گہر ہائے شب چراغ (خاکوں کا مجموعہ)۔


مصنف : ڈاکٹر یونس
حسنی قیمت : 500
پبلشر: فضلی سنز کراچی
مبصر : ڈاکٹر تہمینہ عباس
ڈاکٹر یونس حسنی، شعبہ اردو، جامعہ کراچی کے سابق استاد ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ٹونک میں حاصل کی پھر ”حمیدیہ کالج بھوپال“ سے بتدریج اعلی تعلیمی مدارج طے کیے جہاں انھیں ڈاکٹر ابو محمد سحر اور ڈاکٹر گیان چند جین سے تلامذہ فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ”گہر ہائے شب چراغ“ ڈاکٹر یونس حسنی کے خاکوں کا مجموعہ ہے۔

جس میں علمی، ادبی، اور چند مذہبی شخصیات کے خاکے اور ان سے وابستہ یادداشتیں موجود ہیں۔ اس کتاب میں کچھ تعزیتی مضامین بھی شامل ہیں جو مکمل طور پر خاکے کے دائرے میں نہیں آتے۔ اس کتاب میں پہلا خاکہ ”سید احمد شہید کے تین نواسے ”کے عنوان سے ہے۔ جس میں حسنی صاحب نے، سید محمد عرفان، سید محمد یونس، سید محمد مصطفی کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کتاب میں شامل دوسرا خاکہ ”ابا میاں“ کے نام سے ہے جو ان کے دادا محمد مولانا سید یعقوب مرحوم کا ہے۔

اس خاکے سے علم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر یونس حسنی کے دادا ایک وضع دار آدمی تھے۔ لوگوں کے کام آنا ان کے مسائل حل کرنا، مذہبی امور کی پابندی کرنا ابا میاں اپنی زندگی کا لازمی جز سمجھتے تھے۔ حسنی صاحب کی دادی کے انتقال کے بعد گھر میں کوئی عورت نہیں رہی تھی۔ چار مرد تھے ایک ان کے دادا، ان کے والد، ان کے بڑے بھائی اور وہ خود۔ اس خاکے سے ان کے دادا کی مکمل شخصیت نظروں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ یہ خاکہ نگاری کا فن ہے کہ جس کی تصویر پیش کی جا رہی ہو وہ قاری کو اپنی نظروں کے سامنے چلتا پھرتا دکھائی دے۔

اس خاکے سے ایک اقتباس ”ابا میاں کی ضروریات بڑی محدود تھیں۔ وہ صرف چار جوڑی کپڑے میں گزارا کر سکتے تھے۔ مگر ہوتا یہ تھا کہ والد ان کے چار جوڑے بناتے اور دو تین ماہ بعد صرف ایک رہ جاتا۔ ہوتا یہ تھا کہ جو ضرورت مند خواتین تشریف لاتیں ان میں سے اکثر کے یہاں پوتے نواسے کی ولادت ہوجاتی اور درخواست کرتیں کہ میاں اپنا کرتا عنایت کر دیجیے میں نومولود کے کپڑے آپ کے پہنے ہوئے کپڑے سے بناؤں گی۔ ہمیں حکم ہوتا کہ ایک کرتا ان کی نذر کر دیا جائے۔

چنانچہ دو تین ماہ بعد ہی کرتے ختم ہو جاتے اور صرف پاجامے باقی رہ جاتے مگر وہ اللہ کے بندے نہ تو کسی کو دینے سے انکار کرتے نہ بیٹے سے دوسرے کرتے بنوانے کو کہتے۔ ہماری ذمے داری تھی کہ اس تہی دامنی کی رپورٹ ہم والد صاحب سے کریں اور وہ اپنے والد کے لیے کپڑے کی فراہمی میں کبھی تاخیر نہیں کرتے ”۔ ”استاذی“ ڈاکٹر ابو محمد سحر کا خاکہ ہے۔ ابو محمد سحر سے حسنی صاحب کی ملاقات بی اے کے مدرس کے طور پر حمیدیہ کالج بھوپال میں ہوئی جہاں ملازمین کے لیے رات کی کلاسوں کا اہتمام ہوتا تھا۔

ڈاکٹر ابو محمد سحر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”وہ پہلے دن کلاس میں آئے مکمل انگریزی لباس میں ملبوس۔ لباس کسی شکن کے بغیر اور استری سے پیراستہ، کشادہ پیشانی، بڑی بڑی آنکھیں، جو ان سے بھی زیادہ بڑی پلکوں اور پپوٹوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ یوں بھی وہ نگاہیں نیچی رکھتے اس لیے ان کی آنکھوں کی ساخت سے سرسری نظر سے دیکھنے والا نا آشنا رہتا۔ بھرا ہوا چہرہ، مضبوط چوڑے جبڑے، چوڑی سے تھوڑی اور ہونٹ کسی قدر مائل بہ فربہی، بڑے لیے دیے انداز میں تشریف لائے اور کلاس شروع کردی ”۔

” کلاس میں باقاعدگی کا یہ عالم تھا کہ تین سالوں میں ایک دن ایسا نہیں آیا کہ جس میں چھٹی لی ہو۔ البتہ ایک دن وہ وقت سے کچھ دیر بعد کلاس میں آئے۔ وہ کیمپس میں رہتے تھے۔ خوش پوشاک، اور باوضع آدمی تھے۔ کالج آرہے تھے کہ برآمدے میں کسی نے پیک تھوکی جس کے چھینٹے ان کے لباس پر بھی آئے۔ واپس پلٹے گھر جاکر دوسرے کپڑے پہنے اور جلدی جلدی کلاس میں پہنچ گئے۔ بس یہی ایک دن تھا جس دن وہ کلاس میں دیر سے آئے۔ دیر سے آنے کی معذرت کی اور وجہ بھی بتائی۔

ہم اکثر سوچا کرتے اور آپس میں تبصرے کرتے کہ کیا سحر صاحب کبھی بیمار نہیں ہوتے ”۔ ابو محمد سحر کی علمی حیثیت کا اندازہ ان کے شاگرد کی اس تحریر سے بہ خوبی ہوتا ہے۔ ”شعر کہتے تھے۔ مگر کم کم کہتے تھے۔ ان کا ایک ہی شعری مجموعہ“ برگ غزل ”ہے۔ مگر اس معاملے میں وہ اصغر گونڈوی سے مشابہ تھے۔ کم کہا مگر خوب کہا۔ ان کے کلام میں بھی تیسرے درجے کا شعر ڈھونڈ نکالنا مشکل ہے۔ تنقید میں ان کی کاوشیں ہمہ جہت ہیں۔ اردو میں قصیدہ نگاری، قصیدے پر حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔

غالبیات اور اردو املا پر ان کی نگارشات طلبہ ہی نہیں، محققین کی رہ نمائی کرتی رہیں گی۔ بعد میں انیس پر ان کی کتاب مرثیہ اور اس کی روایات پر سند کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی طرح ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ”تنقید و تجزیہ“ بھی خاصے کی چیز ہے۔ مگر ہر مضمون کی معنی خیزی اور افادیت نے اسے کئی کتابوں کا درجہ دیا ہے۔ مجموعی طور پر ”استاذی“ اس مجموعے کا بہترین خاکہ ہے۔ اس کتاب میں موجود باقی شخصیات کے خاکوں سے ہم ان شخصیات کی زندگی سے تو واقف ہوتے ہیں۔

مگر ان کے خد و خال لفظوں کے ذریعے ہمارے سامنے نمایاں نہیں ہوتے۔ اس کتاب میں کئی علمی اور ادبی شخصیات کا تذکرہ ہے۔ جیسے ڈاکٹر ابو الخیر کشفی، پروفیسر شمیم احمد، رفیق نقش، وغیرہ۔ ان میں زبان و بیان اور دیگر حوالوں سے ابو محمد سحر کے خاکے کو بہترین قراردیا جاسکتا ہے۔ ”کینٹ کالج سے حرم محترم تک“ احمد الدین شیخ کی سے متعلق یادداشتیں ہیں۔ احمد الدین شیخ کینٹ کالج میں ان کے ہم منصب تھے۔ ان ہی کی بدولت ڈاکٹر یونس حسنی نے عمرے کا فریضہ ادا کیا۔

”وہ جو بیچتے تھے دوائے دل“ میں ڈاکٹر اسلم سید سے وابستہ یادداشتیں ہیں۔ ڈاکٹر سید اسلم امراض قلب کے ماہر طبیب تھے اور ڈاکٹر یونس حسنی کے معالج تھے۔ اس مضمون میں انھوں نے ڈاکٹر سید اسلم کی صفات کا تذکرہ کیا ہے۔ ”تماشا کرو“ ، میں محمود احمد برکاتی جو جماعت اسلامی سے وابستہ تھے اور حکیم تھے کا تذکرہ موجود ہے۔ ”بہ ریشم و فولاد کا آدمی“ مشہور عالم سید ابوالحسن علی ندوی سے متعلق مختلف واقعات بیان کیے ہیں۔ ”شعلہ و شبنم“ شعبہ اردو، جامعہ کراچی کے مقبول استاد ڈاکٹر ابو الخیر کشفی کا خاکہ ہے۔

اس خاکے میں ڈاکٹر یونس حسنی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بحیثیت معاون استاد اور بحیثیت مستقل استاد شعبہ اردو جامعہ کراچی میں حسنی صاحب کو لانے کا سہرا ابو الخیر کشفی کے سر جاتا ہے۔ کشفی صاحب اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے اور ان کی اصلاح کرنے میں دیر نہیں لگاتے تھے۔ مثلا ”کشفی صاحب کو بعض عادتیں وراثت میں ملی ہیں۔ وہ بڑے فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ کوئی ملنے جلنے والا، شناسا، شاگرد، دوست، کوئی بھی آ جائے کھانا کھائے بغیر نہیں جاتا۔

کھانے میں بھی وہ کلی پھندنے لگاتے رہتے ہیں۔ جسے پسند کریں یا مہربان ہوجائیں اسے تحفہ ضرور دیں گے۔ اپنی قیمتی چیزیں بھی اٹھا کر دے دیتے ہیں۔ بعض اوقات دوسرے کی پسندیدہ چیزیں اٹھا کر اپنے ممدوح کو پیش کر دیتے ہیں۔ دو چار بار میں بھی ان کی اس فیاضانہ عطا کا شکار ہوا۔ وہ آپ کی چیز اٹھائیں گے اور فرمائیں گے یہ ان صاحب کو دے دیجیے۔ اب آپ انکار نہ کر پائیں گے۔ نہ آپ کا دل دینے کو چاہے گا۔ ” ”کشفی صاحب بلا کے ذہین آدمی ہیں۔

ان کی نکتہ سنجی اور نکتہ دانی مسلم ہے۔ وہ بڑے ہی نکتہ آفریں ہیں۔ اردو کے کلاسیکی اور جدید ادب پر ان کی یک ساں نظر ہے۔ رچا ہوا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ جس موضوع پر لکھتے ہیں ایسے نکتے نکالتے ہیں کہ داد دیے بنتی ہے۔ وہ وابستگی کے آدمی ہیں۔ جو بات کہتے ہیں پوری ذمے داری سے کہتے ہیں۔ اور دلائل ایسے دیتے ہیں کہ ان کی بات ماننا پڑتی ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں جو کہہ کر مکر جاتے ہیں۔ اگر کسی کے بارے میں غلط سلط رائے دیں تو درست معلوم ہوتی ہے۔

اور اس پر اڑے رہتے ہیں۔ اپنی رائے سے انھوں نے شاید ہی رجوع کیا ہو۔ ایک بار مجھ سے کہا کہ یہ نعت کا شعر ہے۔ زباں پہ بارے خدا یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے میں نے کہا جی نہیں یہ تجمل حسین خان کی غزل میں درج ہے۔ ارشاد ہوا۔ ”جس شعر کا اطلاق نعت پر ہو جائے نعت کا شعر ہے۔ عرض کیا یوں تو غزل کے اسی فی صد اشعار نعت کے ٹھہریں گے۔ نعت کا شعر وہ ہی ہے جو نعت کی نیت کر کے کہا گیا ہو۔“ ”روزنامہ دعوت کے مسلم صاحب ”میں حسنی صاحب نے مسلم صاحب کے حوالے سے یادداشتیں بیان کی ہیں۔

”ایسا کہاں سے لاؤں ”میں جناب صلاح الدین مدیر تکبیر کے حوالے سے یادداشتیں ہیں۔ ”برسے بادل کی بجلیاں ”میں نواب سعادت علی خان اور مفتی عبدالرحیم کے حوالے سے واقعات بیان کیے ہیں۔ ”مولی عابد حسین“ میں حسنی صاحب نے اپنے اسلامیات کے استاد کی بابت بیان کیا ہے۔ ”احتشام صاحب“ اردو کے معروف استاد، اور نقاد احتشام حسین صاحب سے متعلق مختلف واقعات بیان کیے ہیں۔ اس خاکے میں احتشام حسین نے جو خطوط حسنی صاحب کو لکھے ہیں وہ بھی شامل ہیں۔

”مت سہل ہمیں جانو“ پروفیسر شمیم احمد، شعبہ اردو، جامعہ کراچی کے حوالے سے تعزیتی مضمون ہے۔ ”رفتید ولے از دل ما“ رفیق احمد نقش کے حوالے سے ایک تعزیتی مضمون ہے۔ ”گہر ہائے شب چراغ“ گو کہ خاکوں کا مجموعہ ہے اس میں شامل کئی خاکے وہ تعزیتی اور تاثراتی مضامین ہیں جو ان اصحاب کی وفات پر لکھے گئے ہیں۔ اس مجموعے میں علم و ادب سے وابستہ کئی شخصیات کا تذکرہ موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments