پاکستان ٹوٹنے کے بارے میں عمران خان کے خدشات اور حقیقت


پاکستان کے سیاسی تاریخ میں عمران خان بلا مبالغہ اسٹبلشمنٹ کا سب سے چہیتا قریبی باخبر اور با اعتماد وزیراعظم تھا۔ جتنی بریفنگ میٹنگز اور معلومات ان کو ملٹری اسٹبلشمنٹ اور ملکی خطرات کے بارے میں ہوں گی ممکن نہیں کہ موجودہ سیاستدانوں میں کسی اور کے پاس ہوں۔ کیونکہ عمران خان کو ایک سویلین اور سیاسی لیڈر کی بجائے ایک ملٹری لیڈر کی طرح سسٹم کا حصہ بنا کر رکھا گیا تھا۔ اس لیے پہلی بار ایک سیاسی لیڈر کے لئے ہر ادارے کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ ہر وہ کام کرے جس سے عمران خان کی شخصیت پارٹی اور مقاصد کا حصول سہل تر ہو جائے۔

کل کی بات ہے کہ پہلی دفعہ اس کی خاطر خود آرمی جرنیل کھلم کھلا میڈیا کو کئی بار چھ چھ کی مہینے مثبت رپورٹنگ کی ہدایات دیا کرتے تھے۔ اس لئے میں عمران خان کے اس انٹرویو کو نظر انداز کرنا یا کم ازکم توجہ حاصل کرنے کی کوشش قرار دینا نہیں مان سکتا، جس میں عمران خان نے سمیع ابراہیم کے ساتھ (فکسڈ انٹرویو میں ) ملک کے دیوالیہ ہونے، اس سے آرمی کا متاثر ہونے، اس کے بدلے میں یوکرین کی طرح ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے اور اس کے نتیجے میں خدانخواستہ ملک کے تین ٹکڑے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔

پاکستان کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا نظریہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل پیٹر رالف نے امریکی فوج کے میگزین میں 2006 میں اپنے ایک مضمون ’بلڈ بارڈرز، ہاؤ اے بیٹر مڈل ایسٹ ووڈ لک‘ مجوزہ نقشے کی صورت میں چھاپا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مشرق وسطیٰ کے سرحدات مغربی طاقتوں نے اپنے مفادات کے لئے مقامی لوگوں کے ساتھ انصافی کر کے بنائے ہیں، اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کئی ایک ممالک کے سرحدات نئے سرے سے خونی رشتوں کے بنیاد متعین کیے جانے چاہیے۔ تاکہ ممالک کے درمیان موجود ٹینشن اور مخاصمت ختم ہو جائے، جس کے نتیجے میں امریکی فوج مشرق وسطیٰ سے باآسانی نکل سکے گی۔

امریکہ میں پیٹر رالف کے آرٹیکل اور مجوزہ نقشے کو زیادہ اہمیت نہیں ملی اور وہ شاید اس لیے کہ مجوزہ نقشے کے مطابق مسلم دنیا کے تین اہم امریکی اتحادی ممالک یعنی ترکی سعودی عرب اور پاکستان نئے نقشے کے مطابق بڑی تبدیلیوں سے گزار کر بہت بری شکل میں دکھائے گئے ہیں۔ ترکی سے بڑا علاقہ کاٹ کر کردستان کا نیا ملک تخلیق کیا گیا، سعودی عرب کے تین ٹکڑے کر کے شیعہ ملک، مقدس سرزمین اور سعودی عرب بنائے گئے ہیں، جب کہ پاکستان کو دریائے سندھ کے کنارے کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹے ملک کے طور پر دکھایا گیا جس کے جنوبی علاقہ آزاد بلوچستان اور شمالی علاقے افغانستان کو دیے گئے ہیں۔

چند مہینے پہلے یہی بات ایک امریکی عہدیدار نے نئے انداز میں افغانستان کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کئی نسلوں پر مشتمل ملک ہے۔ جب تک اس کو نسلی بنیادوں پر تقسیم نہ کیا جائے اس کو سنبھالنا ممکن نہیں۔

افغانستان کے تقسیم کی یہ بحث بعض اوقات پاکستانی سوشل اور پرنٹ میڈیا میں کسی خاص اشارے پر اچانک ظہور پذیر ہو کر پھر اچانک معدوم ہوجاتی ہے۔

عمران خان سمیت افغانستان کے سارے نان پشتون عناصر طالبان کی موجودہ حکومت کو پختونوں کی حکومت سمجھتے ہیں جو کہ نسلی اعتبار سے سچ بھی ہے۔ لیکن طالبان کی ترجیحات پختون ولی کی بجائے حقانیہ مدرسہ طے کرتا ہے۔ اس لیے پختون نسلی طور پر طالبان کو پختون تسلیم کرنے کے باوجود ان کی حکومت کو ’پختونوں کی حکومت‘ مانتی نہ ان کی مزاحمت کو۔ جس کے وجوہات افغان طالبان کے پاکستانی ونگ ٹی ٹی پی کے ماضی میں پختون قوم پرستوں کا قتل عام اور خود طالبان کا اشرف غنی حکومت کو افغانستان سے باہر نکالنا ہے۔

اطلاعات کے مطابق افغانستان کے نان پختونوں نے ترکی میں مارشل عبدالرشید دوستم، صلاح الدین ربانی، کریم خلیلی، اسماعیل خان، استاد عطا محمد نور، استاد محمد محقق احمد ولی مسعود اور عبدالرب رسول سیاف (یہ پختون ہے ) ، نے حال ہی میں ایک میٹنگ کی ہے، جس میں دوسرے ممالک میں مقیم افغان حکومت کے مخالف عناصر جیسا کہ سابق وزیر داخلہ یونس قانونی اور احمد ضیاء مسعود نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔

افغانستان کے نان پشتون عناصر بڑی دیر سے افغانستان کو پشتون اور نان پشتون لائنز پر تقسیم کرنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہیں، لیکن ہمسایہ ممالک کے اپنے خدشات کی بناء پر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ کیونکہ نسلی بنیادوں پر تقسیم شیشے میں پیدا ہونے والے کریک کی طرح کہاں سے کہاں نکل جائے کہا نہیں جاسکتا۔ افغانستان میں سب سے بڑا سٹیک ہولڈر پاکستان کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان نسلی بنیادوں پر تقسیم ہو۔ پھر ازبکستان اور تاجکستان بھی افغانستان کے ریڈیکل ازبک اور تاجک باشندوں کو اپنی پر امن آبادی کے ساتھ ملا کر اپنے لیے ہمیشہ کی مصیبت نہیں بنائیں گے۔ اب بھی ایک افغان ازبک اور تاجک کے مقابلے میں افغان پشتون کو ازبکستان اور تاجکستان کا ویزہ باآسانی ملتا ہے۔

افغانستان کی نسلی بنیادوں پر تقسیم سے پاکستان کے اندر کیا کیا اثرات اور نئی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے اور اس سلسلے میں پیٹر رالف کا نقشہ کتنا ریلیونٹ ہے وہ ایک اور کالم کا متقاضی ہے۔

لوکل پٹواری اور گرداور کی طرح عالمی پٹواری اور گرداور بھی مختلف ممالک کے رقبے گھٹاتے بڑھاتے اور بحق سرکار ضبط کرتے رہتے ہیں۔ خصوصاً پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے نقشے یکسر بدل دیے گئے۔ بڑی طاقتیں معدوم ہو گئیں نئے ممالک ظہور پذیر ہوئے اور یہ سب بقول رالف پیٹر کے مغربی طاقتوں کے مفادات کے لئے کیا گیا ہے۔ رالف پیٹر بیشک امریکی فوج کا ریٹائرڈ افسر تھا لیکن نقشہ امریکی افواج کے رسالے میں چھپا جس سے ان کے سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کیونکہ ترکی پاکستان اور سعودی عرب کی تقسیم کے بارے میں رالف پیٹر کے الفاظ کا نچوڑ یہ ہے کہ یہ تینوں ممالک امریکہ کے آستین کے سانپ ہیں۔

پراجیکٹ عمران خان کیا تھا؟ باجوہ ڈاکٹرائن کے مقاصد کیا تھے؟ کیا یہ سب صرف نواز شریف اور زرداری کو سیاست سے بے دخلی تک تھا یا اس سارے مشق کے پس پردہ گہرے قومی مفادات کا تحفظ اور دشمن کے منصوبوں کا تدارک بھی مدنظر تھا؟ کیوں ضروری سمجھا گیا تھا کہ عدلیہ پریس معاشی نظام بین الاقوامی سفارتکاری اور عوام کو محض عمران خان کی خاطر اتنا کھلے انداز میں مینیج کیا جائے؟ اگرچہ سی پیک سمیت ہر ناکامی کا ملبہ آج عمران خان پر ڈالنے والے بھول جاتے ہیں کہ عمران خان ان رفعتوں تک خود نہیں پہنچا بلکہ اسے یہاں تک پہنچایا گیا تھا۔

کون کون سے مشورے منصوبے پاکستان کے خلاف غیرملکی سازشیں ان سازشوں کے خلاف بنائے گئے کاؤنٹر منصوبے عمران خان کے ساتھ بار بار زیر بحث لائے گئے ہوں گے؟ کیونکہ عمران خان پاکستان کے واحد خوش قسمت سیاستدان تھے جس کی رسائی حد درجہ اندرونی حلقوں تک تھی، جس کی روشنی میں ملکی صورتحال کے بارے میں جتنا عمران خان جانتا ہے، کوئی دوسرا سیاستدان نہیں جانتا۔ حلف رازداری کے تحت وہ منہ کھول سکتا ہے نہ ان وعدوں اور خطرات پر گفتگو کر سکتا ہے جو وعدے اس کے ساتھ کیے گئے تھے اور جو خطرات ملک کے لئے موجود تھے جب اس کو ساتھ ملا کر پراجیکٹ عمران اور باجوہ ڈاکٹرائن لانچ ہوئے تھے۔

اس لیے عمران خان فکسڈ انٹرویوز اور تقاریر کے ذریعے یاد دہانی کراتا ہوا ابھی بھی متعلقہ حلقوں تک پیغامات پہنچانے کی کوشش کرتا ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ کرنسی گر جائے گی تو دیوالیہ ہو جائیں گے جس سے آرمی ہٹ ہو کر نیوکلیئر اثاثوں سے دستبردار ہو جائے گی اور پھر عالمی پٹواریوں کی مرضی ہوگی کہ وہ کون سا رقبہ کس کے نام انتقال اور رجسٹری کراتے ہیں۔ عمران خان کو سنا جائے یوں یکسر نظر انداز نہ کیا جائے۔

 

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments