7 جون: غذا کی حفاظت کا عالمی دن


تحریر: نصرت سکندر | ترجمہ: یاسر قاضی

7 جون کا دن، ہر سال اقوام متحدہ کی جانب سے ’عالمی یوم غذائی حفاظت (ورلڈ فوڈ سیفٹی ڈے )‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

دور کوئی بھی ہو، خوراک کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کو یقینی بنانا، صحتمند زندگی کے لیے بے حد اہم ہے۔ اس سال، اس دن کو ”محفوظ غذا۔ اچھی صحت“ کے ’مرکزی خیال‘ (تھیم) کے تحت منایا جا رہا ہے۔ یہ دن انسانی صحت کے لیے غذائیت سے بھرپور خوراک کی اہمیت اور ضرورت پر زور دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جس سے انسانی ذہنی اور جسمانی صحت خواہ زندگی کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔

یہ دن منانے کا مقصد خوراک کی حفاظت، انسانی صحت، معاشی خوشحالی، زراعت، مارکیٹ تک رسائی، سیاحت اور پائیدار ترقی میں کردار ادا کرتے ہوئے خوراک سے پیدا ہونے والے خطرات کو روکنا، ان کا پتا لگانا اور اس کے انتظام میں مدد کے لیے توجہ مبذول کروانا خواہ کارروائی کی ترغیب دینا ہے۔ یہ عالمی دن اس امر کو یقینی بنانے کی کوششوں کو تقویت دینے کا ایک موقع ہے، کہ ہم جو غذا کھاتے ہیں، وہ محفوظ ہو۔

دنیا میں بھوک اور بدحالی ایک وسیع موضوع ہے، جس کی بابت سوچنے سے ہر ذی احساس کا دل بیٹھ جاتا ہے۔ یہ بالعموم دیکھا گیا ہے کہ مسائل سے بھرپور اس زندگی میں صحت کا خیال رکھنے کا اب جیسے کسی کے پاس وقت ہی نہیں رہا! جبکہ یہ سوچنا بے حد ضروری ہے کہ دن رات کی اس محنت کے بعد ہم اپنے زندہ رہنے کے لیے جس دو وقت کی خوراک کا انتظام کرتے ہیں، وہ خوراک ہمارے پیٹ میں جانے کے بعد ہمارے لیے مضر صحت تو نہیں! ؟ وہ غذا نقصان دہ وائرس، ٹاکسنس، بیکٹیریا، جراثیم یا کیمیکلز سے آلودہ تو نہیں! ؟ کہیں ڈبوں میں پیک مصنوعی خوراک مثلا: ڈیری مصنوعات کی تیاری میں بے احتیاطی تو نہیں برتی گئی! ؟ کیونکہ اکثر بیماریوں کی بنیادی وجہ یہی کوتاہیاں بنتی ہیں۔

محفوظ خوراک کی کثیر مقدار تک رسائی، تابندگیٔ حیات اور اطمینان بخش صحت کی کلید ہے۔ خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریاں، عام طور پر متعدی یا زہریلی نوعیت کی ہوتی ہیں، جن میں سے اکثر عمومی آنکھ سے نظر نہیں آتیں۔ یہ بیکٹیریا، وائرس، پیراسائٹس یا کیمیائی مادوں کی آلودگی، خوراک یا پانی کے ذریعے جسم میں داخل ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے میں فوڈ سیفٹی کا اہم کردار ہے کہ خوراک، فوڈ چین کے ہر ایک مرحلے میں (پیداوار سے لے کر پراسیسنگ، ذخیرہ ہونے، تقسیم، تیاری خواہ استعمال ہونے تک) محفوظ رہے۔

سالانہ اعداد و شمار کے مطابق، خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے متعلق اندازے کے لحاظ سے 60 کروڑ کیسوں کے ساتھ، غیر محفوظ خوراک، انسانی صحت اور دنیا کی معیشتوں کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے، جو غیر متناسب طور پر کمزور اور پسماندہ افراد، بالخصوص خواتین اور بچوں، تنازعات سے متاثر شدہ آبادیوں اور اپنے وطن سے بچھڑے لوگوں (آئی ڈی پیز) کو متاثر کر رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں ہر سال 4 لاکھ 20 ہزار لوگ غیر صحتمند کھانا کھانے سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں اور 5 برس سے کم عمر بچے، ہر سال ایک لاکھ 25 ہزار جانوں کے ضائع ہو جانے سے خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا 40 فیصد بوجھ اٹھاتے ہیں۔

سبزیوں، پھلوں اور دیگر خوراک، فارمز سے ذخیرہ ہونے اور پلیٹس میں پیش ہو کر ہمارے دسترخوانوں تک پہنچنے تک کے مراحل میں کسی بھی قسم کی کوتاہی، ہماری صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے اور اس کے دفاع کے لیے ہر سال اقوام متحدہ، اس دن کو ’عالمی ادارۂ صحت‘ (ڈبلیو۔ ایچ۔ او) اور اپنے ایک اور ذیلی ادارے (فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائیزیشن/ خوراک اور زراعت کی تنظیم) کے ساتھ مناتا ہے۔

اب وقت ہے کہ غذا کی حفاظت کے حوالے سے ہم میں سے ہر فرد کو اپنا اپنا کردار ادا کر کے اپنا اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا۔ دور حاضر میں مویشیوں کی پرورش سے لے کر باغبانی کی خوراک میں پیداوار تک نت نئے تجربات بھی ہو رہے ہیں، جو بھی اس ضمن میں کارگر ہو سکتے ہیں۔

اداروں کی سطح تک خوراک کے انتظام کے سرشتے (فوڈ مینیجمنٹ سسٹم) کے موثر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کے لیے خوراک کے تاجروں، آباد کاروں، کسانوں خواہ غذا استعمال کرنے والوں (کنزیومرس) تک، ہر کسی کو حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ساتھ ساتھ حکومتوں اور خوراک سے متعلق نجی اداروں کی مشترکہ کوششوں سے خوراک کو محفوظ بنانے کے عمل کو مضبوط بنانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے ’پائدار ترقی کے 17 اہداف‘ (سسٹینیبل ڈیویلپمنٹ گولس/ ایس۔ ڈی۔ جیز) میں سال 2030 ء تک بھوک کو سرے سے ناپید بنانے (زیرو ہنگر گول) کے غیر معمولی حصول کے چیلینج کو پورا کرنا بھی ایک اہم ہدف کے طور پر شامل ہے۔ جو اس کا ہدف نمبر دو ہے۔

مذکورہ تمام مقاصد کے حصول کے لیے، حکومت اور سول سوسائٹی کی جانب سے اس امر کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے، کہ ہر ادارے میں فوڈ سیفٹی کی معلومات، تعلیم و تربیت کو ممکن بنانے کے لیے خصوصی سیشنز منعقد کرائے جائیں۔ ہمارے کھانوں میں استعمال ہونے والے رنگوں اور اینٹی آکسائیڈ مٹھاس کے ذائقوں (فلیورس) کے مناسب اور متناسب استعمال کا خاص خیال رکھا جائے اور حکومت کی جانب سے اس بات کی سخت مانیٹرنگ کا اہتمام کیا جائے، کہ کھانے کی چیزوں میں ملاوٹ نہ ہو اور کھانے کی پیکنگ وغیرہ کے مراحل کو تسلی بخش بنایا جائے۔

اس ضمن میں ’عالمی ادارۂ صحت‘ (ڈبلیو۔ ایچ۔ او۔ ) کی جانب سے خوراک کو محفوظ بنانے کے 5 بنیادی اصول (خوراک کی صفائی کی پانچ کنجیاں ) بھی وضع کی گئی ہیں، جن پر عمل کرنے سے خوراک کی مناسب انداز میں حفاظت کے ساتھ ساتھ کھانے سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے زیادہ سے زیادہ بچا جا سکتا ہے۔ جن میں ( 1 ) ہاتھوں خواہ برتنوں کو صاف رکھنے ( 2 ) کچے اور تیار کھانے کو الگ الگ رکھنے ( 3 ) کھانے کو اچھی طرح پکانے ( 4 ) اس کو محفوظ درجۂ حرارت پر رکھنے ( 5 ) پکانے کے لیے صاف پانی کے ساتھ ساتھ دیگر اجزاء کے استعمال کے اصول شامل ہیں، جن پر عمل کرنے سے غذا کی حفاظت کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی وقت کی اہم ضرورت ہے کہ عوامی ایجنڈا میں فوڈ سیفٹی کو مرکزی دھارا میں شامل کیا جائے اور عالمی سطح پر خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا بوجھ کم کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments