پانچ ہزار کی صابن دانی کار سے ساڑھے چھ ہزار کے پٹرول تک


عزیزم خیام بتا رہا تھا کہ پٹرول مہنگا ہونے کے بعد فارماسوٹیکل کمپنی نے جس میں وہ مارکیٹنگ کے شعبے میں مینیجر ہے سفر میں پٹرول کے اخراجات پر بہت پابندیاں عائد کردی ہیں اور شاید اب کچھ فیصد پلؔے سے بھی نکل جائے۔ پوچھ بیٹھا کہ بیٹا اب لاہور آنے جانے کے لئے کتنے کا پٹرول پڑے گا تو جواب میں ساڑھے چھ ہزار روپے کا عدد سنتے ہی چکر سا آ گیا۔ ”ارے عزیز میں نے جب پہلی صابن دانی کار لی تھی تو لاہور آنے جانے شہر میں گھومنے سمیت میں کل خرچہ پٹرول موبل آئل وغیرہ سمیت بیس روپے شمار کرتا“ ۔

بات ساٹھ کی دہائی میں پہنچ گئی تھی اور وہ پوچھ رہا تھا کہ صابن دانی کار کیا چیز تھی۔

ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں مورس اور آسٹن کی منی مائنر چھوٹی سی کار بہت مقبول تھی۔ وہی جو پچھلی چھ دہائیوں سے ابھی تک مقبول چلی آتی انگریزی مزاحیہ سیریز مسٹر بینز کے ہیرو کے پاس نظر آتی ہے۔ اندر سے خاصی کشادہ مگر باہر سے بالکل چھوٹی سی نظر آتی اس کار کو جانے کس ستم ظریف نے صابن دانی پکارنا شروع کیا تھا کہ ہر جگہ ”یہی نام ہے تمہارا“ بن چکا تھا۔ اور ہم نے چھیاسٹھ میں انیس سو ساٹھ ماڈل کی یہ کار کار کی واقعی ضرورت کی نسبت موٹر سائیکل سکوٹر سواروں سے پولیس کی یک دم بڑھتی محبت و الفت کے باعث گپ شپ مارتے اپنے ہمسائے دکاندار سے خریدی تھی جو بعد پولیس کا احسان ہی لگا۔ ایک گیلن ( ساڑھے چار لیٹر ) پٹرول میں تقریباً پچاس میل یعنی اسی کلومیٹر جانے والی کار پہ لاہور جاتے واپسی پہ دکان کے لئے خریدا سامان بھی بھرا ہوتا اور کل خرچہ بیس روپے شمار ہوتا کہ پٹرول چار روپے گیلن یعنی اسی پیسے فی لیٹر ہو چکا تھا۔

انیس سو تریسٹھ میں پہلی موٹر سائیکل ٹرائمف ٹائیگر کب دو سو سی سی خریدا تو پٹرول دو روپے تیرہ آنے فی گیلن یعنی تریسٹھ پیسے فی لیٹر تھا اور یہ بائیک ایک گیلن میں کوئی ایک سو دس میل کا اوسط دیتی رہی۔ دو سال بعد اسے بیچ سوزوکی اسی سی سی کی نسبتاً انتہائی ہلکی پھلکی موٹر سائیکل پہ آ گئے جو ایک گیلن میں دو سو دس میل لمبے سفر میں اور شہر میں ایک سو ستر میل طے کرتی۔ انہی دنوں پولیس یک دم مہربان ہونا شروع ہو گئی اور ہر بڑے چوک پر ہر دم کوئی سپاہی کسی موٹر سائیکل یا سکوٹر سوار کو روکے کھڑا نظر آنے لگا کاغذ پورے ہونا یا کوئی غلطی نہ ہونا بھی جرم ٹھہرا۔

چالان کی طرف تو یہ مہربان شاذ ہی جاتے بس دس روپے میں سودا ہوتا۔ پینسٹھ کی جنگ شروع ہوئی تو سلسلہ رکا رہا مگر چند ماہ بعد پھر شروع تھا۔ ایک روز ہماری باری جی ٹی ایس چوک پہ آئی تو سپاہی نے پہچان لیا کہ ہم تو اس کی ریل بازار پولیس چوکی میں تعیناتی کے دوران اس کے ہمسایہ دکاندار تھے۔ ہنستے ہوئے بتانے لگا کہ بھائی اپنے لائل پور کے پولیس سربراہ حاجی۔ زئی صاحب نے کار خریدنی ہے۔ مجھے ڈیوٹی کے بعد دو سو روپے چوکی میں جمع کرانا ہیں جس میں سے سو روپیہ کار فنڈ میں جمع ہو گا باقی چوکی کا اور دو سو سے اوپر کا میرا۔ بس ہر چوک کی فیس ٹریفک مطابق ہے۔ کار خرید والی بات تو حاجی صاحب کی عمومی نیک نامی کی وجہ سے کہانی لگی اور باقی سچ کہ دس روپے تو دینا پڑے تھے۔

دس ماہ کا حساب یہ بنا کہ کل خرچہ پٹرول کا ستر روپے اور کار فنڈ اسی روپے جا چکا تھا۔ ایسے میں اپریل چھیاسٹھ کے ایک دن اپنے اولڈ پارٹس ڈیلر ہمسائے کے پاس چند دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے اس صابن دانی کار کا سودا پانچ ہزار میں ہوا جس میں تین چار دن ڈرائیونگ سیکھنا بھی شامل تھا۔ کوئی پانچ ماہ بعد اسی دوست نے کہا کہ اس کے بچے اس کار کے لئے اداس ہیں چنانچہ قیمت خرید پہ ہی واپس دے دی اور انیس سو انسٹھ ماڈل کی فیئٹ 1100 کار ایک ٹرانسپورٹر نے دلوا دی۔

اس کار کے ساتھ اس کا ملیشیا کے کپڑے کا بنا کار ڈھانکنے والا کپڑا بھی تھا۔ ابھی چند ہفتہ گزرے تھے کہ شام کے وقت میرے سامنے پولیس چوکی ریل بازار کے ساتھ شاید تیسری دکان مجید پوشش ہاؤس کے مجید صاحب کا بیٹا میرے پاس کھڑا کہہ رہا تھا کہ ابو نے آپ کی کار ڈھانکنے والا کپڑا مانگا ہے کہ پولیس سربراہ حاجی صاحب کی کار کے لئے تیار کر کے دینا ہے۔ اسے دیکھ کر بنانے میں آسانی ہوگی۔ مجید پوشش ہاؤس کی طرف نگاہ دوڑائی تو وہاں نئی نکور فیئٹ 1100 کار سفید رنگ کی کھڑی تھی۔

فون کی گھنٹی نے چونکایا تو یاد آیا کہ خیام کی کال تو کب کی ختم ہو چکی تھی مگر ہم چھ دہائیوں قبل کے بیس روپوں کے ساڑھے چھ ہزار بن جانے کے سفر میں مصروف ہو گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments