منصورہ احمد: ایک متنازع شخصیت، ایک معتبر شاعرہ (2)


محترمہ ادا جعفری، کشور ناہید، زہرہ نگاہ، پروین فنا سید، فہمیدہ ریاض اور اسی درجے کی چند اور شاعرات کے قلم کی جنبش جب سست روی کا شکار ہو گئی یا یوں کہیے کہ ان کی شاعری منظر عام پر آنا جب کم ہو گئی تو دلداگان شعر و ادب نے شاعرات کے تخلیقی جوہر کی کمی کا شدت سے احساس کیا ایسے میں اچانک متعدد شاعرات سامنے آئیں۔ ان میں ایک نام پروین شاکر کا بھی تھا جبکہ سارہ شگفتہ کی آزاد اور نیم آزاد یا نثری نظمیں بھی اسی عہد میں مگر کم کم سامنے آئیں کیونکہ وہ اپنی نظمیں شائع کروانے کے بجائے امرتا پریتم کو لکھ کر بھیجنے کو ترجیح دیتی تھیں۔

نورین طلعت عروبہ، نوشی گیلانی، شاہدہ نور و دیگر نے اپنی شاعری شائع کرنے کروانے اور مشاعرے پڑھنے پر زیادہ توجہ دی بے شک محترمہ ماہ طلعت زاہدی کو شاعرات میں ایک بلند اور اعلی مقام حاصل رہا ہے اور ان کی حیثیت مسلمہ ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ مشاعروں سے گریزاں رہیں۔ اور جہاں تک شاعری کی اشاعت کا تعلق ہے تو ہمیں کہہ لینے دیجے کہ محترمہ ماہ طلعت زاہدی اس معاملے میں بھی معیار کو مد نظر رکھتی تھیں۔ چند مخصوص اور معیاری ادبی رسالوں اور جریدوں کو ہی اپنی تخلیقات بھیجتی تھیں۔ جبکہ منصورہ احمد بھی مشاعروں کی واہ واہ سے دور رہیں اور اپنی شاعری کو اپنے یا اپنے مخصوص اور قریبی حلقے تک محدود رکھنے میں کامیاب رہیں۔

ان سب میں پروین شاکر کی شاعری سب سے زیادہ مشہور اور ممتاز قرار پائی، نوشی گیلانی کی شخصیت اور شاعری دونوں ہی کو متنازع بنا کر پیش کیا جانے لگا اور پھر اچانک پروین شاکر ایک ”مبینہ“ حادثے میں داغ مفارقت دے گئیں۔ ادھر ”فنون“ میں منصورہ احمد کی خوبصورت نظمیں پہلے ہی شائع ہو رہی تھیں اور ان کے مداحوں کا حلقہ وسیع تر ہوتا جا رہا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے منصورہ احمد تمام شاعرات میں سب سے منفرد اور بلند قامت نظر آنے لگیں مگر ابھی تک منصورہ احمد کا کوئی شعری مجموعہ منظرعام پر نہیں آیا تھا۔ احمد ندیم قاسمی کے 81 ویں جشن ولادت کے موقع پر منصورہ احمد کا پہلا شعری مجموعہ ادبی افق پر ”طلوع“ ہوا۔

منصورہ احمد۔ کی 53 سالہ زندگی پر ایک نظر
نام : منصورہ احمد
والد کا نام : مرزا حبیب احمد
تاریخ ولادت۔ یکم جون 1958 ء
مقام ولادت : حافظ آباد
تعلیم۔ ایم اے انگلش 1982
وجہ شہرت : احمد ندیم قاسمی کی منہ بولی بیٹی
شاعرہ مدیرہ پبلشر اور مصنفہ
بانی و مینیجنگ ڈائریکٹر
اساطیر۔ پبلشرز / پبلیکیشنز۔ لاہور
شریک مدیرہ :۔ سہ ماہی فنون لاہور 1986۔ 2006
مدیرہ :۔ سہ ماہی مونتاج لاہور 2006۔ 2011
پہلا مجموعہ کلام۔ طلوع۔ 1997
(وزیراعظم انعام یافتہ 1998 مجموعہ)
دوسرا مجموعہ کلام
آسمان میرا ہے (مرتبہ 2010 ) (تاحال غیر مطبوعہ)
منصورہ احمد کی زندگی کے آخری تین چار برس شدید علالت میں گزرے اور پھر
وفات :۔ 8۔ جون 2011 ء لاہور

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ لاہور میں منصورہ احمد کے سانسوں کی گنتی پوری ہونے کے بعد انہیں ان کے آباوٴ و اجداد کے شہر حافظ آباد میں ہی سپرد خاک کر دیا

یہ حقیقت ہے کہ بڑے لوگ بہت کم کم ہی ہوتے ہیں بلکہ ایک ارب تیس چالیس کروڑ کی آبادی کو صرف ایک ”گلزار“ میسر آ سکا۔ اس ایک گلزار نے لاکھوں تخلیق کاروں میں بھی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کروا لیا اور سرحدوں سے (صرف جغرافیائی سرحدوں سے ) پار بھی گلزار کو لاکھوں پرستار میسر آئے اور وہ گلزار کہ جس کے ایک مصرع

”ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو“

نے منصورہ احمد کی تخلیقی اپج کو منظر عام پر لانے اور جوالا سلگانے میں اہم کردار ادا کیا اسی منصورہ احمد کو تخلیق کے ایک گھنے شجر کی ٹھنڈی اور مہکتی چھاؤں سے فیض یاب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اگر آپ منصورہ احمد کی نجی حلقے پر نظر ڈالیں تو آپ کو اس میں شامل ہر شخص کسی نہ کسی اعتبار سے علم و ادب اور تخلیق کاری میں پیش پیش نظر آئے گا اور پھر اگر آپ ”حلقہ فنون“ اور حلقہ اساطیر کی طرف آئیں گے تو شاید اس بات کا اندازہ کر سکیں کہ علمی، ادبی اور تخلیقی سطح پر جو جس قدر بلند مرتبے کا حامل ہو گا منصورہ احمد کے لیے اس قدر قابل تکریم ہو گا۔

منصورہ احمد کی خوبصورت شاعری کا مطالعہ کرتے وقت احساس ہوتا ہے گویا ہم خود بھی ان کے ہمراہ ہیں اور ہر منظر اور موضوع کو محسوس کر رہے ہیں مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قاری تخلیق کار کے ساتھ آدھے سفر تک ہی ہمسفر رہتا ہے کیونکہ وہ تو پاتال میں اس قدر گہرائی تک اترتی ہیں کہ جہاں سے دوبارہ ابھرنا یا باہر نکل آنا ہر ایک کے بس میں نہیں۔

منصورہ احمد ایک شدت پسند شاعرہ ہے بہت سی چھوٹی چھوٹی اور معمولی بلکہ معمولی سے معمولی بات کا شدت سے احساس کر کے پھر اسی شدت احساس کو شعری پیکر عطا کر دیتی ہیں، کبھی کبھی تو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس قدر حساس ہونا خود تخلیق کار اور اس کے قاری دونوں کے لیے خطرناک ہے اور بے شک منصورہ احمد ان خطرات سے کھیلتی ہیں اور ان خطرات سے کھیل کر ہی کھل کر سامنے آتی ہیں۔ منصورہ احمد کے مشاہدات اور تجربات انتہائی تلخ ہیں انہوں نے جو کچھ دیکھا ’سنا‘ سمجھا، پایا اس کو اسی انداز میں محسوس بھی کیا اور محفوظ بھی ”طلوع“ کا مطالعہ کر کے یہ بات انتہائی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ منصورہ احمد کی تخلیقی اپج سے انکار ممکن ہی نہیں البتہ طلوع پڑھ کر ایک اور احساس بھی ہوتا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوتا کہ ”طلوع“ کا قاری خوف زدہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ وہ تخلیق کاری کی اس شدت بلکہ حدت کو برداشت نہیں کر پاتا۔ اور ایسا اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ منصورہ احمد کی شاعری کی کیفیت ایسی ہے ہی نہیں کہ اس سے یک دم باہر آیا جا سکے اور یہ انداز اور اعزاز کم بلکہ بہت کم تخلیق کاروں کو حاصل ہوتا ہے یقیناً منصورہ احمد انہی میں سے ایک ہیں۔

میری خواہش تو یہ تھی کہ میں منصورہ احمد کی نظموں میں سے چند نظمیں منتخب کر کے اس کے اقتباسات بھی شامل تحریر کروں لیکن نہیں یہ کام بہت کٹھن ہے۔ منصورہ احمد کی تمام تر تخلیقات منتخب شدہ ہیں شاید مجھ سے مزید انتخاب نہیں ہو پائے گا۔ مجھے منصورہ احمد کے ”طلوع“ میں کوئی تخلیق تو کجا ایک مصرع تک ایسا محسوس نہیں ہوا جس کو میں نسبتاً کم اچھا کہہ سکوں۔ بہرطور بحالت مجبوری چند نظموں کے اقتباسات شامل تحریر کرنا برائے حوالہ اشد ضروری ہے۔

مگر پہلے منصورہ کی شاعری کے حوالے سے جون ایلیا کی رائے ملاحظہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ”منصورہ احمد ایک زبردست شاعرہ ہے اور پنجاب میں تو اس سے بہتر یا اس کے پائے کی شاعرہ ہے ہی نہیں“ ۔ طلوع کی اشاعت پر پروفیسر طاہر تونسوی کے تاثرات بھی توجہ طلب ہیں ملاحظہ ہوں ”طلوع کی اشاعت ادبی دھماکہ قرار پایا۔ اور یہ ثابت ہو کر رہا کہ منصورہ احمد منفرد اور چونکا دینے والے لہجے کی ایک خوبصورت شاعرہ ہے اور ان کے پہلے ہی شعری مجموعے“ طلوع ”نے ادبی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔“

گلزار لکھتے ہیں کہ ”منصورہ ایک کولمبس ہے۔ سمندروں پہ سفر کرتی ہے اور زندگی کے نئے نئے جزیروں کو تلاش کرتی ہے وہ جزیرے کبھی ایک صورت کی صورت میں نظر آتے ہیں کبھی تواریخ کی صورت۔ اس کی نظمیں پرسنل بھی ہیں اور اپنے دور کی روداد بھی اس کے مصرعے سانس لیتے ہیں تو چھو جاتے ہیں کبھی صبا کی صورت کبھی روشنی کے چھینٹے کی طرح۔ اس کی سطروں میں وقت کی تہیں رکھی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اس کی نظم پڑھ لینے کے بعد کئی بار محسوس ہوا کہ نظم کی افشاں میرے ہونٹوں پہ رہ گئی! ۔“

منصورہ احمد کی نظمیں ہی نہیں بلکہ غزلیں بھی حد درجہ خوبصورت ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں لیکن اس سے قبل ایک چھوٹی سی بات اور وہ۔ یہ لازمی نہیں ہے لیکن عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اردو ادب کے ایسے تخلیق کار کہ جن کا تعلیمی یا مطالعاتی پس منظر انگریزی ادب یا پھر دیگر زبانوں اور اردو ادب سے وابستہ رہا ہوتا ہے تو ان کی تخلیقات کی انفرادیت انہیں جداگانہ پہچان عطا کرتی ہے۔ اس حوالے سے بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن شاعرات میں ہی دیکھ لیجے تو بالکل سامنے کی مثالوں میں محترمہ پروین شاکر محترمہ ماہ طلعت زاہدی محترمہ فہمیدہ ریاض اور خود محترمہ منصورہ احمد اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نام ہیں۔ منصورہ احمد کی غزلیں بھی حد درجہ خوبصورت ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

زندگی موت کی امان میں ہے
چھاؤں سورج کے سائبان میں ہے
کل عدالت لگائیں گے بچے
محتسب آج کس گمان میں ہے
۔ ۔
کس قدر دشوار ہے ان شہروں میں رہنا
گھر کی چوکھٹ ڈھونڈنے میں ہجرتوں کے درد سہنا
پھر کسی کی آنکھ میں دیکھا گیا ہے موسم گل
کتنے دن کے بعد میں نے کوئی کھلتا رنگ پہنا
۔ ۔
مجھ کو حیرت کی صلیبوں سے اتارے کوئی
بے صدا شہر میں رہ کر ہی پکارے کوئی
کس طرح ناؤ چلے اتنے چڑھے پانی میں
تیری یادوں کا سمندر تو اتارے کوئی
تمام شہر میں تیرہ شبی کا چرچا تھا۔ ۔ منصورہ احمد
تمام شہر میں تیرہ شبی کا چرچا تھا
یہ اور بات کہ سورج افق پہ نکلا تھا
عجیب وجہ ملاقات تھی مری اس سے
کہ وہ بھی میری طرح شہر میں اکیلا تھا
میں سب سمجھتی رہی اور مسکراتی رہی
مرا مزاج ازل سے پیمبروں سا تھا
میں اس کو کھو کے بھی اس کو پکارتی ہی رہی
کہ سارا ربط تو آواز کے سفر کا تھا
میں گل پرست بھی گل سے نباہ کر نہ سکی
شعور ذات کا کانٹا بہت نکیلا تھا
سب احتساب میں گم تھے ہجوم یاراں میں
خدا کی طرح مرا جرم عشق تنہا تھا
وہ تیرے قرب کا لمحہ تھا یا کوئی الہام
کہ اس کے لمس سے دل میں گلاب کھلتا تھا
مجھے بھی میرے خدا کلفتوں کا اجر ملے
تجھے زمیں پہ بڑے کرب سے اتارا تھا
فراق آثار لمحوں کی دہائی کون دے گا۔ ۔ منصورہ احمد
فراق آثار لمحوں کی دہائی کون دے گا
ترے چہرے کے سورج میں دکھائی کون دے گا
مجھے اک بات کہنا ہے اسے کتنے یگوں سے
مگر صحرا کی وسعت میں سنائی کون دے گا
جو اک بیکل سی خوشبو میرے اندر پھوٹتی ہے
اسے اس کے دریچے تک رسائی کون دے گا
کسی کی قید سے چھٹنا تو خیر اک مسئلہ ہے
مجھے میرے ہی زنداں سے رہائی کون دے گا
میں سلطاں کے در دولت پہ اک دستک تو دے لوں
مگر اس ہاتھ کو ذوق گدائی کون دے گا
کس قدر دشوار ہے ان اجنبی شہروں میں رہنا۔ منصورہ احمد
کس قدر دشوار ہے ان اجنبی شہروں میں رہنا
گھر کی چوکھٹ ڈھونڈنے میں ہجرتوں کے درد سہنا
اس سے کرنا گفتگو بس آتے جاتے موسموں کی
اور سرگرداں ہوا سے اپنے دل کی بات کہنا
اب تو اس کی جستجو کا ایک ہی انداز ٹھہرا
تتلیوں کے ساتھ پھرنا خوشبوؤں کے ساتھ رہنا
پھر کسی کی آنکھ میں دیکھا گیا ہے موسم گل
کتنے دن کے بعد میں نے کوئی کھلتا رنگ پہنا
کو بہ کو پھرتے ہی کٹ جائے گی ساری عمر اپنی
کیا سرابوں کے نگر میں منزلوں کی قید سہنا
اک بھنور میں گھومتی ہے سانس کی کشتی ازل سے
اپنی فطرت ہی کہاں تھی پانیوں کے ساتھ بہنا
مجھ کو حیرت کی صلیبوں سے اتارے کوئی۔ منصورہ احمد
مجھ کو حیرت کی صلیبوں سے اتارے کوئی
بے صدا شہر میں رو کر ہی پکارے کوئی
کل تجھے دیکھنا چاہا تو عجب بات ہوئی
آنکھ پر ٹانک گیا چاند ستارے کوئی
میں تری ذات سے باہر بھی تری ذات میں ہوں
کیسے دکھلائے مجھے میرے کنارے کوئی
اس نئے دور میں بچوں پہ یہ کیا وقت پڑا
آگ میں جھونک گیا ان کے غبارے کوئی
کس طرح ناؤ چلے اتنے چڑھے پانی میں
تیری یادوں کا سمندر تو اتارے کوئی
رات کی آنکھ میں میرے لئے کچھ خواب بھی تھے۔ ۔ منصورہ احمد
رات کی آنکھ میں میرے لئے کچھ خواب بھی تھے
یہ الگ بات کہ ہر خواب میں گرداب بھی تھے
زندگی بانجھ سی عورت تھی کہ جس کے دل میں
بوند کی پیاس بھی تھی آنکھ میں سیلاب بھی تھے
زخم کیوں رسنے لگے اک ترے چھو لینے سے
دکھ سمندر تھے مگر موجۂ پایاب بھی تھے
چاند کی کرنوں میں آہٹ ترے قدموں کی سنی
اور پھر چاند کے ڈھل جانے کو بیتاب بھی تھے
کتنا آباد مرے ساتھ تھا سایوں کا ہجوم
کیسے تنہائی کے صحرا تھے جو شاداب بھی تھے

ولادت۔ یکم جون 1958 ء حافظ آباد۔ وفات۔ 8۔ جون 2011 ء


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments