کیا سیاسی بحران ٹل سکے گا؟


کیا پاکستان کا سیاسی بحران ٹل سکے گا؟ یہ وہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے جو عمومی طور پر قومی سیاسی و سماجی مجالس سمیت اہل دانش کی علمی و فکری نشستوں میں مباحث کا حصہ ہوتا ہے۔ لوگ اپنی اپنی عملی صلاحیتوں کی بنیاد پر تجزیہ و تبصرہ کرتے ہیں یا آگے بڑھنے کے حوالے سے تجاویز کو بھی سامنے رکھتے ہیں۔ کچھ تجاویز میں دلائل ہوتے ہیں اور کچھ میں خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سنجیدہ افراد جو انفرادی یا اجتماعی سوچ رکھتے ہیں وہ حالات سے نالاں بھی ہیں اور کچھ مایوسی کا عنصر بھی غالب ہے۔

لوگوں کو لگتا ہے کہ ہمارا سیاسی بحران کسی بھی صورت میں حالات کو بہتر بنانے کی بجائے اس میں اور زیادہ بگاڑ کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اسی طرح یہ سوچ بھی غالب ہے کہ کیا واقعی ریاستی، حکومتی یا ادارہ جاتی سطح پر موجود فیصلہ ساز افراد انفرادی یا اجتماعی طور پر حالات کو درست کرنا بھی چاہتے ہیں یا ان کی ترجیح ہی موجودہ سٹیٹس کو کو برقرار رکھ کر معاملات کو روایتی انداز میں ہی چلانا چاہتے ہیں۔

اس وقت ملک میں مختلف طبقات جن میں سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی و فکری افراد شامل ہیں ایک بڑی سیاسی تقسیم کا شکار ہیں۔ اس تقسیم کا ایک نتیجہ جذباتیت پر مبنی سیاست یا شخصیت پرستی سے جڑے معاملات بھی ہیں۔ یہ تقسیم افراد کے ساتھ ساتھ اب ہمیں اداروں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے جو معاملہ کی سنگینی کو اور زیادہ اجاگر کرتی ہے۔ جب لوگ خود کو ایک خاص ایجنڈے یا نقطہ پر ایشو یا فرد کے درمیان پھنس جاتے ہیں تو اس سے آگے بڑھنے کے امکانات کم اور محاذ آرائی کی سیاست زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

یہ ہی صورتحال اس وقت ملکی سیاست کی ہے جو عملی طور پر ”عمران خان کی مخالفت اور عمران خان کی حمایت میں تقسیم“ ہو گئی ہے۔ ماضی میں یہ سیاست ہمیں بھٹو کی مخالفت اور ان کی حمایت میں نظر آتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی فریقین ایک ہو کر تنہا بھٹو کی سیاست کا مقابلہ کرتے تھے۔ اب یہ ہی حال آج کی سیاست کا ہے جہاں عمران خان مخالفت میں سارے سیاسی فریقین ایک کیمپ میں جبکہ عمران خان تنہا ان تمام قوتوں کے خلاف اپنی سیاسی لڑائی لڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔

عمران خان تین بنیادی مطالبات کے ساتھ مزاحمت کر رہا ہے جن میں اول فوری طور پر اسمبلیوں کی تحلیل، دوئم نگران حکومت کا قیام، سوئم ملک میں منصفانہ اور شفاف انتخابات۔ جبکہ اس کے برعکس تیرہ جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد بھی تین نقاط پر کھڑی ہے۔ اول عام انتخابات اگست 2023 میں کروانے کا فیصلہ، دوئم انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات کی منظوری، سوئم عمران خان کی مزاحمتی تحریک کا مقابلہ کرنا اور ان کی ڈکٹیشن پر فوری انتخاب سے گریز شامل ہے۔

عمران خان سیاسی میدان میں ہیں اور ان کے بقول وہ نہ تو اس امپورٹڈ حکومت کو قبول کریں گے اور نہ ہی فوری انتخابات کے مطالبہ سے دست بردار ہوں گے۔ 25 مئی کو ہونے والا عمران خان کا لانگ مارچ ان کو وہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا جو وہ چاہتے تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں نے دھرنے کو ملتوی کرے مزید حکومت کو اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے چھ دن دیے تھے جو مکمل ہو گئے ہیں۔ اب وہ اگلی منصوبہ بندی کے تحت اسلام آباد کی طرف دوبارہ میدان سجانا چاہتے ہیں۔

لیکن اس سے قبل وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ ان کے احتجاج کا سیاسی و آئینی حق کو تسلیم کرے اور حکومت کو پابند کرے کہ وہ ان کے احتجاج میں تشدد، مار پیٹ، گرفتاریاں اور داخلی و خارجی راستوں کی بندش کے خلاف فیصلہ دے۔ جبکہ اس کے برعکس وزیر داخلہ اور حکومت طے کرچکے ہیں کہ عمران خان کو کوئی سیاسی ریلیف نہیں دیا جائے اور نہ ہی ان کو کسی بھی قسم کے لانگ مارچ یا دھرنے کی اجازت ہوگی۔ مسلم لیگ نون اور ان کی اتحادیوں کی حکمت عملی سیاسی سے زیادہ انتظامی اور طاقت سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ ہی حکمت عملی ہمیں 25 مئی کے احتجاج میں بھی دیکھنے کو ملی تھی اور اب بھی اسی حکمت عملی کے تحت عمران خان سے نمٹا جائے گا۔ دیکھنا ہو گا کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ دیتی ہے اور کیا وہ ایسا فیصلہ کر سکتی ہے جو خود حکومت کے لیے کسی بڑی مشکل کا سبب بن سکے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی عمران خان اپنی مزاحمت کی بنیاد پر فوری انتخابات کے مطالبہ کو منوا سکیں گے یا ان کو واقعی اگست 2023 تک انتخابات کا انتظار کرنا ہو گا۔ لیکن اس سے قطع نظر حکومت اور حزب اختلاف میں کس کا مطالبہ پورا ہوتا ہے مگر ایک بات تو طے ہے کہ اس وقت مسئلہ محض انتخابات کا نہیں ہے یہ فوری ہوں یا اپنے وقت پر مسئلہ اس سے بڑھ کر ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کا ہے۔ یہ مسئلہ ریاستی مسئلہ ہے اور اس بحران کو حل کیے بغیر ہم نہ تو مضبوط ریاست بن سکیں گے اور نہ ہی یہاں کوئی مضبوط حکمرانی کا نظام قائم ہو سکے گا۔

ہماری عملی ضرورت ایک مضبوط حکومت ہے اور ایسی حکومت جس کے پاس واضح اور شفاف مینڈیٹ ہو اور جو چند ووٹوں کے سہاروں یا اپنے مفاد پر مبنی اتحادیوں کی مرہون منت نہ ہو۔ کیونکہ کمزور حکومت سے کسی بڑے سیاسی و معاشی معجزے کی توقع رکھنا فضول ہے اور اس طرز کی حکومت سوائے مسائل کو بڑھانے کے اور کچھ نہیں کر سکتیں۔ اس وقت کے سیاسی حالات اور سیاسی تقسیم بتا رہی ہے کہ اگر نئے انتخابات فوری ہوں یا اگلے برس اس کے نتیجے میں کسی ایک جماعت کی مکمل بننے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کمزور بنیاد پر ہی چلے گا اور اس میں کسی بڑے معجزے کی توقع کم ہے۔

پاکستان کی حالیہ ضرورت ایک بڑے سیاسی، سماجی، انتظامی، قانونی اور معاشی روڈ میپ کی ہے۔ ایک ایسے روڈ میپ پر جس پر سب سیاسی فریقین کا اپنی ذاتیات پر مبنی سیاست سے باہر نکل کر ریاستی مفاد پر اعتماد یا اتفاق ہو۔ لیکن حالیہ سیاسی تقسیم اور نفرت، تعصب اور سیاسی دشمنی کی بنیاد پر چلنے والی سیاست میں سے مفاہمت کا عمل کیسے ہو گا اور کون اس ایجنڈے کو بنیاد بنا کر سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرے گا۔ اس وقت ہمیں اپنی اصلاح کے لیے ایک بڑے پیمانے پر Structural Reforms and frame work درکار ہے اور اس کے لیے روایتی طرز کی حکمرانی اور فرسودہ خیالات پر مبنی حکمرانی کے انداز نہیں درکار۔

ہمیں بہت سے مسائل کا حل Out of Box درکار ہے اور اس کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہوں گے۔ کیونکہ اس وقت جو ملکی سیاست میں انتخابات کی بحث چل رہی ہے اور اگر یہ ہو بھی جاتے ہیں تو اس کی کیا شرط ہے کہ ہارنے والے اس کو تسلیم کر کے جیتنے والے کا مینڈیٹ تسلیم کریں۔ یہ سیاسی اور جمہوری روایت ہمارے پاس نہیں اور اس کے فقدان سے شفافیت پر مبنی نظام پس پشت چلا گیا ہے۔ ہم ان ہی انتخابات کے نتائج کو شفاف تسلیم کرتے ہیں جو ہماری جیت کی صورت میں آتے ہیں وگرنہ دوسری صورت انتخابات اور دھاندلی پر مبنی بیانیہ ہی ہوتا ہے۔

اس وقت اصل مسئلہ حکمرانی اور ریاست سے جڑے نظام کی درستگی کے لیے ایک بڑے مکالمہ کا ہے۔ یہ مکالمہ ناگزیر ہو گیا ہے اور اس کو یقینی بنانے کے لیے لیڈ سیاسی فریقین کو لینی ہوگی اور باقی فریقین اس مکالمہ کا حصہ بنیں اور ایک ایسا روڈ میپ سامنے لائیں جو کسی برسوں تک ہماری ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ حکومت کسی کی بھی ہو یہ معاملات کسی ایک بڑے فریم ورک میں طے ہونے چاہیے کہ ہم کیسے نظام کو چلائیں گے اور جو فریم ورک ہو گا اس سے کسی بھی صورت انحراف نہیں کیا جائے گا۔

پاکستان کا اہل دانش کا طبقہ یا رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے افراد یا ادارے شخصیات یا جماعتی وابستگی سمیت اپنے ذاتی مفاد سے باہر نکلیں اور ایک ایسی بحث کو جنم دیں جو ملکی سیاست میں ایک متبادل عمل کی سیاست کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو۔ ہمارا موجودہ روایتی نظام اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور اس سے امید لگا کر یہ توقع کرنا یہ نظام واقعی حقیقی تبدیلی کی جانب بڑھ سکے گا۔ ہمارا مجموعی سیاسی نظام جن میں سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت، اسٹیبلیشمنٹ، انتظامیہ اور ادارہ جاتی عمل سے جڑے معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک نئی سیاسی جہت کی ضرورت ہے۔ جہاں سب فریقین اپنے سیاسی، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں رہ کر ایک مضبوط ریاست اور مضبوطی حکمرانی کے ایجنڈے کو یقینی بنائیں۔ کیونکہ ہماری منزل ایک ذمہ دار ریاست اور ذمہ دار حکومت یا حکمرانی کا نظام ہے جو خالصتاً عوامی مفادات کی ترجمانی سے جڑا ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments