسرائیل میں سرمایہ کاری کرنے میں گہری دلچسپی لے رہی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ سال گزشتہ کے آخر میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور اسرائیل کے خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ یوسی کوہن نے دیگر اہم شخصیات سمیت سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔

اور یہ خبریں وہ خبریں نہیں جو کہ غالب کو اڑتی اڑتی طیور کی زبانی مل جایا کرتی تھیں بلکہ خود اسرائیل کے وزیر خارجہ نے بیان دیا ہے کہ سعودی عرب سے تعلقات کو معمول پر لانے پر کام ہو رہا ہے اور یہ سفر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر سرانجام دیا جائے گا۔

کالم کے آخر میں ہم ایک بار پھر پاکستان علماء کونسل اور طاہر اشرفی صاحب کے بیانات کی طرف واپس آتے ہیں۔ آپ نے اپنے جذبات کا اعلان کر دیا کہ جو پاکستانی اسرائیل جاتا ہے وہ پوری امت مسلمہ کے دلوں کو زخمی کرتا ہے۔ آپ نے اسی جذباتی انداز میں فلسطین کے مظلوم بچوں اور ان کی خواتین کے سروں سے اترے ہوئی چادروں کا ذکر بھی کر دیا۔ لیکن اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں کہ جب سعودی حکومت اہم اسرائیلی شخصیات کا خیرمقدم کرتی ہے تو کیا اس وقت امت مسلمہ کے دل زخمی ہوتے ہیں کہ نہیں ہوتے؟ پوری دنیا جانتی ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان روابط نہ صرف ہو رہے ہیں بلکہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں، پھر آپ یہ بیان کیوں جاری کرتے ہیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کوئی روابط نہیں ہیں۔

اپنے ہم وطنوں پر گرجنا برسنا اور انہیں صیہونی ایجنٹ قرار دینا آسان ہے لیکن اہل فلسطین کے لئے درد تو تب ہوتا جب آپ ریال اور ڈالروں کی پرواہ کیے بغیر اس قدم پر سعودی عرب کی حکومت کے ان اقدامات کی بھی مذمت کرتے۔ اور طاہر اشرفی صاحب کو تو گزشتہ حکومت کے دوران مشرق وسطیٰ کے لئے وزیر اعظم کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا گیا تھا اور اس تقرری کی دلیل یہ بیان کی گئی تھی کہ وہ عربی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ کیا جب طاہر اشرفی صاحب اس عہدے پر کام کر رہے تھے انہوں نے اسی زبان دانی کا فائدہ اٹھا کر سعودی حکومت کی خدمت میں یہ عرض کی تھی کہ یا اخی! آپ اسرائیل سے کیوں روابط بڑھا رہے ہیں۔ کچھ تو فلسطین کے مظلوم بچوں اور خواتین کے سر سے اتری چادروں کا خیال کریں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments