دعا زہرا بہاولنگر سے شوہر سمیت بازیاب، کراچی پولیس کے حوالے


کم عمری میں شادی
پنجاب پولیس نے تصدیق کی ہے کہ اُنھوں نے کراچی کی رہائشی کمسن لڑکی دعا زہرا کو بازیاب کروا کر کراچی پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کامران عادل کے مطابق دعا زہرا اور ان کے شوہر ظہیر کو لاہور پولیس نے ضلع بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں سے بازیاب کروایا ہے۔

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے لاہور پولیس کو حکم دیا تھا کہ دعا زہرا کو 10 جون تک بازیاب کروائیں اور انھیں ٹریس کرنے کے لیے ایس ایس پی انوسٹی گیشن کی سربراہی میں سی آئی اے لاہور نے مختلف ٹیمیں تشکیل دے رکھی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ دعا زہرا اور ان کے شوہر ظہیر نے اپنے بھائی کے ایک سسرالی رشتے دار کے گھر پناہ لے رکھی تھی۔

واضح رہے کہ دعا زہرا رواں سال اپریل میں کراچی سے لاپتہ ہو گئی تھیں۔ بعد میں اُنھوں نے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ اُنھوں نے اپنی پسند سے شادی کر لی ہے۔

اُن کے والد مہدی علی کاظمی نے سندھ ہائی کورٹ میں اُن کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کر رکھی ہے۔

یاد رہے کہ پنجاب اور سندھ کے عائلی قوانین کے مطابق لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر بالترتیب 16 اور 18 برس مقرر ہے جبکہ اُن کے والد کا دعویٰ ہے کہ دعا زہرہ اس سے کہیں کم عمر ہیں۔

دعا کے والدین کا مؤقف ہے کہ ان کی بیٹی کی عمر 14 برس ہے اور ان کا جعلی نکاح نامہ بنایا گیا ہے۔

مہدی کاظمی کا کہنا تھا کہ ان کی شادی سات مئی 2005 کو ہوئی تھی اور اس حساب سے دعا کی عمر ہرگز 18 برس نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان کی بیٹی کا جعلی نکاح نامہ تیار کروایا گیا۔

دعا کے والد نے درخواست کی تھی کہ ان کی بیٹی کو واپس کراچی لایا جائے اور یہاں بیشک انھیں چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں رکھا جائے۔ انھوں نے اس معاملے کی شفاف تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

اس سے پہلے پنجاب پولیس نے کہا تھا کہ اُنھوں نے اوکاڑہ سے دعا زہرہ کو بازیاب کروا لیا ہے اور اُنھیں عدالت میں پیشی کے بعد کراچی منتقل کیا جائے گا تاہم لاہور کی ایک عدالت نے پولیس کی جانب سے اُنھیں دارالامان بھیجنے کی درخواست مسترد کر کے اُنھیں اپنی مرضی سے جانے کی اجازت دے دی تھی۔

دعا زہرہ نے مجسٹریٹ کے سامنے کہا تھا کہ وہ خودمختار اور بالغ ہیں اور انھوں نے 17 اپریل کو ظہیر احمد سے اسلامی قوانین کے مطابق شادی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں اغوا نہیں کیا گیا تھا اور انھوں نے اپنے والدین کا گھر اپنی مرضی سے چھوڑا تھا۔

اس بیان میں دعا نے الزام لگایا تھا کہ 17 اپریل کو ان کے والد اور کزن زبردستی ان کے گھر میں داخل ہوئے اور انھیں مارا پیٹا اور محلے داروں نے ان کی جان بچائی۔

یہ بھی پڑھیے

دعا زہرا: پاکستان میں کم عمری کی شادیاں روکنا اتنا مشکل کیوں؟

دعا زہرا اوکاڑہ پولیس کی تحویل میں، ویڈیو پیغام منظرِ عام پر: ’بالغ ہوں، مرضی سے شادی کی‘

تاہم سندھ ہائی کورٹ نے سندھ پولیس کو دعا زہرا کو بازیاب کروانے کا حکم دے رکھا ہے اور اس سلسلے میں سابق قائم مقام پولیس سربراہ ڈاکٹر کامران فضل سمیت اعلیٰ پولیس حکام کی سرزنش بھی کی گئی ہے۔

یہاں تک کہ سندھ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ آئی جی سندھ پولیس کامران فضل اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر راضی نظر نہیں آتے اور کہا تھا کہ آئی جی سندھ کا چارج کسی مؤثر کارکردگی والے افسر کو دیا جانا چاہیے۔

اگلی سماعت پر سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان کی سرحدوں سے انسانی نقل و حمل پر کنٹرول کے ذمہ دار ادارے ایف آئی اے کو حکم دیا تھا کہ وہ یقینی بنائیں کہ دعا زہرا کو ملک سے باہر نہ لے جایا جا سکے۔

عدالت نے سٹیٹ بینک آف پاکستان اور نادرا کو بھی حکم دیا تھا کہ اس کیس میں شامل افراد کے بینک اکاؤنٹس اور قومی شناختی کارڈ بلاک کیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments