جب پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو عوام کیا سمجھیں؟


یہ ان دنوں کی بات ہے جب پی۔ ڈی۔ ایم اپنے عروج اور چڑھتی ہوئی جوانی کے تمام تر اداؤں، عشوؤں، غمزوں، شیرین بیانی اور گفتار سے اپنی سحر میں گرفتار دیوانوں کو اپنی جانب متوجہ اور ہمہ تن گوش کیے رکھتے تھے۔ تو عین اسی دوران پی۔ ڈی۔ ایم کا ایک سیاسی نعرہ یا شعار کسی جلسے میں ایک بینر پر لکھ کر مریم نواز ببانگ دہل مجمع کو پڑھ پڑھ کر گوش گزار کر رہی تھیں۔ اور وہ سیاسی نعرہ یا شعر الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا کے مصداق یوں لگ رہا ہے جیسے کسی نے وہ بینر اب ہاتھوں میں پکڑا ہوا ہو اور موجودہ وزیر اعظم کے خلاف سراپا احتجاج ہو۔ ”جب پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو سمجھ لینا کہ وزیراعظم چور ہے“

ہم کسی کا موازنہ نہیں کر رہے، اور ہمیں وزیراعظم شہباز شریف کی اس بات کا بھی احساس ہے کہ ان کے آئے ہوئے یا وزیراعظم بنے ہوئے تین مہینے ہوچکے ہیں اور تین مہینوں کا موازنہ پونے چار سالوں کے ساتھ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن پھر یہ سوال ذہن میں انگڑائیاں لینی شروع کرتا ہے کہ اگر کسی بیوپاری کو یہ پتہ ہو کہ جس لاٹ کی وہ سودا کرنے جا رہے ہیں وہ اندر سے غلاظت سے بھرا ہوا ہے لیکن وہ ان کو کسی کا چھوڑا ہوا یا واپس کیا ہوا مال کی وجہ سے سے سستے میں مل رہا ہو تو کیا وہ ان کو لینا چاہیے یا اس سودے کو کینسل کرنا چاہیے۔

اور بعد میں وہ لاٹ اپنا اثر دکھانا شروع کرے اور بدبو پھیلانا شروع کر دیں تو کیا وہ صرف یہ کہہ کر اپنی جان چھوڑا سکتا ہے کہ یہ کسی، اور کا، سامان تھا یہ انھوں نے تین چار سال استعمال کیا تھا اس سے اس لئے تعفن اٹھ رہا ہے اور اس کا موازنہ ان کے تین مہینوں کا پہلے والے مالک کے تین چار سالوں کے ساتھ نہ کیا جائے۔ کیا عوام اب اس بات کے لئے رہ گئے؟ کہ ان حکمرانوں کو جب اقتدار میں ہوں تو ان کو اپوزیشن کے وقتوں کی تمام تقریروں کی کلپس بار بار سنائی جائے کہ جو کچھ وہ اپوزیشن میں حسب اقتدار کے لیے بولتے تھے وہ آج ان کے اقتدار کے وقت ان کے گلے کا طوق بنتا جا رہا ہے۔

ہر برسر اقتدار شخص یا لیڈر اپوزیشن کے وقتوں کا الٹ ہوتا ہے اور جب پلٹ کر عوام میں آتے ہیں تو پھر سے عوام کے خیر خواہ اور ہمدرد بن جاتے ہیں۔ کبھی کبھار بلکہ اکثر اپوزیشن اور حسب اقتدار ایک دوسرے کے مصدقہ نقل ہوتے ہیں۔ بس فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ بولنے کی جگہیں یا سٹیجز الگ الگ ہوتی ہیں چہرے وہی پرانے، چرب زبانی وہی گزشتہ کی مانند اور عوام وہی ماضی کی طرح تختہ مشق۔ دراصل ہمارے سیاسی خدمت گاروں کے ساتھ بولنے اور پیش کرنے کے لئے سوائے الزام تراشیوں اور ایک دوسرے کی کردار کشی کے ہوتا ہی کیا ہے۔

بجائے اس کے کہ کسی مباحثے، سیمینار، کارنر، میٹنگز یا جلسے جو کسی خاص مقصد یا ایشو کے لیے منعقد یا بلائے گئے ہوں اس پر بات چیت کریں، اس ایشو کی کمی بیشی کو زیر بحث لائے، اس پروگرام کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر مخالفین کی کردار کشتیوں، الزام تراشیوں اور لعن طعن پر اتر آئیں گے اور ہمارا میڈیا ان کے منہ سے نکلے ہوئے ان ”بابرکت کلمات“ کو من و عن عوام تک پہنچانی کی ”ذمہ داری“ بہ حسن و خوبی سر انجام دینے کے لئے ہر گھڑی تیار و کامران رہتی ہے بلکہ ہفتوں ہفتوں ان، بابرکت کلمات، کو دہراتے بھی رہیں گے۔

دراصل ہم ایک ایسے سیاسی بھنور میں پھنس چکے ہیں کہ جو بھی اس کے چکر یا پھیر کے دائرے میں آتا ہے تو سب کو ایک ہی انداز میں گھمانے اور چکرانے کے بعد اپنے آغوش میں لے لیتا ہے، تو ظاہر ہے گھوما اور چکرایا ہوا بندہ باتیں بھی گھومی اور چکرائی ہوئی کرے گا خوا وہ اپوزیشن میں ہوں یا پھر اقتدار میں دونوں کے ماضی اور حال کے فرمائے ہوئے ریکارڈ کے کیسٹس موجود ہوتے ہیں بس اس کا سائیڈ بدلنا پڑتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments