عوام کو بچائیں، عوام ہی ریاست ہیں


پاکستان کے لیے سفارتی دنیا بالخصوص بڑے ممالک کی جانب سے مثبت خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ایک طویل عرصے سے لاہور میں چینی قونصل جنرل تعینات نہیں تھے بلکہ قائم مقام قونصل جنرل موجود تھے لیکن اب چین نے قونصل جنرل لاہور میں مقرر کر دیا ہے۔ دوستانہ مزاج رکھنے والے نئے قونصل جنرل نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ ہی مجھے ملاقات کا موقع دیا۔ پہلی ملاقات ہی میں دنیا جہان کے امور زیر گفتگو رہے۔ اول تو اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ چین نے محسوس کیا کہ اب لاہور میں دوبارہ سے مستقل قونصل جنرل موجود ہونا چاہیے۔

قونصل جنرل کی خواہش یہ محسوس ہوئی کہ وہ یہاں سے بہت واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہے۔ انگنت سوالات تھے جو ان کے ذہن میں تھے اور کافی ہوم ورک کے ساتھ تھے جو انہوں نے پوچھ لئے بلکہ انہوں نے مجھے رخصت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ سے بہت سارے معاملات کو سمجھا ہے۔ چین کے حوالے سے جب شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب تھے تو انہوں نے ایک چین ڈیسک قائم کیا تھا پنجاب 12 کروڑ کا صوبہ ہے جو کئی ممالک سے بھی بڑا ہے اس میں اب اس وقت چین ڈیسک سے بھی زیادہ فعال اقدامات کی ضرورت ہے جو باہمی روابط کو مزید مضبوط کر سکے۔

میں مستقل اس پر تحریر کر رہا تھا کہ کوئی چار برسوں سے امریکی سفیر پاکستان میں تعینات نہیں بلکہ سٹیشن کمانڈر سی آئی اے معاملات کو چلا رہا تھا۔ اب جمہوری حکومت بحال ہوئی ہے تو امریکہ نے اپنا سفیر بھی بھیج دیا ہے۔ مگر ادھر شدید حیرانی ہے کہ صدر عارف علوی نے ابھی تک اسناد سفارت وصول نہیں کیں۔ صدر ایسا کیوں کر رہے ہیں تو اس کا یہ جواب نہیں ہے کہ ان کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں بلکہ صدر کے پیش نظر صرف یہ ہے کہ شہباز شریف حکومت کے لئے مشکلات بڑھیں۔ صدر عارف علوی کو مثبت جمہوری رویہ اختیار کرنا چاہیے۔

میں پہلے بھی بیان کرتا رہا ہوں کے دفتر خارجہ اور اس سے متصل اداروں کی از سر نو تشکیل کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کے لیے یہ تو سردست ممکن نہیں ہے کہ وہ سی ایس ایس کے نظام میں دفتر خارجہ کے حوالے سے تبدیلی لائیں مگر ان سفیروں کے امور پر فوری توجہ درکار ہے جن کو گزشتہ حکومت نے کنٹریکٹ پر تعینات کیا تھا۔ اب حکومت کی تبدیلی کے سبب سے یہ اپنی تعیناتی کے مقام پر بھی غیر متعلق ہو گئے ہیں اور یہ اقوام متحدہ، امریکہ جیسے اہم مقامات پر موجود ہیں جہاں پر ایک لمحے کے لئے بھی غیر متعلق ہونے کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ کسی تاخیر کے بنا ان سفیروں کے حوالے سے فیصلہ کر کے نئے لوگ تعینات کر دیے جائیں۔

اسی طرح تھنک ٹینکس جیسے انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک سٹڈیز وغیرہ کو پینشنروں کی پناہ گاہ بنا دیا گیا ہے اس کو فوری طور پر ختم کیا جائے کیونکہ یہ اسٹیٹس کو کے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی نوکری بچانے کی وجہ سے کوئی بولڈ قدم اٹھانے سے معذور ہوتے ہیں۔ اس کی تجزیاتی رپورٹ تیار کروانے کے لیے جو بجٹ ان اداروں کو دستیاب ہیں ان میں سے کتنا تحقیقاتی رپورٹیں تیار کرنے پر خرچ ہوا اور کتنا چائے پانی پر تو سامنے آئے گا کہ یہ سب کچھ تنخواہوں، چائے پانی پر ہی اڑ گیا۔

خانہ فرہنگ ایران نے خمینی صاحب کی برسی کے موقع پر دعوت تقریر دی تو وہاں یاد کروایا کہ میں نے 2016 میں تہران میں اسی نوعیت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، جس کے مہمان خصوصی احمد خمینی تھے، کہا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کو اپنے معاملات طے کرنے کے لیے ایسی اعلیٰ ترین سطح پر گفتگو کرنی چاہیے جو کہ کوئی فیصلہ کر سکے۔

اس وقت سعودی عرب میں شاہ سلمان اور ایران میں خامنائی صاحب موجود ہیں یہ دونوں بزرگ اتنی حیثیت کے حامل ہیں کہ اپنے ممالک کے معاملات پر گفتگو کرسکیں اور ان کا حل تلاش کر سکیں۔ اگر ان میں سے کوئی بھی راہی ملک بقا ہو گیا تو یہ ایک نسل، ایک عہد کا خاتمہ ہو گا اور پھر ان کی جگہ جو چہرے سامنے آئیں گے ان پر ان کی قوموں کو وہ اعتماد نہیں ہو گا جو موجودہ قیادت پر ہے۔ اس لئے ان کی موجودگی کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور ان دونوں کو براہ راست گفتگو کا آغاز کرنا چاہیے کیونکہ وزرائے خارجہ کی سطح پر گفتگو سے سوائے نشستن گفتن برخاستن اور کچھ حاصل نہیں ہو گا اور اس کے بد اثرات عالم اسلام اور وطن عزیز پر مستقل طور پر نمودار ہوتے رہیں گے۔

مسلم لیگ نون کے حوالے سے یہ تصور راسخ ہے کہ یہ بہتر معیشت چلاتے ہیں اور یہی چیلنج ہے کہ اس تصور کو مزید مضبوط کیا جائے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تو آئی ایم ایف کے سابقہ حکومت سے معاہدے کی وجہ سے اور ملک کے معاشی حالات کے سبب سے بڑھانی ہی تھیں جس کے برے اثرات صرف پیٹرول تک محدود نہیں رہیں گے۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ عوام اتنی بات نہیں سمجھتے کہ یہ سب فلاں معاہدے کے سبب سے ہوا ہے۔ ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر ہم بین الاقوامی معاہدوں سے تو پھر نہیں سکتے۔ لیکن عوام کو ریلیف دینے کے لیے کیا کیا جائے؟

ڈاکٹر اکمل حسین نے موبائل فون سے لے کر سوئس چاکلیٹ تک ایسی چیزوں کی فہرست بیان کی ہے کہ جن کی امپورٹ پر پابندی لگا کر دس ارب ڈالر کی ترسیلات زر روکی جا سکتی ہیں۔ اگر پابندی نہیں لگائی جائے بلکہ ان اشیا کی جو اس وقت قیمت ہے اتنا ہی ٹیکس عائد کر دیا جائے تو قومی خزانے میں اچھا خاصا اضافہ ہو گا۔ یہ ہے ابھی امیروں کے اللے تللے کیونکہ دو چار لاکھ کے موبائل فون سے لے کر سوئس چاکلیٹوں تک کا استعمال ان لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے جو بیس تیس ہزار روپے کما رہے ہیں اور بمشکل اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔

اسی طرح گزشتہ بجٹ میں امیر طبقات کے لئے ایک سو تیس ارب روپوں کی ٹیکسوں میں مراعات دی گئی تھیں۔ ان ٹیکس مراعات کو فوری طور پر اس بجٹ میں ہی واپس لے لیا جانا چاہیے۔ اور جو رقم ان اقدامات سے قومی خزانے کو میسر آئے وہ صرف پیداواری سرگرمیوں پر خرچ کی جائے جس کا تعین بجٹ میں ہو تا کہ اگلے سال تک عوام مثبت اثرات محسوس کر رہے ہوں کیوں کہ ریاست بھی بچنی چاہیے، ریاستی ادارے بھی بچنے چاہئیں مگر یہ سب تب ہی بچیں گے جب عوام بچیں گے کیوں کہ حقیقی طور پر عوام ہی ریاست ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments