لالچ موت سے کم نہیں


ہر کوئی زندگی میں نئی چیزیں اپنے تجربات و مشاہدات سے سیکھتا ہے ’عقلمند لیکن وہی کہلائے گا جو دوسروں کی غلطیوں سے عبرت حاصل کرے۔ جیسے پہیے کو ہر دفعہ نئے سرے سے ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ عین اسی طرح اپنا نقصان کروا کے ہی سیکھنا ضروری نہیں ہوتا۔ دوسروں کی کئی گئی غلطیوں سے سیکھنا ہی دانشمندی ہے۔ ایسے ہی بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی ’جو پچپن تک تو ضرور یاد رہے گی کہ اس کا اسلوب اور نتیجہ ہی ایسا تھا کہ آج کی روزمرہ کی زندگی میں کہیں نہ کہیں وہ لاگو ہوتا نظر آتا ہے۔

کہانی کچھ یوں تھی کہ کسی بادشاہ سلامت کا دور تھا اور بادشاہ سلامت بہت ہی غریب پرور ’بندہ نواز اور سخی طبیعت کے مالک تھے لیکن ساتھ ساتھ ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ بادشاہ سلامت جہاں دیدہ اور کائیاں شخصیت تھے اور وہ اپنی رعایا اور پرجا کی تربیت کا بھی گاہے بگاہے اہتمام کرتے رہتے تھے۔ اس خصوصیت کے باعث ان کے درباریوں کو انگشت بدنداں ہونے کا موقع اکثر ملتا رہتا تھا۔ چونکہ بادشاہ تو پھر بادشاہ سلامت تھے تو اس کے لئے داد و تحسین اور ہو ہاؤ کا غوغا درباری کارروائی کا لازمی جز ہوتا تھا۔

ایک روز کسمپرسی اور غربت کا مارا ’چیتھڑوں میں لپٹا ہوا ایک شخص مالی امداد اور اپنی داد رسی کی خاطر دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ سلامت کو اس کی ظاہری حالت پہ جو رحم آیا سو آیا لیکن اس فاقہ مست کی آنکھوں میں چھپی طمع اور حرص نے بادشاہ سلامت کو چونکا دیا۔ یہی وہ موقع تھا جس کو حضور نے عوام کی تربیت کے لئے چن لیا۔ اس سوالی کی الفاظی آؤ بھگت کی اور وقتی تسلی اور تشفی کروائی اور دربار میں سب کے سامنے اس کے لئے سرکاری زمین بخشنے کا اعلان کروا دیا۔

اعلان ہوا کہ سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے جتنی زمین اپنے قدموں سے ناپ لو گے وہ سب قطعہ اراضی تمہارے نام کر دی جائے گی۔ کئی دن کا بھوکا پیاسا وہ غریب شخص ایسا شاندار اعلان سن کے جاندار ہو گیا اور اپنے حصے کی زمین ناپنے کو فوراً بھاگ کھڑا ہوا۔ کئی وزراء نے شاید کف افسوس بھی ملا ہو کہ ایسی فیاضی تو کبھی ان پہ نہیں برسی لیکن آج اچانک ہی بیٹھے بٹھائے کئی مربع میل کا مالک یہ غریب بن جائے گا۔ بادشاہ کا مطمح نظر چونکہ کچھ اور تھا ’اس لئے وہ بھی خاموشی سے اپنے درباریوں کی حالت کا جائزہ لیتے رہے۔

دوسری طرف وہ شخص جو بھاگنا شروع ہوا تو خیالات کو بھی پر لگ گئے ’بھاگ تو زمین پہ رہا تھا لیکن خیالات نے اسے ہواؤں میں اڑا رکھا تھا کہ اراضی مل جائے گی‘ کاشت ہو گی ’فصلیں ہوں گی‘ مال و دولت اکٹھا ہو گا ’زندگی کے دن پھر جائیں گے‘ سب بھوک افلاس ختم ہوتی نظر آ رہی تھی۔ اس بدنی اور خیالی بھاگ دوڑ میں دوپہر کا وقت گزر گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہیں سے اب واپسی کی راہ لی جاتی تا کہ اراضی مل جائے لیکن زیادہ کی لالچ ’حرص اور لوبھ آڑے آیا کہ تھوڑا سا اور بھاگ لیا جائے تا کہ کچھ اور اراضی ساتھ شامل ہو جائے اور واپسی پہ رفتار تیز کر کے وقت سے دربار پہنچ جائیں گے۔

اسی لالچ میں وہ آگے بھاگتا رہا ’پاؤں کی رفتار اراضی تو شمار کرتی جا رہی تھی لیکن واپسی کے لئے وقت بھی اسی رفتار سے کم ہو رہا تھا۔ عصر کے وقت ہوش آیا کہ اب واپسی کی راہ لی جائے‘ سرپٹ بھاگا ’پورا زور لگایا‘ سانس اکھڑنے لگا ’بھاگتا رہا‘ لیکن وقت مقررہ سے پہلے ہی راستے میں گر گیا۔ بادشاہ سلامت کو اطلاع ہوئی کہ بندہ تو واپسی کا وعدہ وفا نہیں کر سکا تو بادشاہ سلامت نے درباریوں اور جنتا کو بتایا کہ کیسے انہوں نے اس کی آنکھوں کا لالچ پڑھ لیا تھا اور اسے باقی لوگوں کی عبرت بنانے کا سوچا۔

دنیاوی مادیت کا لالچ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا ’ایک دن جان کے لالے بھی پڑ جاتے ہیں۔ حرص کا بھوت جب سر پہ ناچنے لگے تو بچی کھچی عزت بھی رخصت ہونے لگتی ہے۔ مالک کے دیے ہوئے میں قناعت کرنا‘ اپنی مستقل اور انتھک محنت سے ترقی پانا ہی اصل کامیابی کا راز ہے۔ اپنے دستر خوان کے ہوتے ہوئے دوسرے کے خوان پہ نظر رکھنا احمقانہ بات ہو گی۔ اور اگر لامحالہ سامنے کے راستے مسدود بھی نظر آئیں تو ہاتھ پھیلائے بغیر اپنے دستیاب وسائل میں خوش اسلوبی سے رہنا ہی کسی اعزاز سے کم نہیں۔ دانائے راز فرماتے ہیں کہ خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پہ خوش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments