پاکستان میں سیاسی ثقافتی زوال


ہمارے ہاں اقتدار کی شراکت دار طاقتوں کی سیاسی قوت حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کی رسہ کشی میں مجموعی سیاسی ثقافت کا بہت نقصان ہوا ہے۔

پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کی بدترین سیاسی تقسیم کا شکار ہے جو سماجی منافرت کو بھی پروان چڑھا رہی ہے۔ سیاسی مخالفتیں ذاتی دشمنیوں میں بدل چکی ہیں اور اس کی وجہ سے مخالفین ایک دوسرے کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کر رہے۔

پی ٹی آئی نے ایک سیاسی جدوجہد کو حق و باطل کی جنگ بنا دیا ہے اور اپنے آپ کو حق کا نمائندہ تصور کرتے ہوئے باقی تمام سیاسی قوتوں کو باطل کا پیروکار قرار دے دیا ہے اور اسی خطرناک بنیاد پر اداروں کو اپنی حمایت کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

اس تقسیم اور نفرت کی مہم کی وجہ سے تقریباً تمام سماجی طبقات اس ثقافتی زوال کا شکار نظر آتے ہیں۔ عموماً تعلیم یافتہ طبقے سے امید کی جاتی ہے کہ وہ سمجھداری اور منطق کی بنیاد پر سیاسی خیالات پر اختلافات رکھتے ہوں گے مگر موجودہ بحران میں اس طبقے نے سب سے زیادہ مایوس کیا ہے۔ اس سارے مباحثے میں سب سے زیادہ عدم برداشت اور عدم رواداری کا مظاہرہ یہی طبقہ کر رہا ہے۔

حال ہی میں ایک سینیئر سابق سرکاری ملازم اپنے ٹیلی ویژن پروگرام میں دھڑلے سے ایک امریکی مصنف کی پاکستان کے بارے میں کتاب کے حوالے سے اپنے ناظرین کو غلط معلومات فراہم کر رہے تھے۔ یہ گمراہ کن معلومات پی ٹی آئی کے حلقوں نے سوشل میڈیا پر پھیلائیں۔

یقیناً انہیں معلوم تھا کہ وہ غلط بیانی کر رہے ہیں لیکن چونکہ یہ غلط بیانی ان کے سیاسی عقیدے کے قریب تر تھی تو اپنی اعلیٰ تعلیم اور سابق اہم سرکاری عہدے کے باوجود انہیں اس غلط بیانی میں ذرا برابر جھجک محسوس نہیں ہوئی۔

اسی طرح کے بہت سارے سابق سرکاری ملازمین اس بیانیے کے فروغ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے سیاسی گفتگو میں رواداری کا فقدان، سخت جملوں کا تبادلہ اور اخلاق سے گری ہوئی زو معنی باتوں میں پچھلے دس سالوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

سیاسی عدم رواداری نے وفاق کی اکائیوں میں بھی فاصلے بڑھا دیے ہیں۔ پچھلی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں پوری کوشش کی کہ وہ سندھ میں حزب مخالف کی منتخب حکومت کا جینا دوبھر کر دے۔ انہیں اس مہم میں مقتدر اداروں کی مدد اور کچھ حد تک عدلیہ کی شہ بھی حاصل رہی۔ اس طریقہ کار سے وفاقی نظام میں شدید غیر ہمواری پیدا ہوئی اور ایسا لگا جیسے کہ وفاق اور صوبہ سندھ میں دو دشمن طاقتوں کی حکومت ہے۔ کشیدگی اس حد تک پہنچی کہ سابق وزیراعظم جب سندھ کا دورہ کرتے تو وزیراعلی ائرپورٹ پر ان کا استقبال کرنے سے گریزاں رہتے۔

اس صورت حال کی وفاقی حکومت ذمہ دار تھی۔ وفاق کی اکائیوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا وفاق کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر جب آپ ایک وفاقی اکائی کی منتخب حکومت سے سے بات کرنے سے انکار کریں، اسے غیر مستحکم کرنے کی فی الحال کوشش کریں اور اسے باطل کا نمائندہ قرار دیں تو وفاق اور اس کی اکائیوں میں ہم آہنگی کیسے برقرار رہ سکتی ہے اور وفاق کیسے مضبوط ہو سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کا سیاسی عدم برداشت کا یہی طرز عمل، ان کی وفاقی حکومت ایک آئینی اور قانونی عمل سے چھننے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے۔ پچھلے ہفتے ہی خیبر پختونخوا حکومت کے وزیر اعلیٰ اپنی پارٹی کے رہنما کے حکم پر اپنی کابینہ کے ساتھ اور اپنے تمام حکومتی وسائل جن میں سرکاری ہیلی کاپٹر اور پولیس اہلکار شامل تھے، اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے۔

بہتر تو یہ ہوتا کہ وزیراعلیٰ اپنے سیاسی احتجاج کو اپنے صوبائی وسائل کے استعمال کے بغیر ریکارڈ کراتے۔ اس طرح کا وفاق پر حملہ نہ صرف ہماری زوال پذیر سیاسی ثقافت کا مظاہرہ ہے بلکہ یہ وفاق کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ ایسا نظر آ رہا ہے کہ وفاق، صوبائی حکومت کے اس جارحانہ قدم پر کوئی آئینی پوزیشن لے گی اور شاید یہ گورنر راج کے نفاذ پر منتج ہو۔ یہ قدم نہ صرف جمہوری عمل کے لیے نقصان دہ ہو گا بلکہ خیبرپختونخوا اور وفاق میں مزید کشیدگی کا باعث بنے گا جس سے سیاسی حدت میں اضافہ ہو گا۔

اسی طرح کا غیر دانشمندانہ قدم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نے اٹھایا۔ انہوں نے بھی وفاقی حکومت کے خلاف اس احتجاج میں پورے سرکاری وسائل کے ساتھ حصہ لیا۔ اس نادانی پر مبنی قدم نے نہ صرف بھارت کو یہ کہنے کا موقع دیا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت میں سیاسی آزادیاں سلب کی جا رہی ہیں بلکہ ہمارے کشمیر کے موقف کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

پی ٹی آئی کے اس ناقابل فہم اقدام نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی سیاسی تقسیم کا آغاز کر کے پاکستانی سیاسی تلخی کا دائرہ مزید وسیع کر دیا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس واقعے کے بعد وفاق اور ان دونوں حکومتوں کے تعلقات میں سردمہری پیدا ہو جو ان حکومتوں اور ہمارے کشمیر کے موقف کے لیے مضر ثابت ہو سکتی ہے۔

صدر پاکستان وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اسی لیے پاکستان میں پچھلی دو فوجی بغاوتوں کے باوجود صدر فضل الہٰی چوہدری اور صدر رفیق تارڑ نے ایک باوقار رویہ اختیار کیا۔ حال ہی میں صدر آصف زرداری اور صدر ممنون حسین نے حکومت کی تبدیلیوں میں احسن طریقے سے اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کیا اور وفاق کے نمائندے کے طور پر آنے والی منتخب مخالف حکومتوں کے راستے میں کوئی آئینی اور قانونی روڑے نہیں اٹکائے۔

مگر پی ٹی آئی کے نمائندے صدر عارف علوی نے سیاسی عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اعلیٰ آئینی روایت کو بھی جوتے کی نوک پر رکھا اور آئینی اور قانونی طور پر منتخب وزیراعظم سے مشکوک وجوہات کی بنیاد پر حلف لینے سے انکار کر دیا۔ وہ نہ صرف اپنی آئینی ذمہ داریوں سے اجتناب کرتے رہے بلکہ ان کی اب تک یہ کوشش جاری ہے کہ کسی نہ کسی طرح موجودہ وفاقی حکومت کو چلنے نہ دیا جائے۔

وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ تمام پاکستانیوں کے وفاق کے نمائندے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ایک رکن ہیں اور سابق وزیراعظم کے احکامات کے تابع ہیں۔ اگر موجودہ حکومت کے پاس پارلیمان میں ضروری عددی دو تہائی اکثریت ہوتی تو اب تک عارف علوی تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہوئے ہوتے۔

پاکستان میں جاری سیاسی عدم رواداری کا جلد از جلد خاتمہ ضروری ہے۔ سیاست کو حق و باطل کی جنگ نہیں بنانا چاہیے جب کہ آپ کی اپنی صفوں میں آپ کے بقول ’پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو‘ شامل ہو اور آپ کی پارٹی کا سیکریٹری جنرل وہ شخص ہو جسے آپ نے خود بدعنوانی کی بنیاد پر اپنی کابینہ سے فارغ کیا ہو۔ اگر آپ عوام کو یہ باور کروانے پر مصر رہے کہ صرف ایک سیاسی جماعت ہی ملک سے وفادار ہے تو یہ رویہ وفاق کی جڑوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔

اگر یہی سیاسی رویہ جاری رہا تو سیاسی قوتوں اور دیگر غیر سیاسی شراکت دار طاقتوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا مگر وفاق مزید کمزور ہوتا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments